کاربر:Saeedi/صفحه تمرین: تفاوت میان نسخه‌ها

از ویکی‌وحدت
خط ۱۴: خط ۱۴:
حضور کے بعد ان کے نام لیوا اس دین میں تحریف کر دیتے ہیں اور دین کی اس محرف صورت کو مذہب کہا جاتا ہے اور اس کے نام لیواؤں نے رفتہ رفتہ دین کو بلند  
حضور کے بعد ان کے نام لیوا اس دین میں تحریف کر دیتے ہیں اور دین کی اس محرف صورت کو مذہب کہا جاتا ہے اور اس کے نام لیواؤں نے رفتہ رفتہ دین کو بلند  
سطح سے نیچے اُتار کر مذہب بنا دیا ۔ مذہب بن کر اسلام ایک جیتے جاگتے متحرک اور کاروان انسانیت کو اس کی منزل مقصود کی طرف لے جانے والے نظام حیات کی
سطح سے نیچے اُتار کر مذہب بنا دیا ۔ مذہب بن کر اسلام ایک جیتے جاگتے متحرک اور کاروان انسانیت کو اس کی منزل مقصود کی طرف لے جانے والے نظام حیات کی
بجائے چند بے جان عقائد اور بے روح رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا۔
بجائے چند بے جان عقائد اور بے روح رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا <ref>مولانا عبد الرحمن گیلانی آئینہ پرویزیت ، مکتبہ دار السلام وسن پورہ سٹریٹ نمبر ۲۰ لا ہور</ref> ۔
  == آخرت کے متعلق نظریہ ==
  == آخرت کے متعلق نظریہ ==
آخرت کے متعلق بھی غور وفکر سے کام لینے کی غلام احمد پرویز  نے تاکید کی ہے۔ لہذا قرآن کی رو سے آخرت پر ایمان بھی اندھی عقیدت کی بنا پر نہیں لایا جاتا اس صداقت کو غور وفکر کے بعد تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرویزی مسلک کہتا ہے قرآن کی تفسیر قرآن کے اندر سے کر و حدیث منطق ، اصول اور تصوف کو بھی نہیں مانتے۔  
آخرت کے متعلق بھی غور وفکر سے کام لینے کی غلام احمد پرویز  نے تاکید کی ہے۔ لہذا قرآن کی رو سے آخرت پر ایمان بھی اندھی عقیدت کی بنا پر نہیں لایا جاتا اس صداقت کو غور وفکر کے بعد تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرویزی مسلک کہتا ہے قرآن کی تفسیر قرآن کے اندر سے کر و حدیث منطق ، اصول اور تصوف کو بھی نہیں مانتے۔
 
== مشہور کتابیں ==
== مشہور کتابیں ==
* مقام حدیث  
* مقام حدیث  

نسخهٔ ‏۱۸ دسامبر ۲۰۲۳، ساعت ۱۴:۵۴

پرویزی مسلک کے بانی غلام احمد پرویز صاحب ہیں یہ اسلام کے سکالر تھے۔ غلام احمد پرویز ۹ جولائی ۱۹۰۳ء کو ضلع گرداسپور کے قصبہ بٹالہ میں پیدا ہوئے ۱۹۲۱ ء میں لیڈی آف انگلینڈ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کیا بی اے پاس کرنے کے بعد ۱۹۵۴ء میں وزارت داخلہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدہ پر فائز تھے پرویز نے ۲۴ فروری ۱۹۸۵ ء کولا ہور میں وفات پائی۔

عقا‏ئد

سلام احمد پرویز کے دادا مولوی چودھری حکیم رحیم بخش حنفی مسلک کے ایک عالم اور سلسلہ چشتیہ کے بزرگ تھے. غلام احمد پرویز قرآن کے علاوہ کسی اور علم کو نہیں مانتے نہ حدیث کو صرف ان حدیثوں کو مانتے ہیں جو قرآن سے مطابق ہو وہ درست خیال کرتے ہیں باقی سب کی نفی کرتے ہیں۔ پرویزی مسلک کے نزدیک قرآن کی رو سے ایمان کی صداقت کو بلا سوچے سمجھے بغیر آنکھیں بند کر کے مان لینے کا نام نہیں کسی دعوئی کو علم و عقل کی رو سے پر کچھ کر قلب و دماغ کے پورے اطمینان کے ساتھ اعلی وجہ البصیرہ صحیح تسلیم کرنے کو ایمان کہتے ہیں [۱]۔

اسلام دین ہے مذہب نہیں

پرویزی مسلک کے نزدیک اسلام دین ہے مذہب نہیں دین اور مذہب میں بنیادی فرق:

  • خدا کے رسول دین کو اس کی اصل شکل میں وحی کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔
  • اسلام خُدا کی طرف سے عطا شدہ آخری اور مکمل دین ہے جو بنی نوع انسان کی تمام مشکلات یعنی زندگی کے تمام بنیادی مسائل کا حل اپنے اندر رکھتا ہے۔
  • قرآن کریم اپنی اصلی اور غیر محرف شکل میں انسان کے پاس موجود ہے لہذا یہ جب چاہیں اس مذہب کو پھر سے دین میں تبدیل کر سکتے ہیں ۔
  • قرآن کریم اسلام کا ضابطہ قوانین ہے دین اُس کے اندر مکمل اور محفوظ کر دیا گیا ہے لہٰذا اسلامی تصورات وہ ہیں جن کی سند قرآن کریم سے مل جائے غلام احمد پرویز صاحب نے ان تصورات کو اپنی بصیرت کے مطابق قرآن ہی سے اخذ کیا ہے اور انہیں قرآنی اسناد کے ساتھ پیش کیا ہے۔
  • انگریزی زبان میں چونکہ دین کے لئے کوئی الگ لفظ نہیں تھا اس لئے انہوں نے باقی مذاہب کی طرح اسلام کو بھی ایک مذہب قرار دے لیا۔

حضور کے بعد ان کے نام لیوا اس دین میں تحریف کر دیتے ہیں اور دین کی اس محرف صورت کو مذہب کہا جاتا ہے اور اس کے نام لیواؤں نے رفتہ رفتہ دین کو بلند سطح سے نیچے اُتار کر مذہب بنا دیا ۔ مذہب بن کر اسلام ایک جیتے جاگتے متحرک اور کاروان انسانیت کو اس کی منزل مقصود کی طرف لے جانے والے نظام حیات کی بجائے چند بے جان عقائد اور بے روح رسومات کا مجموعہ بن کر رہ گیا [۲] ۔

== آخرت کے متعلق نظریہ ==

آخرت کے متعلق بھی غور وفکر سے کام لینے کی غلام احمد پرویز نے تاکید کی ہے۔ لہذا قرآن کی رو سے آخرت پر ایمان بھی اندھی عقیدت کی بنا پر نہیں لایا جاتا اس صداقت کو غور وفکر کے بعد تسلیم کیا جاتا ہے۔ پرویزی مسلک کہتا ہے قرآن کی تفسیر قرآن کے اندر سے کر و حدیث منطق ، اصول اور تصوف کو بھی نہیں مانتے۔

مشہور کتابیں

  • مقام حدیث
  • شهرکار رسالت
  • آدم وابلیس
  • اسلام کیا ہے؟ پرویزی مسلک کا رسالہ طلوع اسلام جو ہر ماہ شائع ہوتا ہے جس سے پرویزی مسلک کی تبلیغ کی جاتی ہے۔

عبادت گاہ

پرویزی مسلک نے اپنی الگ عبادت گاہیں نہیں بنا ئیں۔ پرویزی مسلک کے لوگ چھوٹے چھوٹے گھر لے کر وہاں پر غلام احمد پرویز صاحب کی کتا ہیں اور ویڈ یوفلم دکھاتے ہیں اور پرویزی مسلک کا اپنے لوگوں میں یہی تبلیغ کا راستہ ہے۔ عموماً چھٹی والے دن صبح کو سارے پرویزی مسلک کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ دس سے بارہ بجے تک وجہ یہ ہے کہ کسی نماز کا وقت آئے نہ ہی کوئی اعتراض پیدا ہو۔ پاکستان میں مختلف شہروں میں مقرر کردہ مقامات پر درس قرآن کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔

نماز

پرویزی مسلک پانچ وقت نماز کی جگہ دواوقات نماز کے قائل ہیں۔ قرآن میں نماز قائم کرنے کا تصور صبح شام کا ہے پرویزی مسلک صلوہ کو نماز کہنے سے گریز کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لفظ مجوسیوں کا ہے صوم یا روزہ کے مطلق پرویزی مسلک کا لٹریچر بہت کم ہے ۔ حج کے موقع پر قربانی صرف حاجیوں کے لئے ضروری سمجھتا ہے مقامی حضرات کے لئے ضروری نہیں سمجھتے۔

قرآن کے متعلق عقیدہ

پرویزی مسلک میں زیادہ تر لوگ صرف قرآن کو مانتے ہیں اس لئے وہ قرآن اور انجیل کا ہر وہ واقعہ جوانجیل اور قرآن میں ملتا ہے بظاہر وہ مختلف ہوگا مثلا مریم ( والدہ عیسی ) نے قرآن کے مطابق سرائے رم میں بچہ (عیسی) کو جنم دیا۔ لیکن انجیل بتاتی ہے بیت لحم میں اس طرح پرویزی مسلک مناظر انا طور پر دیکھتے ہیں اور فوقیت قرآن کو دیتے ہیں اور اس بات کو کچی جانے ہیں اور انجیل کی دلالت کو تحریف قرار دیتے ہیں ۔ پرویز لکھتے ہیں سردست صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اناجیل کو نہ حضرت عیسیٰ نے خود لکھا اور نہ لکھوایا بلکہ آپ کے بعد آپ کے شاگردوں نے از خود ( روایت ) مرتب کیا یعنی یہ کتابیں حضرت عیسیٰ کی زندگی کی تاریخ ہیں۔ لیکن قرآن میں ہے کہ حضرت عیسی نے کہا کہ میں کتاب لے کر آیا ہوں۔

جمعہ کی نماز

جمعہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ جمعتہ المبارک کا روز ہے محلہ مسلمان اپنے طور پر اس فکر میں لگے ہوئے ہیں کہ مساجد کی صفیں اور دریاں درست کی جائیں جمعہ کا روز ترجیحات اول میں شامل ہے ادھر اذان ہوئی اُدھر نمازی حضرات بھی جوق در جوق مساجد میں آنے لگے جمعہ کی نماز اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے اور ثواب حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ خیال کیا جاتا ہے اور ثواب کیا ہے؟ یہ انسانی اعمال کا وہ نتیجہ ہے جو مخصوص شکل میں اس دنیا میں ملتا ہے اور آخرت میں بھی ملے گا البتہ ہمارے ہاں ایصال ثواب کا جو عقیدہ رائج ہے قرآن سے اس کی سند نہیں ملتی ایسا معلوم ہوتا ہے اس عقیدہ کو اسلام میں زبر دستی داخل کر لیا گیا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اس خود ساختہ مذہب میں لوگوں کی کیفیت ایسی ہوتی ہے جیسے جانوروں کا ریوڑ جس میں ماسوائے چرواہے کی بے معنی آوازوں کے اور کچھ سننے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ اندھے اور گونگوں کا یہ ہجوم جو عقل و فکر سے کام نہیں لیتا ایک لحہ کے لئے بھی سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اس عظیم اجتماع میں کیوں آئے تھے اور کیا لے کر جا رہے ہیں اس کی حکمت کیا ہے۔ اس کے مقاصد اور غرض وغایت کیا ہے؟ سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلہ میں قرآن ہماری کیا راہنمائی کرتا ہے اسلام کیا ہے، [۳]۔

طلوع اسلام

۱۹۳۸ء میں علامہ اقبال موصوف نے وفات پائی تو ان کی یادگار کے طور پر سید نذیر نیازی نے ایک ماہنامہ بنام طلوع اسلام جاری کیا تھوڑی مدت کے بعد پرویز صاحب نے ماہنامہ کی سر پرستی سنبھالی ۱۹۴۷ء میں دہلی سے کراچی منتقل ہوئے ماہنامہ کا جلد نمبر بھی ۱۹۴۷ء سے ہی شروع کیا گیا ۱۹۵۵ء میں گلبرگ کوٹھی نمبر 25/8 میں منتقل ہو گئے یہیں غلام احمد پرویز نے ۸۲ سال کی عمر میں وفات پائی طلوع اسلام نے لغات القرآن، مطالب الفرقان، معارف القرآن، مفہوم القرآن اور تبویب القرآن کی کئی کئی جلد میں ہیں۔ پرویز صحاح ستہ کے جامعین کا مختصر خاکہ اس طرح پیش کرتے ہیں: یہ سب کے سب ایرانی تھے ان میں عرب کا رہنے والا کوئی نہیں تھا۔ احادیث کی جمع و تدوین کا کام غیر عربوں کے ہاتھوں سرانجام ہوا۔ یہ تمام حضرات تیسری صدی ہجری میں ہوئے۔ یہ تمام احادیث لوگوں نے انہیں زبانی سنائی ان کا کوئی تحریری ریکارڈ اس سے پہلے موجود نہیں تھا [۴]۔ الگو:خانہ معلومات مذاہب اور فرقے

اہل حدیث اسلامی علوم، حدیث وفقہ اور تاریخ وتراجم وغیرہ موضوعات پر لکھی گئی کتابوں میں اصحابِ حدیث، اہل حدیث، علمائے حدیث، جیسے الفاظ طلبہٴ حدیث اور حدیث کی روایت اور درس وتصنیف کے ذریعہ اس کی خدمت میں مشغول رہنے والوں کے لیے استعمال ہوئے ہیں، نیز قدیم مصنَّفات میں امام مالک، امام شافعی کے مذہب ومسلک کی پیروی کرنے والے علما کا تعارف بھی اہلِ حدیث کے لقب سے کیاگیا ہے۔ اسی طرح اہل السنہ والجماعہ کا ذکر بھی اہلُ الحدیث کے عنوان سے کتابوں میں ملتا ہے۔

اہل حدیث

لفظ اہل حدیث دولفظوں سے مرکب ہے پہلا لفظ "اہل“ ہے دوسرا لفظ " الحدیث ہے اس کا ترجمہ حدیث والا بنتا ہے اہل حدیث اللہ کے پاک کلام قرآن مجید فرقان حمید کا نام ہے پھر حدیث حضور کے اقوال وافعال کا نام ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اہل الحدیث کے معنی قرآن وحدیث والے کے ہیں پس مسلک اہل الحدیث کی بنیاد اولین قرآن مجید ہے اور اس کے بعد احادیث رسول۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی صرف یہی دو چیزیں مسلک اہل حدیث کی بنیاد ہیں اور یہ دونوں چیزیں جدید نہیں بلکہ اسلام کی ابتدائی بنیاد ان ہی پر رکھی گئی ہے۔ اہل حدیث اپنے آپ کو عملاً اہل سنت کہلاتے ہیں اور مذہب اہل الحدیث ۔ ان کے اصول سنت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑیں اور ان کی اقتداء کریں اور بدعت ترک کردیں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے [۵]۔

تعریف اہل سنت

اہل سنت ، اہل حدیث اور محمدی وغیرہ ناموں سے اتباع رسول اور تعلق بالرسول کا اظہار ہوتا ہے اہل حدیث کا نام اس لئے بھی زیادہ جامع ہے کہ لفظ " حدیث قرآن کو بھی شامل ہے اس لئے اہل حدیث سے مراد وہ جماعت جو قرآن و حدیث پر عمل کرے۔ اہل حدیث کا نظریہ ہے کہ ہم کوئی فرقہ نہیں بلکہ اہل حدیث تو عین اسلام ہے اسلام نام، نبی کی پیروی کا ہے۔ طور کے بعد کسی کو نہیں پکڑتے کہ اس کی تقلید کر کے فرقہ نہیں بلکہ حضور کی حدیثوں پر عمل 15 ہیں اسلام سُنتِ رسول کا نام ہے۔ اہلِ حدیث وہ جماعت ہے جو حضرت محمد کو کافی سمجھتی ہے اور آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو امام نہیں بنائی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور کو چھوڑ کر کسی اور کو امام بنانا محمد رسول اللہ سے غداری کے مترادف ہے۔ مذہب اہل الحدیث حضور کی تمام سنتوں اور حدیثوں کا محافظ ہے اور سلفی مسلک کا واحد علمبردار ہے[۶]۔

عقائد اہل حدیث

  • جولوگ قال دیکھتے یا شگون مانتے یا مزارات کی تعظیم کرتے یا مزارات کو آراستہ کرتے یا مسکرات کو استعمال کرتے یا ریشمی کپڑے پہنتے اُن کو اچھا نہیں کہتے کہ یہ باتیں شریعت رسول کے خلاف ہیں۔
  • اہل حدیث کے نزد یک جادو کرنا کفر ہے پس جس نے جادو کیا یا اس سے رضا مند ہوا وہ کفر کا مرتکب ہو گیا۔ جو نجومی کے پاس آیا اور اس نے اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا تو اس کی چالیس دن نماز قبول نہ کی جائے گی۔
  • دنیا کے مسلمان بھٹک گئے ہیں جو پیر اور اولیاء کے اقوال کی پیروی کرتے ہیں اور یہ رواج اُنہوں نے اپنے فائدے کی غرض سے دیئے ہیں۔
  • اہل حدیث صرف قرآن مجید اور احادیث نبوی کو اپنا بادی اور راہنما اقرار دیتے ہیں ۔ اور اُس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا اُس شخص کو پکا رہتا ہے جو اُس کو قیامت تک جواب نہ دے گا۔ مردوں سے دُعائیں مانگنا ان کی دہائی
  • دینا ان کے لئے نذریں ماننا اور قربانی پیش کرنا اس میں شرک داخل ہے۔ یعنی اللہ کے سوا اُس چیز کو مت پکارو جو نہ تجھ کو نفع دے اور نہ تجھ کو ضرر پہنچا سکے محمد بن عبد الوہاب نے کہا جو شخص بنی یا ولی یا صالح کو پکارے یا اُس سے شفاعت کا سوال کرے سو وہ مشرکین کی طرح ہے۔ شفا کے حصول کے لئے دھاگہ کڑایا چھلا وغیرہ ایسی دیگر اشیا بھی شفا کے لئے ہرگز نہیں پہن سکتے ۔
  • انبیاء و اولیاء و صالحین کی زیارت کو جانا بھی شرک قرار دیا اور کہا کہ کسی بھی یا ولی کو وسیلہ سمجھ کر پکارنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ جس نے اپنے اور اللہ کے درمیان کچھ واسطے بنا لیے اور اُن سے دُعائیں مانگیں ان سے شفاعت طلب کی اور اسی پر بھروسہ کیا تو بالا جماع کفر کا ارتکاب کیا ۔ [۷] ۔ اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ رحمن اور رحیم ہے۔ اور جو کسی کام کو سوائے اللہ کے کسی دوسرے کی طرف منسوب کرئے جو بطور مجاز عقلی کے ہو یہ بھی غلط ہے جیسے مجھے اس دوا نے نفع پہنچایا یا اس ولی کی وجہ سے میرا یہ کام ہو گیا۔
  • جو شخص سوائے اللہ کے کسی اور سے یا اُس کی مخلوق میں سے دُعا کرتا ہے اور اُسے پکارتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ان کے پکارنے سے مجھے نفع ہو گا یہ بہت بڑا گناہ ہے ایسا شخص مشرک ہے [۸]۔
  • یہ جو قبروں پر گنبد بنائے جاتے ہیں یہ اس زمانے میں برابر بت پرستی کے ہو گیا اس سے یہ غرض ہوتی ہے۔ کہ صاحب مقبرہ سے حاجت طلب کریں گے اور اس کے سامنے گریہ زاری کریں گے اور وہ ہماری مشکلات کو حل کرے گا جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا ۔
  • اہل حدیث کے مطابق یونانی فلسفہ تصوف نے بدعات ، شرک تقلید رسم و رواج وغیرہ نے دین اسلام کے صاف و شفاف چہرے کو دھندلا کر رکھ دیا ہے ۔ اہل حدیث کے عقائد میں ایک اہم عقیدہ عدم وجوب تقلید شخصی کا ہے۔ تقلید اور شرک کو چولی دامن کا ساتھ جانتے ہیں اور ہر مشرک پہلے مقلد ہوتا ہے پھر شرک۔ اگر تقلید نہ ہوتو شرک کبھی پیدانہ ہو تقلید ہمیشہ جاہل بے عقل کرتا ہے اور شرک بھی وہیں پایا جاتا ہے۔ جہاں جہالت اور بے عقلی ہو ان دونوں کے لئے ایسی فضا کی ضرورت ہے جہاں عقل کا فقدان اور عقیدت کا زور ہو ۔ ان دونوں کی بنیاد کسی کو حد سے زیادہ بڑا جاننے اور اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو چھوٹے سے چھوٹا سمجھنے پر ہے اور یہیں عبادت کا مفہوم ہے عبادت کہتے ہیں دوسرے کو بڑے سے بڑا جان کر اپنے آپ کو اس کے مقابلے میں چھوٹے سے چھوٹا سمجھنا۔
  • اہلِ سنت الجماعت مسلمان فقہ کے چار بڑے اماموں امام ابو حنیفہ، امام شافعی ، امام مالک، امام احمد بن حنبل میں سے کسی ایک کے پیروکار اور اُن کے طے کردہ مسائل فقہ میں سے کسی ایک کے مقلد ہوتے ہیں۔ لیکن اہل حدیث اسے غیر ضروری سمجھتے ہیں اور فقہی اماموں کی بجائے احادیث کی پیروی کرتے ہیں۔ اہل حدیث نماز میں ہاتھوں کو زیر ناف یا بالائے ناف باندھنے آمین آہستہ آہستہ کہنے پر حنفیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔
  • اہل حدیث تصوف کو بھی ٹھیک نہیں سمجھتے اور اس کی مخالفت کرتے ہیں مسلمانوں کی فضول رسموں سے مثلاً گانے بجانے بیاہ شادی ، ختنے اور تجہیز وتکفین کی فضول خرچیوں سے روکتے ہیں اور پیر پرستی و قبر پرستی کے نقائض دور کرنے میں بھی اس جماعت نے بڑا کام کیا ہے۔ اہل حدیث کہتے ہیں جو لوگ مسجد کوفہ میں بیٹھے ہوئے تسبیحات دانوں پر شمار کر رہے تھے یاذ کر ہی کر رہے تھے وہ مشروع عمل ہے۔ چونکہ اس کی ہیبت و کیفیت رسول اللہ سے ثابت نہ تھی اس لئے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے منع کر دیا [۹]۔
  • اہل حدیث حلالہ کو صحیح نہیں سمجھتے اس لئے اہل حدیث حلالہ کے قائل نہیں یہ صرف حنفی فقہ کے لوگ ہیں۔ جو حلالہ کو جائز تصور کرتے ہیں اہل حدیث کے مطابق حلالہ اور متعہ تقریبا دونوں ایک جیسا ہی فعل ہے متعہ اور حلالہ دونوں صورتوں میں طے شدہ مدت کے لئے نام نہاد نکاح کیا جاتا ہے اور دونوں صورتوں میں بدکاری

کو خوب فروغ ملتا ہے۔

  • شعبان کی پندرہویں ( شب برات ) کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور اس کے متعلق وارد حدیثیں صحیح نہیں ہیں پندرہویں تاریخ کی رات کو محفل منعقد کرنا اور اس میں قربت الہی کی غرض سے بہت سارے کام کرنا کہ یہ ثواب کا کام ہے اس سلسلے میں جامع قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ عبادت جسے لوگوں نے رائج کر لیا ہو اور حضور نے اس کو کرنے کا حکم نہ دیا ہو اور نہ خود کیا ہو اور نہ ثابت رکھا ہوتو وہ بدعت ہے۔ ربیع الاول کی بارھویں تاریخ کو کچھ لوگ محفل عید میلادالنبی منعقد کرتے ہیں نہ تو حضور نے اور نہ ہی صحابہ اور نہ ہی آپ کے خلفائے راشدین نے اسے کیا ہے اور نہ ہی دوسری اور تیسری صدی والوں نے کیا ہے بلکہ یہ دین میں ایک نئی ایجاد کر دہ ہے۔ محفل میلاد میں رسول اللہ کو پکارنا آپ سے فریادری کرنا اور مدد طلب کرنا ہو تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہو جائے گا اور ایسے ہی ان کا پکارنا یا رسول اللہ ! ہماری مد فرما مدد مدد یا رسول اللہ یا رسول اللہ تو ہماری فریادرسی کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ بعض لوگ ما صفر کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس مہینے میں سفر نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس مہینے صفر نامی ایک کیڑا ہوتا ہے جو پیٹ میں تکلیف دیتا ہے تو لوگ اس سے بدشگونی لیتے ہیں یہ جہالت اور گمراہی ہے۔

نبی کریم کا ارشاد گرامی : تم لوگ اپنے اوپر میری سنت اور میرے بعد ہونے والے خلفائے راشدین کی سنت کو ( اختیار کرنا لازم کر لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو" بلکہ اللہ کی شریعت کو پکڑے رہنا اس کے راستے پر چلنا اس کی حدود پر رک جانا اور لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتوں کو چھوڑ دینا واجب و ضروری ہے [۱۰]۔

مولوی اسمعیل دہلوی

  • اپنی کتاب تقویتہ الایمان ص (۱۵) میں لکھتے ہیں:
  • جو مسلمان کسی بھی یا ولی کی پکی قبر کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی یا ولی کی پکی قبر کی زیارت کے لئے دور دور سے سفر کر کے جائے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی ولی کی قبر پر روشنی کرے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی نبی کے مزار پر خلاف ڈالے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی، نبی پر چادر چڑ ھائے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی ، ولی کے مزار سے رخصت ہوتے وقت ادب کے لئے آئے
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر کو چوم لے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر کو مور چھل جھلے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر پر شامیانہ کھڑا کرے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی نبی ، ولی کی چوکھٹ کو بوسہ دے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی بنی ، ولی کی قبر پر ہاتھ باندھ کر کچھ عرض کرے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی بنی ، ولی کی قبر پر کسی طرح کی مراد مانگے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی ، نبی کی قبر کی خدمت کے لئے مجاور بن کر رہے وہ مشرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی ولی، نبی کے مزار کے ارد گرد کے جنگل کا ادب کرے وہ مشرک ہے [۱۱]۔

اشرف علی تھانوی

مولوی اشرف علی تھانوی بہشتی زیور حصہ اول ص ۶ - ۴۵ پر مندرجہ ذیل لکھا ہوا ہے :

  • کسی کو ڈور سے پکارنا اور یہ سمجھنا کہ اس کو خبر ہو گئی ۔ کسی سے مرادیں مانگنا کسی کے سامنے جھکنا سہرا باندھنا علی بخش، حسین بخش ، عبدالنبی و غیر ہ نام رکھنا شرک ہے۔
  • جو مسلمان کسی کے سامنے جھک گیا وہ مشرک ہے۔
  • جس مسلمان نے کسی سے مراد مانگی وہ مشرک ہے [۱۲]۔

اہل حدیث کی معتبر کتابیں

اہل حدیث پر ہیز گار مسلمان ہیں وہ سنیوں کی مرتب کردہ احادیث کی چھ کتب (صحاح ستہ ) کو قبول اور بعد کی شرعوں کو مستر د کرتے ہیں۔ اہل حدیث حدیث کی کتابوں کو تین درجوں سے مانتے ہیں۔ اعلی درجے کی تین حدیث کی کتابیں بخاری ،مسلم، موطا امام مالک، درمیانے درجے میں ترندی، ابوداؤد، نسائی، اور مسند احمد وغیرہ تیسرے درجے میں طحاوی ، طبرانی بیہقی وغیرہ کتا بیں ہیں [۱۳]۔

آزادی اور اجتہاد

اہل حدیث آزادی ضمیر اور اجتہاد کے حامی ہیں وہ خُدا کی وحدانیت پر زور دیتے ہیں۔ اللہ کی الوہیت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ معبود برحق ہے اور اس کے علاوہ سارے معبود باطل ہیں اسماء وصفات اسماء حسنی عالی مرتبہ صفات ہیں۔ اللہ تعالے اپنی مخلوقات کے ساتھ زمین پر موجود ہے کا عقیدہ رکھنے والے کو گمراہ سجھتے ہیں کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کو نا مناسب اور بری صفات سے متصف کیا ہے۔ مسلمانوں سے جب پوچھا جائے اللہ کہاں ہے تو اکثر لوگ جواب دیتے ہیں اللہ ہر جگہ ہے یاد رکھئے یہ عقیدہ مسلمانوں کا نہیں۔ جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے وہ ہرگز مسلمان نہیں بلکہ مشرک ہیں ۔ قرآن اور حدیث یہ بتاتے ہیں کہ اللہ آسمانوں کے اوپر یعنی عرش پر ہے البتہ اللہ کا علم و قدرت ہر زمان و مکاں اور ہر شے کو محیط ہے [۱۴]۔

حیات برزخی

اہل حدیث حضور کی برزخی حیات کے قائل ہیں دنیوی حیات کے قائل نہیں۔ دنیا میں آپ خود زندہ نہیں بلکہ آپ کی نبوت زندہ ہے برزخ میں اللہ کے ہاں آپ خود زندہ ہیں ۔ حیات کے متعلق اہل حدیث کا عقیدہ ہے کہ حضور صرف سلام سننے کے لئے کیا حیات ہیں یہ حیات کیسی کہ اُن کے عاشق اُن کی آنکھوں کے سامنے شرک و بدعت کریں اور وہ چپ پڑے اُن کو گمراہ ہوتے دیکھتے رہیں اور سلام سنتے رہیں ۔ آپ سلام سننے کے لئے دنیا میں نہیں آئے تھے بلکہ شرک و بدعت کو مٹانے اور دین سیکھانے کے لئے آئے تھے [۱۵]۔

زیارت اولیاء

اہل حدیث اماموں اور اولیاء کے احترام کو بھی تو حید کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور کسی بھی پیغمبر بزرگ یا ولی کے توسط سے دُعا مانگنے کے خلاف ہیں۔ دُعا کسی انسان کے واسطہ کی محتاج نہیں بلکہ دُعا براہ راست اللہ تعالی سے مانگی جائے ۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرنا شرک اکبر کہلاتا ہے ۔ مثلاً غیر اللہ کو پکارنا مردوں سے فریاد کرتا مدد مانگنا یا ان لوگوں سے مدد مانگتا جو ہیں تو زندہ لیکن موقع پر موجود نہیں [۱۶]۔ اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو مت پکا رو جو تمہیں نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تم ایسا کرو گے تو ظالموں (مشرکوں ) میں سے ہو گے۔ اہل حدیث کے مطابق درگاہوں پر حاضری دینا جائز نہیں صرف بیت اللہ شریف کے علاوہ کسی درگاہ کا طواف جائز نہیں ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک تمباکو نوشی اور تسبیح ٹھیک نہیں ہے۔ انہیں امید ہے کہ امام مہدی کے ظہور پر دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اہل حدیث کے مطابق ایسا شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جوان واجب الاحترام شخصیات کو گالی دے جو عشرہ مبشرہ میں سے ہے۔ سیاسی لحاظ سے ان کی سب سے اہم اور قابل مذمت رائے یہ ہے کہ تمام کافروں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے [۱۷]۔

قیاس

فقہ کا چوتھا ماخذ قیاس ہے جب دو چیزوں میں علت ایک ہی ہو تو ایک کا حکم شرع میں معلوم ہونے کی صورت میں دوسری کو بھی پہلی سے ملا دینے کا نام قیاس ہے۔ جن باتوں میں کتاب وسنت خاموش ہوں اور اجماع بھی موجود نہ ہو ان میں قیاس کے بغیر چارہ نہیں حنفیوں کے ہاں قیاس کے متعلق اس میں وسعت ہے مگر اہل حدیث کے نزدیک شدت ہے امام احمد بن حنبل نے حدیث ضعیف کو قیاس پر ترجیح دی ہے۔ شیعہ زیدیہ کے ہاں قیاس مقبول ہے اہل سنت میں ظاہر یہ اور شیعہ امامیہ کے نزد یک قیاس کی کوئی اصل نہیں [۱۸]۔ ایک ایسے گروہ کا مسلک ہے جو فقہاء کے چار مکتبوں میں سے نہ تو بنیادی اصولوں کو اور نہ قانون کی باریکیوں کو تسلیم کرتا ہے اور نہ دینی اصولوں میں حنبلیوں اشعریوں یا ماتریدیوں کے نقطہ نظر کو مانتا ہے بلکہ صرف قرآن کے احکام اور نبی کریم کے قول فعل ( حدیث وسنت کا خود کو پابند سمجھتے ہیں ) اور صرف حضور کی پیروی کرتے ہیں انہی کو اپنا امام و بادی اور پیرو مرشد سمجھتے ہیں ان کے سوا کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہوتے ۔ لفظ وہابی : لفظ وہابی کے لفظی معنی وہاب والا یا بندہ خدا ہیں مگر دو معنے اس کے بُرے ہیں ایک معنی کو تو مذہبی محاورے میں بُرا سمجھا جاتا ہے اور دوسرے معنے کو پیٹیکل اصطلاح میں بُرا سمجھتے ہیں یہ لوگ اس لقب وہابی سے کمال نفرت رکھتے ہیں اور ان کو وہابی کہنا بر الگتا ہے یہ اپنے آپ کو محمدی بھی کہتے ہیں [۱۹]۔

حوالہ جات

الگو:حوالہ جات زمرہ:مذاہب اور فرقے








سید محمد دهلوی
نام کاملسید محمد دهلوی
نام‌های دیگرخطیب اعظم
اطلاعات شخصی
محل تولدپاکستان
روز درگذشت۲۹ جمادی‌الثانی
محل درگذشتکراچی
دیناسلام، شیعه
استادان
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات مطالبات شیعه
وبگاهjafariapress.com

سید محمد دهلوی یکی از مصلحان اجتماعی و سیاسی و اولین رهبر شیعیان پاکستان بود. وی بعد از استقلال پاکستان به این کشور آمد و خدماتی زیادی در زمینه سیاسی، فرهنگی، اجتماعی و رفاهی انجام داد.

زندگی‌نامه

سید محمد دهلوی در سال 1317ه ق، مطابق 1899م در پتین هیری، بلوک بجنور (یوپی) هند در خانوادۀ اهل علم متولد شد. وی بعد از تأسیس پاکستان به شهر کراچی آمد و به جای سخنرانی به تألیف و تصنیف پرداخت و برای این کار به کتابخانه‌ای نیاز پیدا کرد، چنانچه 8 هزار جلد کتاب‌های مهم و نادر را جمع آوری کرد و همه آنها را در زندگی خود به تولیت حسن علی پیر ابراهیم سپرد. وی در 29 جمادی الثانی 1391هق در گذشت و در باغ خراسان به خاک سپرده شد [۲۰].

نقش وی در اتحاد شیعیان

وی چون همیشه از عدم انسجام و اتحاد بین صفوف شیعیان نگران و دغدغه اتحاد و انسجام میان شیعیان داشت لذا در چند سال آخیر زندگی خود سعی کرد شیعیان را متحد کند و برای این منظور از 5تا 7 ژانویه 1965م جلسه‌ای مشتمل بر علمای شیعه از پاکستان در حسینیه شاه کربلا رضویه کالونی کراچی برگزار کرد که در آن جلسه هزاران نفر از علماء و دانشمندان از سراسر کشور شرکت کردند و یک مجلس اعلای شیعه به سرپرستی وی تشکیل شد و از حکومت پاکستان تقاضا کرد که:

  • چون در نظام آموزشی پاکستان مواد درسی جداگانه‌ای برای دانش آموزان و دانشجویان شیعه نداشت و برای همه به طور یکسان مواد درسی فراهم می‌کرد لذا این مجلس شیعه از دولت پاکستان خواست که برای طلبۀ شیعه مواد درسی جداگانه دینی در مدارس تعیین شود.
  • اوقات شیعه در دست دولت بود و شیعیان در آن هیچ دخالت نداشتند لذا این مجلس از دولت تقاضا نمود که برای نگهداری اوقاف شیعه، تحت نظارت دولت، هیأت نگهبان شیعه تعیین گردد.
  • گرچه در استقلال کشور پاکستان شیعیان نقش اساسی داشتند و اما بعد از استقلال این کشور، کسانی که در زمان استقلال پاکستان مخالف سر سخت بنیانگذاران این کشور بودند، و پست های مهم و اساسی را بدست گرفتند و علیه شیعیان توطئه و نقش می کشیدند و برای مراسم و مناسک مذهبی محدودیت ایجاد می کردند لذا این مجلس از دولت خواست هیچ گونه محدودیتی در عزاداری ایجاد نکند.
  • در نظام آموزشی دولت پاکستان مواد اختلاف انگیز و بعضا ضد مذهب شیعه وجود داشت و این مواد مورد اختلاف، زمینه مناقشات و درگیری فرقه‌ای در مدارس دولتی فراهم می‌نمود لذا این مجلس از دولت خواست که مواد مورد مناقشه و مورد اختلاف را از مواد درسی خارج نماید بنابر زحمت‌های وی و همکارانش این تقاضا مورد قبول دولت واقع شد، البته مدت پنج سال کوشش کرد تا تقاضا پذیرفته شد و چون بر اثر این کوشش‌ها قوایش به ضعف رفته بود [۲۱].

خدمات اجتماعی- رفاهی

سید محمد دهلوی قبل از تأسیس پاکستان، در چندین کار که جنبه رفاه عمومی داشت، شرکت کرده بود، از آن جمله :

  • تأسیس خوابگاه شیعه در مظفر نگر.
  • مرکز گردهمایی شیعه و دفتر اوقاف شیعه در دهلی.
  • توانخانه شیعه در جهنگ.
  • شرکت در راهپیمائی تبرا [۲۲].

آثار

وی آثاری زیادی در موضوعات مختلف داشته است که به برخی از آنها اشاره می گردد:

  • نور العصر.
  • مقدمۀ تفسیر قرآن که مشتمل بر 500 صحفه، ولی متأسفانه هنگام تقسیم هند از بین رفت.
  • ترجمه مقتل ابی مخنف
  • رسول (ص) و اهل بیت آن حضرت.
  • ترجمه نماز جمعه.
  • معجزات آئمه اطهار(ع) [۲۳].

پانویس

  1. مولوی نجم الغنی خان رامپوری مذہب اسلام ، ، ضیا القرآن پبلیکیشنز لاہور
  2. مولانا عبد الرحمن گیلانی آئینہ پرویزیت ، مکتبہ دار السلام وسن پورہ سٹریٹ نمبر ۲۰ لا ہور
  3. پرویز طلوع اسلام ٹرسٹ گلبرگ ۲لاہور
  4. طلوع اسلام، (رسالہ ماہ جولائی ۲۰۰۳ء) ، عطاء الرحمن ارائیں
  5. یاسر جواد، ذاتوں کا انسائیکلو پیڈیا، ، ٹاک ہوم مزنگ روڈ لاہور
  6. موسیٰ خان جلائر، ۷۳ فرقے ، کی فکشن ہاؤس مزنگ روڈلاہور ۔
  7. سورۃ البقرہ ۱۶۳/۲
  8. علامہ بدرالدین، سوانح حیات ، امام احمد افضل نو را اکیڈمی چک ساده شریف گجرات
  9. موج کوثر ص ۶۱ ۶۳۰ ۷۲
  10. ابوداؤد ح ۴۹۰۷،ترندی ج ۲۶۷۴
  11. حافظ محمد عبد اللہ، اصلی اہل سنت، مکتبہ اسلامی لاہوری عبدالله
  12. پروفیسر اشفاق ظفر لودھی، مقام حدیث اور اصلی اہل سنت، ناشر دار الاندس
  13. محمد طاہر نقاش،حسن عقیده دار الا بلاغ پلیٹر اینڈ کی ستر ھی بیوٹرز لاہور
  14. میاں منظور احمد فقہ واصول فقہ، علمی کتاب خانہ کبیر سٹریٹ لاہور ۔
  15. مولوی محمد حجم اغنیمذاہب اسلام ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور۔
  16. سورۃ یونس ۱۰۶/۱۰
  17. محمد ضیا اللہ قادری، عقائد وهابیه ، قادری کتب خانہ تحصیل بازار سیالکوٹ
  18. الشیخ محمد بن صالح ، عقیدہ اہل سنت و الجماعت ، ، ناشر دار الاندس
  19. مفتی احمد یار خان نعیمی، جا الحق مکتبہ اسلامیہ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور
  20. نقوی، تذکرۀ علمای امامیه پاکستان، ص254
  21. همان، ص254-256
  22. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی پاکستان، 1400ش، ص272
  23. همان، ص271

منابع

  • نقوی، سید عارف حسین، تذکره علمای امامیه پاکستان، ترجمه دکتر محمد هاشم، اسلام‌آباد، مرکز تحقیقات ایران و پاکستان، ۱۹۸۴م.
  • سعیدی، فرمان علی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی در پاکستان، 1400ش.

بلتستان چھوٹا تبت- پاکستان کا شمالی علاقہ جو دریائے سندھ، دریائے شیوک اور دریائے شگر کے دونوں جانب قریبا دو سو مربع میل کے رقبے میں پھیلا ہوا ہے۔ دار الحکومت سکردو ہے۔ اس کے شمال میں سلسلہ قراقرم، جنوب میں وادی کشمیر، مشرق میں لداخ اور مغرب میں وادی گلگت ہے۔ اس علاقے میں دنیا کی بعض نہایت بلند چوٹیاں واقع ہیں مثلا کے ٹو، گشہ بروم اور مشہ بروم۔ ہنزہ و نگر اس کے شامل میں واقع ہیں۔

مذہب

ڈیڑھ سال پہلے یہاں کے لوگ ہندو تھے۔ تیسری صدی عیسوی میں یہاں تبت کی طرف سے بدھ مبلغ آئے اور یہاں بدھ مت پھیل گیا۔ سکردو میں ایک چٹان پر کندہ بدھ کی تصویر آج تک موجود ہے۔ آٹھویں اور نویں صدی میں یہ علاقہ براہ راست تبت راجاؤں کے زیر نگین رہا اور یوں تبتی زبان یہاں رائج ہوئی۔ اگرچہ یہاں کے باشندوں نے اپنی قدیم بلتی زبان کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ چار سو سال بعد جب یہاں اسلام کا غلبہ ہوا تو بدھ ختم ہوا۔ 1373ء میں شافعی (شیعہ) مسلک کے مشہور مبلغ شاہ ہمدان سید علی ہمدانی، چینی ترکستان سے شمالی دروں کے راستے اس علاقے میں داخل ہوئے۔ یہاں کے حالات پر نظر رکھتے ہوئے انہوں نے علاقے میں بڑے بڑے بدھ لاماؤں سے مذہبی مباحثے اور مذاکرے کیے اور انہیں دین اسلام کی صداقت کا قائل کرلیا اور ان لاماؤں نے یکے بعد دیگرے اسلام قبول کرلیا۔ ان کے ساتھ ہی ان کے حلقہ اثر میں شامل عوام بھی مسلمان ہوگئے۔ سید علی ہمدانی نے بلتستان کے مختلف مقامات پر مساجد اور خانقاہیں تعمیر کیں۔ خپلو کی خانقاہ معلی آج بھی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ شمار کی جاتی ہے۔ کچھ عرصے کےبعد سید علی ہمدانی کے ایک خاص شاگرد سید محمد نور بخش تشریف لائے۔ انہوں نے سی اور شیعہ فرقوں میں اختلافات کم کرنے لیے ایک کتاب فقہ احوط لکھی مگر ان کے پیروکاروں نے انہی کے نام پر ایک نیا فرقہ کھڑا کردیا جسے مذہب نوربخشی کا نام دیا گیا۔ اس کے بعد ایران میں شیعہ فرقے کا غلبہ ہوا۔ ایرانی مبغلین نے شیعیت کی تبلیغ شروع کردی۔ انہوں نے یہاں کے رؤسا اور راجاؤں کو شیعہ فرقے میں شامل کیا اور عوام بھی ان کے ساتھ شیعہ ہوتے چلے گئے۔ سنی عقیدے کے مسلمانوں میں یہ علاقہ زیادہ متعارف نہیں ہوا تھا۔ صرف بارہویں اور تیرہویں صدی ہجری میں چند اہل سنت مبلغ یہاں آئے۔ ان میں خاص طور پر پیر بابا پشاوری اور حضرت سلطان علی نمایاں ہیں۔ سیاسی حالات نے 1840ء میں کروٹ لی جب اس وقت کے راجا گلاب سنگھ ڈوگرا کے جرنیل زور آور سنگھ نے نے آخری حمکران احمد شاہ کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور بلتستان پر قبضہ کرلیا۔ بلتستان107سال تک کشمیر ڈوگرا حکمران راجا کرن سنگھ نے بلتستان کو جموں و کشمیر کے ساتھ انڈیا کے سپرد کر دیا لیکن بلتستان اور گلگت کے عوام اور اسکاؤٹوں نے اس فیصلے کے خلاف بغاوت کردی اور فروری 1948ء میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیا۔ اس وقت سے ملکی وسائل کے نشو و ارتقا کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ 1951ء میں سکردو میں بجلی فراہم کی گئی۔ 1960ء میں اسلام آباد اور سکردو کے درمیان طیاروں کی آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہوا۔ شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد پوری دنیا کے سیاح یہاں آنے لگے ہیں۔ نئے جدید بازار بن گئے ہیں۔ پورے علاقے میں یابوؤں کے ذریعے سے آمد و رفت کے راستے بنا دیے گئے۔ کئی سٹرکین تعمیر ہو گئیں۔ بلتستان میں چھوٹے بڑے 250 گاؤں ہیں۔ ہر گاؤں پینتیس چالیس گھروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ کل آبادی سات لاکھ کے قریب ہیں۔ سب لوگ ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہتے ہیں۔ دھلی ہوئی گندم خشک کرکے بھون لیتے ہیں اور بھٹی ہوئی گندم برتنوں میں بھر کر محفوظ کرلیتے ہیں۔ خوبانیان، ٹماٹر، سبزیاں، شلغم وغیرہ صاف کرکے اورکاٹ کر خشک کر لیتے ہیں۔ یہی خشک محفوظ غذا برف باری کے موسم میں کام آتی ہے۔ بھنے ہوئے گندم کشمش اور خوبانی کی گٹھلی سے نکلنے والی گری کے ساتھ ملا کر کھائے جاتے ہیں۔ ان کو پیس کر ستو کی طرح بھی استعمال کیا جاتا ہے [۱]۔

سید ساجد علی نقوی
نام کاملسید ساجد علی نقوی
نام‌های دیگرقائد ملت جعفریه پاکستان
اطلاعات شخصی
محل تولدپاکستان
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
  • سید افتخار نقوی
  • غلام رسول عرفانی
آثار
  • ترجمه کتاب لمحه دستور الجمهوریه الاسلامیه
فعالیت‌هاموسسه هیات علمای امامیه
وبگاهjafariapress.com

سید ساجد علی نقوی رهبر کنونی شیعیان پاکستان و نماینده ولی فقیه و عضو شورای عالی مجمع جهانی اهل بیت(ع) می باشد. او بعد از شهید عارف حسینی از جانب مرحوم امام خمینی و بعد از وی از جانب رهبر انقلاب سید علی خامنه ای به سمت نمایندگی ولی فقیه در کشور پاکستان منصوب گردید. ساجد علی نقوی یکی از منادیان وحدت اسلامی در جهان اسلام و پاکستان شناخته می شود و نام وی در فهرست ۵۰۰ شخصیت تأثیرگذار مسلمان دنیا قرار دارد. وی دانش آموخته حوزه های علمیه قم و نجف است. و از این دو حوزه کسب فیض نموده است. سید ساجد علی نقوی بعد از شهادت سید عارف حسین الحسینی رهبری شیعیان این کشور را به دست گرفت. وی در زمینه های آموزشی،‌ فرهنگی،‌ اجتماعی و سیاسی فعالیت های زیادی داشته است. سید ساجد علی نقوی توانسته است که نهادهای زیادی برای ایجاد وحدت بین مسلمانان به ویژه بین مسلمانان پاکستان به وجود بیاورد.

زندگی نامه

سید ساجد علی نقوی در یکم ژوئن سال ۱۹۴۰میلادی در ملهو والی از توابع اَتَک ایالت پنجاب پاکستان به دنیا آمد.[۲] نام وی در فهرست ۵۰۰ شخصیت تأثیرگذار مسلمان دنیا قرار دارد.او بعد از شهید عارف حسینی از جانب مرحوم سید روح الله موسوی خمینی و بعد از وی از جانب رهبر انقلاب سید علی خامنه ای به سمت نمایندگی ولی فقیه در کشور پاکستان منصوب گردید.[۳]

تحصیلات

تحصیلات دینی را در مولتان،‌ در مدرسه مخزن العلوم جعفریه شروع کرد.[۴] دروس نظامیه را نیز در همین مکان به پایان رسانید.[۵] از استادان وی،‌ مولانا سید گلاب شاه و مولانا محمد حسین قابل ذکر هستند.[۶]

سید ساجد علی نقوی در سال ۱۹۵۸تا ۱۹۷۰میلادی در همین مدرسه به تدریس علوم اهل بیت(ع) مشغول بود.[۷]

وی در سال 1970م برای ادامه تحصیلات بیشتر، به نجف اشرف عزیمت کرد و تا 1975م به تحصیل علم پرداخت. استادان او از این قرار بوده اند: ۱-حجۀ الاسلام مدرس افغانی ۲-آیه الله شیخ جواد تبریزی ۳-آیۀ الله سید محمد باقر صدر ۴- سید ابوالقاسم خوئی|سید ابوالقاسم خویی ۵- امام خمینی(رح).[۸]

هنگامی که حزب بعث عراق علمای شیعه را از عراق خارج کرد، وی در سال ۱۹۷۵م به قم آمد و در درس خارج آیۀ الله العظمی سید محمد رضا گلپایگانی شرکت کرد و پس از اتمام تحصیلاتش، در قم و نجف به کار تدریس مشغول شد، مولانا سید افتخار حسین نقوی و مولانا غلام رسول عرفانی از شاگردان او بوده اند.[۹] در سال 1978م به روالپندی بازگشت و در مدرسه آیۀ الله حکیم، مدرس اعلا شد و از زمان وردوش، این مدرسه رونق و جان تازه ای گرفت. او مؤسسۀ» هیأت علمای امامیه« را بینان نهاد و همین هیأت، در سال ۱۹۸۰م در اسلام آباد گردهمایی شیعه را تشکیل داد و بدین وسیله بینش و احساس سیاسی شیعیان را بالا برد.[۱۰]

سید ساجد علی علاوه بر فعالیت در عرصه سیاست و اجتماع، در زمینه پژوهش و تحقیق فعال می باشد بخاطر همین انگیزه و علاقه به تحقیق بود باوجود دلمشولی ها کتاب » لمحۀ فقیه عن دستور الجهموریه الاسلامیه« نوشتۀ امام باقر الصدر الشهید رحمۀ الله علیه را ترجمه کرد که از طرف دفتر تبلیغات اسلام آباد، به چاپ رسید.[۱۱]

دوران رهبری شیعیان پاکستان

شیعیان پاکستان دوره های مختلفی را پشت سر گذاشتند و رهبری سید ساجد علی نقوی از سال 1367 تا 1384 ش‌/ ۱۹۸۸ـ۲۰۰۵ شروع می شود. این‌ دوره‌ با رهبری‌ سید ساجد علی‌ نقوی‌ (معاون‌ اول‌ و مشاور سیاسی‌ سید عارف‌ حسین الحسینی در ۱۳ شهریور ۱۳۶۷/ ۴سپتامبر ۱۹۸۸ آغاز شد.[۱۲]

تفاوت‌ اساسی‌ دوره سوم‌ با دوره دوم‌، در رویكرد كلان‌ نهضت‌ جعفریه‌ نسبت‌ به‌ مسائل‌ كشور بود. دوره دوم‌ دوره آرمان‌گرایی‌ بود كه‌ رهبر نهضت‌ به‌ مبارزه انقلابی‌ با نفوذ آمریكا و استبداد داخلی‌ می‌پرداخت‌ و برای‌ برقراری‌ حكومت‌ اسلامی‌ در پاكستان‌ تلاش‌ می‌كرد.[۱۳]

اما در دوره سوم‌ در این‌ رویكرد تجدی نظر شد و نهضت‌ راهبردی‌ واقع‌گرایانه‌ و تا حدودی‌ عمل‌گرایانه‌ را در پیش‌ گرفت‌. ساجدعلی‌ نقوی‌ برای‌ فرونشاندن‌ درگیری های‌ فرقه‌ای‌، اقداماتی‌ انجام داد و كوشید مناسبات‌ سازمان‌یافته‌ای‌ با احزاب‌ اسلامی‌ اهل‌ سنّت‌، مانند جماعت‌ اسلامی‌، جمعیت‌ العلمای‌ پاكستان‌ و جمعیت‌ اهل‌ حدیث‌ برقرار كند. وزیر مذهبی‌ فدرال‌، عبدالستار نیازی‌، برای‌ وحدت‌ گروههای‌ شیعه‌ و اهل‌ سنّتِ دِیوبندی‌، بَریلَوی‌ و اهل‌حدیث‌، كمیته اتحاد بین‌المسلمین‌ را، با عضویت‌ سی‌ تن‌ از علمای‌ مذاهب‌ اسلامی‌، تشكیل‌ داد كه‌ آنان‌ در مهر ۱۳۷۰/ سپتامبر ۱۹۹۴، مجموعه‌ای‌ را با عنوان‌ «ضابطه اخلاق‌» تدوین‌ و تصویب‌ كردند و سران‌ نهضت‌ نیز آن‌ را امضا نمودند.[۱۴] در ضابطه اخلاق‌، فرقه‌گرایی‌ در كشور محكوم‌ و پیروی‌ از شیوه‌هایی‌ برای‌ حل‌ مناقشات‌ به‌ گروهها توصیه‌ شده‌ است‌.[۱۵]

نهضت‌ در اواخر ۱۳۷۳ ش‌/ اوایل‌ ۱۹۹۵ گام‌ دیگری‌ برای‌ وحدت‌ میان‌ مذاهب‌ اسلامی‌ برداشت‌ كه‌ به‌ تشكیل‌ «ملی‌ یكجهتی‌ كونسل‌» (شورای‌ همبستگی‌ ملی‌) در ۴ فروردین‌/ ۲۴مارس‌ همان‌ سال‌، انجامید. در این‌ شورا، گروههای‌ اسلامی‌ نهضت‌ جعفریه‌، جماعت‌ اسلامی‌، جمعیت‌ العلمای‌ اسلام‌ گروه‌ فضل‌الرحمان‌ و سمیع‌الحق‌، جمعیت‌ العلمای‌ پاكستان‌، گروه‌ نیازی‌، تحریك‌ منهاج‌القرآن‌ و جمعیت‌ اهل‌ حدیث‌ شركت‌ داشتند.[۱۶] هدف‌ از تشكیل‌ این‌ اتحاد، پایان‌ دادن‌ به‌ درگیریهای‌ مذهبی‌ و منزوی‌ كردن‌ سپاه‌ صحابه‌ و فشار آوردن‌ به‌ آن‌ گروه‌ برای‌ توقف‌ عملیات‌ خشونت‌بار آن‌ بود؛ اما، این‌ اتحاد نتوانست‌ به‌ درگیریهای‌ فرقه‌ای‌ پایان‌ دهد. در ۶ تیر ۱۳۸۰/ ۲۷ ژوئن‌ ۲۰۰۱، شش‌ حزب‌ اسلامی‌، با عنوان‌ مجلس‌ متحده عمل‌، در اسلام‌آباد متحد شدند. هدف‌ از این‌ اتحاد، برقراری‌ نظام‌ جمهوری‌ واقعی‌ اسلامی‌ اعلام‌ شده‌ بود.[۱۷]

فعالیت های آموزشی و رفاهی

فعالیتهای‌ عمده نهضت‌ جعفری‌ در دوران رهبری سید ساجد علی نقوی در دهه ۱۳۷۰ ش‌/۱۹۹۰ عمدتاً در دو بخش‌ متمركز شده‌ بود:

اول‌، فعالیتهای‌ آموزشی‌ و رفاهی‌، كه‌ در این‌ زمینه‌ سه‌ نهاد فرعی‌ تأسیس‌ شد:

  • اسلامك‌ ایمپلایز (سازمان‌ شاغلان‌ اسلامی‌)، متشكل‌ از متخصصان‌ و كارشناسان‌ تمام‌ رشته‌ها و شعبه‌ها مانند شعبه استادان‌، شعبه نوجوانان‌، شعبه دانشجویان‌ و شعبه پزشكان‌. هدف‌ این‌ سازمان‌ آموزش‌ افراد برای‌ كاریابی‌، ایجاد اشتغال‌ و مبارزه‌ با فقر و بیكاری‌ بود.[۱۸]
  • جعفریه‌ ترست‌ (بنیاد جعفری‌)، كه‌ در ۱۳۶۹ش‌/۱۹۹۰ با اهداف‌ آموزشی‌، تبلیغی‌ و رفاهی‌ تشكیل‌ شد. این‌ مؤسسه‌ در زمینه آموزش‌، از دوازده‌ مدرسه جدید حمایت‌ مالی‌ كرد و در زمینه امور رفاهی‌، ۹۵ طرح‌ كوچك‌ پل‌سازی‌، سدسازی‌، انحراف‌ آب‌، كانال‌كشی‌، حفر چاه‌، لوله‌كشی‌، جاده‌سازی‌ و مانند آن‌ را به‌ انجام‌ رساند.[۱۹]
  • پاكستان‌ ایجوكیشنل‌ كونسل‌ (شورای‌ آموزشی‌ پاكستان‌). این‌ نهاد با هدف‌ توسعه آموزش‌ و رشد مهارتهای‌ جدید در میان‌ شیعیان‌، به‌ ویژه‌ در مناطق‌ محروم‌، در ۱۱ خرداد ۱۳۷۵/ اول‌ ژوئن‌ ۱۹۹۶در اسلام‌آباد تشكیل‌ شد و ۲۶ باب‌ مدرسه‌ و مركز آموزشی‌ را در پنجاب‌، بلتستان‌، سرحد، گِلگِت‌ و كویته‌ تحت‌ پوشش‌ قرار داد.[۲۰]

فعالیت های سیاسی و حقوقی

دوم‌، فعالیتهای‌ سیاسی‌ ـ حقوقی‌ با هدف‌ فرونشاندن‌ درگیریها و التهابات‌ فرقه‌ای‌. در دهه ۱۳۷۰ش‌/ ۱۹۹۹و نیمه اول‌ دهه ۱۳۸۰ش‌/۲۰۰۰، عملیات‌ خشونت‌بار و فرقه‌ای‌ سپاه‌ صحابه‌ و «لشكر جَنگوی‌» افزایش‌ بسیار یافت‌. در دهه ۱۳۶۰ ش‌/۱۹۸۰ بسیاری‌ از افراد وابسته‌ به‌ «نهضت‌ اجرای‌ فقه‌ جعفری‌» مورد حملات‌ فرقه‌گرایانه‌ قرار می‌گرفتند، اما از اوایل‌ دهه ۱۳۷۰ ش‌/۱۹۹۰به‌ بعد، همه شیعیان‌ به‌ گونه‌ای‌ هدف‌ حملات‌ سپاه‌ صحابه‌ و لشكر جنگوی‌ شدند. بیشترین‌ حملات‌، در این‌ مقطع‌، به‌ تجمعات‌ و مراسم‌ عبادی‌، مانند نمازهای‌ جماعت‌ و جمعه‌ و عزاداریها، می‌شد كه‌ تلفات‌ زیادی‌ نیز به‌ همراه‌ داشت‌.[۲۱]

نقش او در ایجاد وحدت میان مسلمانان پاکستان

اعظم‌ طارق‌، سركرده سپاه‌ صحابه‌ كه‌ در انتخابات‌ ۱۳۷۰ ش‌/ ۱۹۹۰ به‌ نمایندگی‌ مجلس‌ پاكستان‌ برگزیده‌ شده‌ بود، لایحه «ناموس‌ صحابه‌» را، با جمع‌آوری‌ امضای‌ چهل‌ نماینده‌، در ۱۳۷۲ ش‌/۱۹۹۳ به‌ مجلس‌ داد كه‌ مُفاد آن‌ لزوم‌ حفظ‌ احترام‌ صحابه‌ و مرتد دانستن‌ مخالفان‌ صحابه‌ بود.[۲۲] همچنین‌ «لایحه شریعت‌»، كه‌ از زمان‌ ضیاءالحق‌ به‌ بعد یكی‌ از موضوعات‌ مهم‌ مباحث‌ مجلس‌ قانونگذاری‌ پاكستان‌ بود، از نظر نهضت‌ جعفریه‌ نیاز به‌ اصلاح‌ داشت‌. نهضت‌ جعفریه‌ توانست‌، با رایزنی‌، از تصویب‌ لوایح‌ ضدشیعی‌ در مجلس‌ و دولت‌ جلوگیری‌ كند.[۲۳]

با ادامه تنشهای‌ فرقه‌ای‌ قومی‌ و سیاسی‌ در پاكستان‌، اوضاع‌ اجتماعی‌ و سیاسی‌ در سالهای‌ آخر دهه ۱۳۷۰ ش‌/ ۱۹۹۰به‌ شدت‌ بحرانی‌ شده‌ بود كه‌ به‌ كودتای‌ ژنرال‌ پرویز مُشرّف‌ در ۲ مهر ۱۳۷۸/ ۱۲ اكتبر ۱۹۹۹ و سقوط‌ دولت‌ نواز شریف‌ انجامید. وی‌ مبارزه‌ با فرقه‌گرایی‌ را یكی‌ از برنامه‌های‌ اصلی‌ خود می‌دانست‌. حادثه ۲۰ شهریور ۱۳۸۰/ ۱۱ سپتامبر ۲۰۰۱ در آمریكا و اقدام‌ آمریكا و جامعه جهانی‌ برای‌ مبارزه‌ با تروریسم‌، رئیس‌جمهور پاكستان‌ را به‌ برخوردهای‌ شدیدتری‌ با احزاب‌ تندرو اسلامی‌ در این‌ كشور واداشت‌؛ از این‌رو، دولت‌ مشرّف‌ سپاه‌ صحابه‌ و جیش‌ محمد را غیرقانونی‌ اعلام‌ كرد و در ۲۲ دی‌ ۱۳۸۰/ ۱۲ ژانویه ۲۰۰۲ نهضت‌ جعفریه‌ را نیز در ردیف‌ آنها قرار داد و فعالیت‌ آن‌ ممنوع‌ شد.[۲۴]

پس‌ از آن‌، نهضت‌ نام‌ خود را به‌ «اسلامی‌ تحریك‌» (جنبش‌ اسلامی‌) تغییر داد و بلافاصله‌ فعالیت‌ خود را تحت‌ نام‌ جدید آغاز كرد؛ اما، دولت‌ در ۲۴ آبان‌ ۱۳۸۲/ ۱۵ نوامبر ۲۰۰۳ «تحریك‌ اسلامی‌» و هر نوع‌ فعالیت‌ رهبران‌ آن‌ را با هر عنوان‌ دیگری‌، غیرقانونی‌ خواند. از آن‌ تاریخ‌ تا شهریور ۱۳۸۴/ سپتامبر ۲۰۰۵ دولت‌ دفاتر نهضت‌ را مُهر و موم‌ كرده‌ و از اجتماعات‌ آن‌ جلوگیری‌ نموده‌ است‌. این‌ تصمیم‌ دولت‌ صدمات‌ شدیدی‌ بر تشكیلات‌ نهضت‌ وارد كرد و بسیاری‌ از فعالان‌ نهضت‌ را عملاً منزوی‌ نمود. ساجد علی‌ نقوی‌ ناگزیر شد فعالیتهای‌ سیاسی‌اش‌ را از طریق‌ «مجلس‌ متحده‌ عمل‌»، كه‌ «نهضت‌» یكی‌ از اعضای‌ آن‌ است‌، تداوم‌ بخشد و ارتباطات‌ مردمی‌ را نیز از طریق‌ برگزاری‌ عزاداریها یا شركت‌ در آنها و برنامه‌های‌ مذهبی‌ ادامه‌ دهد و دیدگاهها و مواضع‌ خود را بازگوی‌ نماید.[۲۵]

هم‌زمان‌ با ممنوع‌ شدن‌ فعالیتهای‌ جنبش‌ اسلامی‌، ساجدعلی‌ نقوی‌ نیز، به‌ اتهام‌ دخالت‌ در قتل‌ اعظم‌ طارق‌، سرپرست‌ سپاه‌ صحابه‌، دستگیر شد. دستگیری‌ وی‌ اعتراضهای‌ جمعی شیعیان‌ را در پی‌ داشت‌ و بزرگان‌ و علمای‌ برجسته شیعه‌، برای‌ حل‌ مسئله‌ و اقدامهای‌ بعدی‌، كمیته‌ای‌ تشكیل‌ دادند. وی‌ سرانجام‌، پس‌ از چهار ماه‌، در ۲۳ اسفند ۱۳۸۲/ ۱۴ مارس‌ ۲۰۰۴آزاد شد.[۲۶]

از ۱۳۸۴ ش‌/ ۲۰۰۵ نهضت‌ از مجاری‌ قانونی‌ می‌كوشد تا مجوز فعالیت‌ خود را دو باره‌ به‌ دست‌ آورد. در اوضاع‌ كنونی‌، مهم‌ترین‌ اهداف‌ و خواستهای‌ آن‌ از دولت‌ عبارت‌اند از: برداشتن‌ ممنوعیت‌ فعالیتهای‌ آن‌؛ تأمین‌ حقوق‌ اجتماعی‌ و مذهبی‌ شیعیان‌؛ مشاركت‌ متناسب‌ با جمعیت‌ شیعیان‌ در ادارات‌ و نهادهای‌ دولتی‌، به‌ ویژه‌ نهادهای‌ دینی‌، مانند شورای‌ عقاید اسلامی‌، «وفاقی‌ شریعت‌ كورت‌»، «دادگاه‌ شرعی‌ كل‌ كشور»، «وزارت‌ امور مذهبی‌»، «اداره تحقیقات‌ اسلامی‌»؛ و آزادی‌ در برگزاری‌ مراسم‌ عزاداری‌.[۲۷].

نهضت‌ جعفریه‌ تقریباً از ۱۳ ش‌/۱۹۸۴ به‌ حضور در فعالیتهای‌ سیاسی‌ و انتخاباتی‌ توجه‌ نشان‌ داده‌ است‌. سیاست‌ نهضت‌ در آغاز، ائتلاف‌ با احزاب‌ دیگر یا حمایت‌ از نامزدهای‌ احزاب‌ دیگر بود. [۲۸]

اما، در انتخابات‌ ۱۳۷۷ ش‌/۱۹۹۸، به‌ عنوان‌ حزب‌ مستقل‌ وارد مبارزه انتخاباتی‌ گردید، گرچه‌ نتوانست‌ نماینده‌ای‌ به‌ مجلس‌ بفرستد.[۲۹] نهضت‌ تنها در دو انتخابات‌ ۱۳۷۳ ش‌/ ۱۹۹۴ و ۱۳۷۶ ش‌/ ۱۹۹۷ موفقیتهای‌ ملموسی‌ به‌ دست‌ آورد. در انتخابات‌ ۱۳۷۳/ اكتبر ۱۹۹۷، در مناطق‌ شمالی‌ توانست‌ هشت‌ كرسی‌ از ۲۴ كرسی‌ «ناردرن‌ ایریاز كونسل‌» (شورای‌ مناطق‌ شمال‌) را از آنِ خود كند.[۳۰] در انتخابات‌ ۱۳۷۶ ش‌/۱۹۹۷، به‌ ائتلاف‌ مسلم‌ لیگ‌ پیوست‌ و با حمایت‌ از نواز شریف‌، توانست‌ سیدجواد هادی‌، از روحانیان‌ پاكستان‌، را به‌ مجلس‌ سنا و افرادی‌ را نیز به‌ مجلس‌ شورا بفرستد.[۳۱]

مناسبات‌ نهضت‌ جعفری‌ با دولت‌، بنا بر اوضاع‌ سیاسی‌، فراز و نشیبهایی‌ داشته‌ است‌. نهضت‌ تاكنون‌ بیشتر در جبهه مخالفان‌ دولت‌ قرار داشته‌، چنانكه‌ عضو ائتلاف‌ «مجلس‌ متحده عمل‌» است‌ كه‌ نیرومندترین‌ دسته‌بندی‌ مخالف‌ دولت‌ را در مجلس‌ تشكیل‌ می‌دهد. نهضت‌ همچنین‌ روابط‌ خوبی‌ با جمهوری‌ اسلامی‌ ایران‌، حوزه علمیه قم و مراجع‌ تقلید در قم‌ و نجف‌ اشرف‌ دارد. رابطه دوستانه‌ با جنبشهای‌ اسلامی‌ در كشورهای‌ دیگر و حمایت‌ از انتفاضه فلسطین‌ و برگزاری‌ راهپیمایی‌ در روز قدس‌ (آخرین‌ جمعه ماه‌ رمضان‌ هر سال‌) از دیگر اقدامات‌ نهضت‌ است‌.[۳۲]

پانویس

  1. سید قاسم محمود، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور، 2008ء،ص 297-298
  2. نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۴.
  3. اسکندری، جریان شناسی مذهبی پاکستان، ۱۴۰۱ش، ص۲۴۳.
  4. نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۴.
  5. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی، ۱۳۹۹ش، ص۲۶۱.
  6. نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۵.
  7. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی، ۱۳۹۹ش، ص۲۶۱.
  8. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی، ۱۳۹۹ش، ص۲۶۱.
  9. نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۶.
  10. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی، ۱۳۹۹ش، ص۲۶۲.
  11. نقوی، تذکره علمای،‌۱۳۷۰ش، ص۸۶.
  12. عارفی،‌ جنبش‌ اسلامی‌ پاكستان‌، ۱۳۸۲ش، ص‌ ۱۵۰.
  13. عارفی،‌ جنبش‌ اسلامی‌ پاكستان‌، ۱۳۸۲ش، ص‌ ۱۴۳، ۱۶۰.
  14. جوادی‌، تحقیقی‌ دستاویز، ۱۹۹۷م، ص‌ ۲۴.
  15. گهلوی،‌ قومی تحریک اور قیادت کا کردار،‌۲۰۱۹م،‌ ص۱۲۰.
  16. تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، ۱۹۹۵، ص‌ ۱۳-۱۵.
  17. متحده‌ مجلس‌ عمل‌ پاكستان‌، ص‌ ۲-۳.
  18. تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، ۱۹۹۹م، ص‌۱۱.
  19. جعفریه‌ ترست‌، ص۷.
  20. پاكستان‌ ایجوكیشنل‌ كونسل‌، ص‌ ۲ـ۳؛ تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، ۱۹۹۹، ص‌ ۱۰-۱۱.
  21. گهلو،‌قومی تحریک اور قیادت کا کردار، ۲۰۱۹م، ص۱۲۳.
  22. عارفی‌، شیعیان پاکستان،‌ ۱۳۸۵ش، ص‌ ۱۳۸.
  23. نقوی‌، شیعیان‌ و چالش‌های‌ پیش‌رو، ۱۳۸۴ش، ص‌ ۲۲۱.
  24. تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، ۲۰۰۲، ص‌ ۱ـ۳.
  25. نقوی‌، شیعیان‌ و چالش‌های‌ پیش‌رو، ۱۳۸۳ش، ص‌ ۲۲۰.
  26. گهلو، قومی تحریک اور قیادت کا کردار، ۲۰۱۹م، ص۱۲۳.
  27. نقوی‌، شیعیان‌ و چالش‌های‌ پیش‌رو، ۱۳۸۳ش، ص‌ ۱۱۶-۱۱۸.
  28. حسینی‌، میثاق‌ خون، لاهور ۱۹۹۷، ص‌ ۷۰.
  29. تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، ۱۹۹، ص‌ ۷.
  30. حسین‌آبادی‌، تاریخ بلتستان، ۲۰۰۴م، ص‌ ۳۱۲.
  31. تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، ۱۹۹۹، ص‌ ۱۰.
  32. گهلو، قومی تحریک اور قیادت کا کردار، ۲۰۱۹م، ص۲۱۱.

منابع

  • اسکندری، مصطفی، در آمدی بر جریان شناسی مذهبی پاکستان، تهران، مجمع جهانی تقریب مذاهب اسلامی، چ اول، ۱۴۰۱ش.
  • سعیدی،‌ فرمان علی،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی در پاکستان،‌ قم، جامعه المصطفی العالمیه،‌۱۳۹۹ش.
  • نقوی،‌سید عارف حسین،‌تذکره علمای امامیه پاکستان،‌ترجمه محمد هاشم،‌ مشهد،‌ پژوهش های اسلامی،‌آستان قدس رضوی،‌ ۱۳۷۰ش. اسلامی‌ *تحریك‌ پاكستان‌، دستور اسلامی‌ تحریك‌ پاكستان، راولپندی‌ ۲۰۰۲م.
  • پاكستان‌ ایجوكیشنل‌ كونسل‌، پاكستان‌ ایجوكیشنل‌ كونسل‌ ایك‌ نظرمین‌، راولپندی‌، بی‌تا ؛ تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌، تحریك‌ جعفریه‌ پاكستان‌ پرپابندی‌: حقائق‌ كی‌ آئینه‌ مین، راولپندی‌،‌۲۰۰۲م.
  • جوادی‌، ملك‌ آفتاب‌ حسین‌ ، تحقیقی‌ دستاویز، راولپندی‌.
  • چراغ‌، محمدعلی‌، تاریخ‌ پاكستان، لاهور، ۱۹۹۰م.
  • حسین‌آبادی‌، محمدیوسف‌، تاریخ‌ بلتستان‌، سكردو ۲۰۰۳م.
  • حسینی‌،‌عارف‌ حسین‌ ، میثاق‌ خون، لاهور ۱۹۹۷م.
  • زندگی‌نامه علامه‌ شهید عارف‌ حسین‌الحسینی‌ از ولادت‌ تا شهادت‌ ، تهیه‌كننده‌: مؤسسه شهید الحسینی‌، قم‌: نشر شاهد.
  • عارفی‌، محمداكرم‌ ، جنبش‌ اسلامی‌ پاكستان‌: بررسی‌ عوامل‌ ناكامی‌ در ایجاد نظام‌ اسلامی، قم‌ ۱۳۸۲ ش‌.
  • فهیم‌ عباس‌، كربلا معلاسی‌ كربلا كوئنـه‌ تك‌: تاریخ‌ شهدائی‌ جعفریه‌ بلوچستان، كویته‌ ۲۰۰۴م.
  • متحده‌ مجلس‌ عمل‌ پاكستان‌، دستور و منشور متحده‌ مجلس‌ عمل‌ پاكستان‌، فیصل‌آباد: متحده‌ مجلس‌ عمل‌ پاكستان‌، [ بی‌تا. ]؛
  • النصره ، ش‌ 12 مارس‌ ـ مه‌ ۱۹۸۸م.
  • نقوی‌، ساجدعلی‌، «شیعیان‌ و چالش‌های‌ پیش‌رو: وضعیت‌ سیاسی‌، اقتصادی‌ و فرهنگی‌ شیعیان‌ در پاكستان‌»، فصلنامه تخصصی‌ شیعه‌شناسی‌، سال‌ سوم، ش‌ ۱۰ (تابستان‌ ۱۳۸۴).
  • گهلو،‌ امداد علی، قومی تحریک اور قیادت کا کردار،‌ اسلام آباد، عاشقانِ ملت قائد جعفریه پاکستان،‌ چاپ دوم،‌ ۲۰۱۹م. ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
مولانا طارق جمیل
نام کاملطارق جمیل
اطلاعات شخصی
محل تولدفیصل آباد پاکستان
دیناسلام، حنفی
استادان
آثار
وبگاهtariqjamilofficial.com

مولانا طارق جمیل در شهر فیصل آباد ایالت پنجاب در یک خانواده مذهبی به دنیا آمد. طارق جمیل در حال حاضر یکی از عالمان برجسته اهل سنت پاکستان به حساب می آید و رهبری بریلوی ها را بدست گرفته است.طارق جمیل علاوه بر در میان اهل سنت، بین شیعیان هم جایگاه خاصی دارد چون وی ضد تکفیر و منادی وحدت بین مسلمانان هست. در حال حاضر در فضای مجازی از جمله در یوتوپ بیش از بیست میلیون طرفدار و بیننده دارد. علاوه برآن یک حوزه علمیه بزرگ دارد که اکثر طلبه های آن،غیر پاکستانی هستند. جناب طارق جمیل با شخصیت ها و افراد برجسته کشورهای اسلامی در ارتباط هستند. طارق جمیل با شخصیت ها و افراد برجسته کشورهای اسلامی در ارتباط هستند. طارق جمیل کتاب های زیادی نوشته است.علاوه برآن مجموعه سخنرانیهای وی به صورت کتاب به چاپ رسیده است. یکی از کتابهای مهم طارق جمیل کتاب " گلدسته اهل بیت علیهم السلام" است در این کتاب طارق بحث های مهمی را بیان نموده است. در این کتاب "حدیث کساء" را برای اثبات جایگاه اهل بیت(ع) بیان نموده است.طارق جمیل، یکی از ۵۰۰ مسلمان تأثیرگذار جهان انتخاب شده‌است.

زندگی نامه

انیس آباد روستایی در نزدیکی شهر" تالامبا" در میان" چانو" است و والدین مولانا طارق جمیل در اینجا زندگی می کردند. مولانا طارق جمیل در ۲۳ ژوئن ۱۹۵۳ در همین روستا به دنیا آمد.[۱] تاریخ هجری قمری ۱۲ ربیع الاول بوده است پدرش مولانا میان الله بخش (مرحوم) از خورندگان و ارجمند منطقه خود بود. روحیه از ابتدا مذهبی بود مولانا عبیدالله انور فرزند مولانا احمد علی لاهوری (رض) بیعت کرده بود و در کودکی مولانا طارق جمیل نیز به خدمت او در آمد.ویکی از بزرگان جماعت تبلیغ پاکستان میباشد.[۲]

مراحل آموزشی

مولانا طبق معمول در مدرسه درس خواند و پس از طی مراحل تحصیلی به دانشکده رسید و از هوش و نبوغ مولانا می توان استنباط کرد که دوران تحصیلی او در مدرسه و دانشگاه باید عالی بوده باشد و زندگی آغاز شد که به برکت آن است. اکنون از شهرت بین المللی برخوردار است و شهرت دنیوی واقعیت چندانی ندارد، در واقع خیر و تقوی است که مولانا بیش از شهرت دنیوی دارد.[۳] طارق جمیل به خاطر سبک خود شناخته شده است. وی با جماعت تبلیغی به شش قاره جهان سفر کرده است. اظهارات او توسط پیروانش در سایت های مختلف اینترنتی منتشر شده است. اکثر مردم به شدت به سخنان او گوش می دهند و با الهام از اخلاق او، بسیاری از شخصیت های مشهور وارد عرصه اسلام شدند. او از مخالفان سر سخت فرقه گرایی است. مردم باهم اختلاف دارند، این به معنای کشتن یک دیگر نیست، اسلام چنین چیز هایی را جایز نمی داند.[۴]

محبوبیت عمومی

حاصل این کار سخت بود که مولانا هزاران فرسنگ جلوتر از همه رفقا و همکلاسی هایش رفت.[۵] الآن وضعیت این است که در شهری که بیانیه مولانا بیان می شود، یک شب اجتماع ده تا بیست هزار نفری جمع میشود، هر چند تبلیغ نشده باشد.[۶] با این حال، نه تبلیغاتی است و نه علامتی. روزی در مسجد ابدالی مرکز ملتان بیانیه ای از مولانا بود صحن مسجد کاملاً پر شده بود.[۷] مردم برداشت بام وضو خانه نیز بالا می رفتند. مولانا نیز آنچه را که از قلع ساخته شده بود، منع کرد، زیرا تحمل وزن این همه مردم را نداشت و سپس همان اتفاق افتاد که بیم فروریختن سقف آن بود. خوشبختانه تلفات جانی گزارش نشد. مولانا فردی همه جانبه اهل عمل و دعوت کننده و دارای صفات گوناگون است اما مولانا بیشتر به خطیب معروف است که در زیر برخی از دلایل تبدیل شدن او به خطیب او اشاره شده است.[۸]

اهل بیت(ع) از نگاه طارق جمیل

کتاب " گلدسته اهل بیت علیهم السلام" که مجموعه سخنرانیهای طارق جمیل است در این کتاب بحث های مهمی را بیان نموده است.[۹] مولانا طارق جمیل برای بیان فضائل اهل بیت(ع) از آیه تطهیر نیز استفاده نموده است.[۱۰] در این کتاب "حدیث کساء" را برای اثبات جایگاه اهل بیت(ع) بیان نموده است و این کتاب مشتمل ۶۵۰صفحۀ است که ایشان زندگانی چهارده معصوم علیهم السلام را ذکر نموده است. در این کتاب ابتداء معنی و مصداق اهل بیت(ع) را بازگو نموده است و در ادامه بحث، احادیث معروف و مشهور شیعه از جملۀ حدیث ثقلین و... برای اثبات جایگاه و مقام اهل بیت(ع) آورده است.[۱۱]

پانویس

  1. سعد، فتوحات طارق جمیل، ص۱۰.
  2. موسوی، تبیین جایگاه اهل البیت علیهم السلام از دیدگاه طارق جمیل، ۱۴۰۲ش، ص۷.
  3. موسوی،‌ تبیین جایگاه اهل البیت علیهم السلام از دیدگاه طارق جمیل، ۱۴۰۲ش،‌ ص۸.
  4. موسوی،‌ تبیین جایگاه اهل البیت علیهم السلام از دیدگاه طارق جمیل، ۱۴۰۲ش،‌ ص۹.
  5. سعد، فتوحات طارق جمیل، ۱۹۹۰م، ص ۱۴.
  6. سعد، فتوحات طارق جمیل، ۱۹۹۰م، ص ۱۵.
  7. سعد، فتوحات طارق جمیل، ۱۹۹۰م، ص۱۶.
  8. موسوی، تبیین جایگاه اهل البیت علیهم السلام از دیدگاه طارق جمیل، ۱۴۰۲ش، ص۸.
  9. موسوی، تبیین جایگاه اهل البیت علیهم السلام از دیدگاه طارق جمیل، ۱۴۰۲ش،‌ص۴.
  10. طارق جمیل، گدسته اهل بیت(ع)،‌۲۰۰۹م، ص۹۰.
  11. طارق جمیل، گدسته اهل بیت(ع)،‌۲۰۰۹م، ص۱۲۳.

منابع

  • سعد، ثناء الله، فتوحات طارق جمیل، دهلی نو، ناشر فرید بک دیپو، چاب اول، ۱۹۹۰م.
  • طارق جمیل، گدسته اهل بیت(ع)،‌لاهور،‌۲۰۰۹م.
  • موسوی، سید شجاعت حسین،‌ تبیین جایگاه اهل البیت علیهم السلام از دیدگاه طارق جمیل با تاکید بر کتاب گل دسته اهل البیت(ع)، پایان نامه کارشناسی ارشد، جامعه المصطفی العالمیه،‌ ۱۴۰۲ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
شهید حسن ترابی
نام کاملحسن ترابی
نام‌های دیگرشهید راه وحدت
اطلاعات شخصی
محل تولدشگر بلتستانپاکستان
روز درگذشتششم ژوئیه
محل درگذشتکراچی
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
  • سید ناظر تقوی
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات نهضت جعفریه پاکستان
وبگاه{{نشانی وب|example.com|متن نمایشی اختیاری}}

شهید حسن ترابی یکی از منادیان وحدت اسلامی بود که در شهرستان شگر بلتستان پاکستان به دنیا آمد.وی بعد از فراگرفتن دورس ابتدائی در منطقه شگر، وارد شهر کراچی شد.در این شهر فعالیت های فرهنگی،‌سیاسی واجتماعی را انجام داد. شهید حسن ترابی یکی از اعضای برجسته و مهم نهضت جعفریه پاکستان(تحریک جعفریه پاکستان) بود. وی برای تبلیغ و فعالیت های سیاسی به مناطق دور افتاده ایالت سند سفر می کرد و از این طریق بسیاری از شیعیان این ایالت را به بیش از پیش به مکتب اهل بیت(ع) علاقه مند ساخت. وی یکی از سخنوران و خطیب برجسته این کشور بود.دشمنان تشیع و تکفیری ها وی را در شهر کراچی به شهادت رساندند.

شهید حسن ترابی

شهيد زنده است و هرگز نمي‌ميرد. و علامه حسن ترابی هم زنده هستند» (فرازی از سخنان سيد ساجد علی نقوی در سخنرانی جنازه شهيد علامه ترابی.[۱] شهيد علامه ترابي: «ما شيعه هستيم، ما بر شيعه بودن خودمان نه ديروز شرمنده بوديم و نه امروز شرمنده هستیم، بلكه شيعه بودن برای ما يك افتخار است، و ما به شيعه بودن خود مان می باليم. ما به هر مسلك و مكتب احترام مي‌گذاريم و ما حقوق خودمان را بر اساس برابری و عدالت می‌خواهيم».[۲]

زندگي نامة شهيد علامه حسن ترابي(۱۹۵۳م، ۲۰۰۶م)

علامه حسن ترابي در ششم جولائي سال ۱۹۵۳م، در منطقة شگر بلتستان در يك‌ خانوادۀ مذهبی به دنيا آمد، تحصيلات مقدماتی را در مدرسۀ اماميه «مركز شگر» فرا گرفت، و در سال ۱۹۶۸م، شگر را به مقصد كراچی ترك كرد. در سال ۱۹۷۰م، مدرك كارشناسي ارشد ادبيات عرب اخذ كرد. در سال ۱۹۷۴م، مدرك ممتاز الواعظين دريافت كرد، در سال ۱۹۷۴م، مدرك ديپلم را گرفت، امرار معاش ایشان حقوق معلم بود که در مدرسة حبيب پبلك سكول تدريس مي‌كرد.[۳]

فعاليت‌هاي سیاسی و مذهبی علامه ترابی

دبيركل هيئت ائمه مساجد اماميه پاكستان، و دبيركل ايالتی تحريك جعفريه پاكستان، ايالت سند، از سال ۱۹۸۴، تا سال ۱۹۹۰م، رئيس ايالتي تحريك جعفريه پاكستان سند، در سال ۱۹۹۰م، مؤسس و عضو ايالتي اتحاد ملي پاكستان سند، از سال ۱۹۹۴م، تا ۱۹۹۹م، نائب رئيس ايالتي متحده مجلس عمل سند، ۲۰۰۱م، تا شهادت. رئيس اسلامی تحريك پاكستان سند، ۲۰۰۲، تا ۲۰۰۳م،. مؤسس و عضو شيعه علماء كونسل پاكستان سند، ۲۰۰۳م، تا شهادت. اسارت: حدود شانزده بار زنداني شدند اولين مرتبه در منطقة شگر اسير شدند. اجازه نامه: از طرف مراجع عظام ايشان از آيت‌الله خوئی، آيت‌الله سيد علي سيستاني، آيت‌اله محمد رضا روحانی، آيت‌الله فاضل لنكرانی، آيت‌آلله گلپائيگانی، آيت‌الله محمد مفتي الشيعه، آيت الله مكارم شيرازي، اجازه نامه داشتند.[۴] آنچه ذكر شد مختصري از حالات زندگي شهيد بزرگوار علامه حسن ترابي بود. در حقيقت ايشان يكي از رهبران دلسوز و خسته ناپذير شيعيان پاكستان به شمار مي‌آمد. ايشان همواره سعي و تلاش مي‌كرد كه وحدت و اتحاد بين مسلمانان حفظ بشود. و باتمام تلاش و كوشش توطئة دشمنان اهل‌بيت (ع) را خنثي مي‌ساخت. ايشان منادی وحدت بين شيعه و سنی بود به همين خاطر وقتي ايشان به شهادت مي‌رسد، بزرگان اهل‌سنت از سراسر كشور پاكستان پيام تسليت فرستادند، و از اين حادثة اندوهناك اظهار ناراحتي کردند، شهيد علامه حسن ترابي، يار و مددگار فقراء و مساكين شيعه بوده و از حقوق شيعيان پاكستان دفاع مي‌كرد، او از جان خودش دست كشيده بود به همين علت بود كه براي چندين بار مورد حمله دشمن قرار گرفت، ايشان امام خمينی(ره) را خيلي دوست مي‌داشت و حامي انقلاب اسلامی ايران بود، امروز جای شهيد ترابي در پاكستان و خصوصاً در شهر كراچی خالی است. و شيعيان پاكستان جاي خالي ايشان را احساس مي‌كنند، به همين علت بود كه يكي از نويسندگان در يك مقاله‌اي با عنوان «ايك شخص سارى شهر كو ويران كرگيا» يعني يك شخص تمام شهر كراچی را به ويراني كشاند.[۵] و از طرف ديگر ايشان مدافع مكتب اهل‌بيت(ع) بود، ايشان يك سخنران برجسته در پاكستان به حساب مي‌آمد، و شهادت آرزويش بود.علامه حسن ترابي مي‌دانست كه روزي به درجة شهادت نايل خواهد شد. بالآخره او به آرزويش رسيده به دست دشمن به شهادت رسيد. روحش شاد!.[۶]

پانویس

  1. رمضان علی،مجلة المخزن، ملتان پاكستان، ۲۰۰۶م، ص۲۰.
  2. مرتضي حسن، شهيد راه وحدت علامه حسن ترابی شهيد، ص۳۳.
  3. مرتضي حسن، شهيد راه وحدت علامه حسن ترابي شهيد، ص۴۰.
  4. مرتضي حسن، شهيد راه وحدت علامه حسن ترابي شهيد، ص۴۵.
  5. توقیر علی،مجله المخزن، ملتان پاكستان، ص۵۷.
  6. سعیدی شگری، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن در گلگت و بلتستان،۱۴۰۰ش،ص۱۲۶.

منابع

  • سعیدی شگری، فرمان علی، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن در گلگت و بلتستان، قم، دارالتهذیب ،چاپ اول،۱۴۰۱ ش،ق.
  • مرتضي حسن، شهيد راه وحدت علامه حسن ترابي، ناشر، ادارة تحفظ آثار شهداي اسلام، پاكستان۲۰۰۶م.
  • رمضان علی، مجله مخزن، شماره۳،‌ ملتان پاكستان، ۲۰۰۶م.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

{{جعبه اطلاعات شخصیت | عنوان =شهید ضیاء الدین رضوی | تصویر = | نام = ضیاء الدین رضوی | نام‌های دیگر = شهید راه نهضت شیعه | سال تولد = ۱۹۶۰م | محل تولد = گلگتپاکستان | سال درگذشت = | تاریخ درگذشت =۱۳ژوئن | محل درگذشت = گلگت | استادان = {{فهرست جعبه عمودی | [[سید صفدر حسین نجفی}} | شاگردان = | دین = اسلام | مذهب = شیعه

| آثار =

| فعالیت‌ها = موسسه هیات نهضت جعفریه پاکستان | وبگاه = {{نشانی وب|example.com|متن نمایشی اختیاری}}}}


شهید ضیا الدین رضوی به عنوان رهبر شیعیان ایالت گلگت بلتستان شناخته می شد. وی برای اتحاد بین شیعه و اهل سنت سعی و تلاش کرد. شهید ضیا الدین رضوی انقلاب اسلامی ایران را از نزدیک دیده بود لذا با الهام از اندیشه ها و افکار امام خمینی می خواست در منطقه شیعه نشین گلگت و بلتستان تحولاتی را به وجود بیاورد. وی نهضت ملی متون درسی جداگانه برای شیعیان را به راه انداخت. شهید رضوی رئیس نهضت جعفریه در ایالت گلگت و بلتستان بود.

زندگی نامه شهید ضیا الدین رضوی

سید ضیاءالدین رضوی در سال ۱۹۶۰م در گلگت به دنیا آمد.[۱] او امام جمعه شهر گلگت بود و فرزند حجت الاسلام آغا مير فاضل شاه مرحوم بود. او بعد از دروس مقدماتی به مدرسه مشهور پاكستان حوزه علميه جامعة المنتظر رفت و از لاهور عازم حوزه علميه قم شد. در دوران اقامت وی در قم با درخواست سيد صفدر حسين نجفيی به شهر لندن رفت، در لندن او كارهاي تدريس و تبليغی را نجام داد. بعد از بازگشت از لندن در گلگت مشغول خدمت رساني شد، او يك روحانی انقلابی و از ثمرات انقلاب اسلامی ايران به حساب می‌آمد.[۲] و مرجع دینی شیعیان گلگت بود.[۳] او در متون درسی مدارس و دانشگاهای پاکستان موادی که برخلاف تاریخ و عقائد شیعه بوده را بررسی نمود و از دولت خواست که متون درسی را براساس مشترکات فرقه‌های اسلامی تدوین کنند.[۴]

سيد ضياء‌الدين رضوی و نهضت متون آموزشی دولتی

سيد ضياء‌الدين رضوی در آخر سال۱۹۸۰م، به حوزه علميه قم رفت، ايشان در تعطيلات تابستانی به منطقة‌ گلگت برگشت و برنامه‌هاي تبليغي را به راه انداخت، همراه برنامه‌هاي تبليغي نماز جمعه را هم در مرکز گلگت برگزار کرد، با اهتمام و همکاری نمايندگان «اماميه آرگنايزيشن» در مناطق و روستاهای منطقة گلگت دورة تبليغی برگذار شد.[۵] سيد ضياء‌الدين اثرات نقلاب اسلامی ايران را از نزديک ديده بود و از انقلاب اسلامی ايران اطلاعات کافي داشت، از صميم قلب معتقد به افکار امام خميني(ره) بود. بخاطر همين سيد ضياء‌الدين به مسألة وحدت بين مسلمين اهميت زياد می داد ، چون امام خمينی(ره) فرموده بود که درحال حاضر بايد مسلمانان اختلافات فقهي را ترک کنند و با اتحاد کلمه و در ساية وحدت کلمه در برابر استکبار جهاني مقابله بايد کرد».[۶] ايشان با الهام گيري از بيانات امام خمينی(ره) در منطقة گلگت برای اتحاد بين مسلمين زحمات فراواني کشيدند و علمای اهل‌سنت از مناطق «کوهستان» مانند اميرقاضي عبدالرزاق و خطيب مسجد «ديوبند» از منطقة گلگت به مسجد مرکزي گلگت شيعيان دعوت نمود و دربارة اتحاد و وحدت مسلمانان سخنراني کرد.[۷]

رهبری دينی و مذهبی سيد ضياء‌الدين رضوی

شهيد ضياء‌الدين رضوی درحقيقت يکی از علماء برجسته منطقه گلگت و بلتستان به شمار می‌آمد و رهبر شيعيان منطقه گلگت و اطراف آن را بعهده گرفت. و از حقوق شيعيان دفاع کرد با نرمی با مردم برخورد مي‌کرد، از لحاظ اخلاقی خوش اخلاق و ساده زيست بود.[۸]

سید ضياء‌الدين رضوی طرح اقتصادی تعمير ملت را پی ریزی کرد، برای پيش برد اين کار افرادی انتخاب شدند دفتر آن را هم ساخت، هدف اين طرح کمک اقتصادی و مالي به مستحقين و نيازمندان شيعه، و همچنين کمک مالی به دانشجويان شيعی و ساختن خوابگاه برای آنها بود، برنامه تعمير ملت که مؤسس آن سيد آغا عباس‌شاه نجفي و سيد ضياء‌الدين رضوی بود. درحال حاضرکار به سرپستي رهبر و امام جمعه و جماعت مرکزی جامع مسجد شيعيان گلگت سيد راحت حسين الحسيني ادامه دارد. نام و ياد شهيد ضياء‌الدين رضوي بخاطر خلوص نيت و خدمت به اسلام و ترويج مکتب‌ اهل‌بيت (ع) در تاريخ منطقة گلگت و بلتستان ماندگار خواهد شد.[۹]

ايشان در مرکز گلگت و بلتستان منطقة گلگت نهضت اصلاح متون درسی (اصلاح نصاب تعليم) به راه انداخت البته مشکل متون درسي براي دانش پژوهان شيعی که در مدارس دولتی پاکستان اعم از مدارس ابتدائي، دبستان، راهنمائي و دبيرستان و دانشکده و دانشگاه وجود دارد و دانش پژوهان شيعی بايد کتاب‌های دينی و عقايد اهل‌سنت را بخوانند، و بر طبق آن امتحان بدهند. برای دانش پژوهان شيعی کتاب درسی مشخصی در نظر گرفته نشده است، اين کار دولت، خشم شيعيان و علمای شيعه را برانگيخته بوده و شيعيان خواستار حل اين مسأله و داشتن متون درسی شيعی جداگانه در تمام سطوح علمی بودند، ولی دولت پاکستان توجهی به اين خواستة شيعيان نداد دانش پژوهان شيعی در سراسر پاکستان مجبور به خواندن کتب درسی دينی و عقائد اهل‌سنت هستند و مؤسسات، سازمان‌ها و تشکل‌های مذهب شیعه و همچنين رهبران شيعی همواره نگرانی خودشان را در اين باره ابراز نمودند. وکميته‌های برای حل و فصل اين مشکل بوجود آمده بود، مانند «تحفظ حقوق شيعه» توسط علامه مفتي جعفر حسين و علامه کفايت حسين در سال ۱۹۴۹م، در لاهور، و «کنفرانس سراسری شيعه» در سال ۱۹۴۸م، توسط نوّاب مظفر علي قزلباش در لاهور و «کميتة خواست‌هاي شيعه» (شيعه مطالبات کميتی) با تلاش و همت سيد محمد دهلوی در سال ۱۹۶۰م، در کراچی يکي از اهداف مهم شکل‌گيري اين کميته‌ها حل و فصل اصلاح متون درسي بود. چنانکه درخواستهای «کميتة خواست‌هاي شيعه» به سه مسأله محدود شد.[۱۰]

بر همه واجب دينی و شرعی بود که سيد ضياء‌الدين رضوی را کمک و حمايت نمايند و ايشان را در وسط ميدان تنها نگذارند، چونکه اين حرکت (تحريک) يک وسيله براي متحد ساختن شيعيان پراکنده پاکستان بود. چنانچه ايشان در اين منطقه بي آئين و قانون گلگت و بلتستان مسؤلين اجرای را به چالش کشاند و مذاکراتی هم در اين بابت صورت گرفت ولي اين مذاکرات ثمربخش نبود. يک کميته بنام کمیته عکس العمل دانشجويان شيعه «شيعه طلبه ايکشن کمیتی» تأسيس شد. سيد ضياء‌الدين رضوي روي حرف‌هايش محکم ايستاد به همين دليل تهمت‌هاي ناروا مانند مزدور برطانيه و هندوستاني بودن به ايشان زده شد، ايشان براي به کرسي نشاندن خواسته‌هاي خود آماده تظاهرات عليه دولت در منطقة گلگت شدند، براي انجام تظاهرات سراسري در منطقه تاريخ۳/ ژوئن/۲۰۰۴م، معين شد.[۱۱]

چنانچه در سوم ژوئن۲۰۰۴، از ساير مناطق مانند: «بگروت، جلال آباد، اشکهنداس، جوتل، جگلوت، رحيم آباد، نلتر، نومل، دينور،» حداقل پنج هزار نفر براي انجام تظاهرات نزد پل دينور جمع شدند اين تظاهرات عليه اعلام وضعيت فوق العاده در منطقه گلگت و همچنين آزادی شهيد سيد ضياء‌الدين از زندان بود، چنانچه سيد ضياء‌الدين همراه دوستان خود که تعدادشان نود نفر بودند بعد از يک ماه از زندان آزاد شدند. [۱۲]

شهادت سيد ضياء‌الدين رضوی

ايشان در هشتم ژوئن ۲۰۰۵م، ساعت يازده صبح در نزديکی خانه‌اش توسط افراد مسلح زخمی شدند، و راننده ايشان حسين اکبر در محل حادثه به شهادت رسيد، اما شهيد ضياء‌الدين و يک از محافظانش به شدت زخمی شدند. شيعيان، ايشان و محافظ ايشان رابه بيمارستان گلگت رسانند. اين خبر اسفناک مانند شعله آتش سراسر منطقه فراگرفت، بخاطر وضعيت بد زخمي‌ها، سيد ضياء‌الدين رضوي و تنوير حسين را به وسيلة هوليکپتر به بيمارستان ارتش «روالپيندی» منتقل شدند، چنانچه در پندی در تاريخ ۱۳/ژوئن/۲۰۰۵م، پنج شنبه ساعت سه شب سيد ضياء‌الدين به شهادت رسيدند. مردم و شيعيان منطقه گلگت و بلتستان در حسينيه‌ها و مساجد طلاب منطقه گلگت و بلتستان حوزه‌های علميه قم ايران و مشهد مقدس و سراسر پاکستان برای سلامتی و شفاء‌يابی ايشان دعا مي‌کردند. اما ايشان به شهادت‌ای که آروز ديرينه‌شان بود، رسيد به شهادت رسيدند.[۱۳] وقتي خبر شهادت سيد ضياء‌الدين از طريق شبکه‌های مختلف پخش شد، مردم و شيعيان گلگت و بلتستان عزادار شدند و برای ايشان گريه کردند، آشک ريختند. مردم با صداي بلند مي‌گريستند. بعد از شهادت ايشان هفت روز مراسم و مجالس عزا و چهل روز عزا عمومي سراسر منطقه گلگت و بلتستان اعلام شد. و برای تشييع جنازه ايشان شيعيان اثناعشری و اسماعيلی از مناطق گوناگون منطقه گلگت و اطراف آن مانند نگر و هنزه آمدند.[۱۴]

پانویس

  1. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص ۱۵۰۔
  2. دنیوری، اسلام در گگت،۱۹۹۴م، ص۸۸.
  3. «شهید نصاب سید ضیاء الدین رضوی کی شهادت کو 18 برس بیت گئے» اسلام تائمز
  4. «شهید نصاب سید ضیاء الدین رضوی کی شهادت کو 18 برس بیت گئے» اسلام تائمز
  5. سعیدی،‌ تاریخ تشیع، ۱۴۰۰ش،‌ ص۲۷۸.
  6. سعیدی،‌ تاریخ تشیع، ۱۴۰۰ش،‌ ص۲۷۸.
  7. سعیدی،‌ تاریخ تشیع، ۱۴۰۰ش،‌ ص۲۷۸.
  8. دنيوری، شهيد ضياء‌الدين رضوی، ۲۰۰۹م،ص۱۱۲.
  9. دنيوری، شهيد ضياء‌الدين رضوی، ۲۰۰۹م،‌ص113.
  10. سعیدی، تاریخ تشیع، ۱۴۰۰ش، ص۲۸۸.
  11. دنيوری، شهيد ضياء‌الدين رضوي،۲۰۰۹م، ص۱۱۶.
  12. سعیدی، تاریخ تشیع، ۱۴۰۰ش، ص۲۸۵.
  13. دنيوری، شهيد ضياء‌الدين رضوی، ۲۰۰۹م، ص۱۱۹.
  14. دنيوری، شهيد ضياء‌الدين رضوی، ۲۰۰۹م، ص۱۲۰.

منابع

  • دنيوري، غلام حسين، شهيد ضياء‌الدين رضوي، ناشر، خيرالناس ويلفير ترست، دنيور گلگت، ۲۰۰۶م.
  • دنيوري، غلام حسين انجم، اسلام گلگت مين، ناشر، ادارة احياي تراث اسلامي، كراچي، پاكستان، ۱۹۹۴م.
  • دنيوري، غلام حسين، شيعيت گلگت مين، ناشر، خيرالناس ويلفير ترست، دنيور، گلگت، ۱۹۹۲م.
  • سعیدی شگری، فرمان علی، تاریخ تشیع و عوامل گسترش آن در گلگت و بلتستان، قم، دارالتهذیب ،چاپ اول،۱۴۰۱ ش،ق.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
مجلس وحدت المسلمین
نام جریانمجلس وحدت المسلمین
رهبرانراجه ناصر عباس جعفری،‌ سید علی رضوی
اهدافترویج اسلام، حفظ تمامیت ارضی کشور پاکستان، حفظ ارزشهای دینی، حمایت از محرومان و وحدت اسلامی
نحوه تبلیغاتhttp://www.mwmpak.org/

مجلس وحدت مسلمین پاکستان (MWM) از احزاب سیاسی شیعیان پاکستان که در سال ۲۰۰۹م (فروردین ۱۳۸۸ش) تأسیس شد و اهداف آن، ترویج اسلام، حفظ تمامیت ارضی کشور پاکستان، حفظ ارزش های اسلامی، حمایت از محرومان و وحدت اسلامی اعلام شده است. دبیرکل این حزب، از سال ۲۰۱۰م، راجا ناصرعباس جعفری است. مجلس وحدت مسلمین پاکستان کارهای عام‌المنفعه همانند تأسیس مساجد، مراکز بهداشتی و سرپرستی ایتام نیز انجام داده است.

تأسیس

حزب وحدت المسلمین(mwm) این حزب به سعی و تلاش جناب شیخ راجه ناصر جعفری به وجود آمد و تأسیس شد. این حزب در دوم آگوست سال ۲۰۰۹ میلادی اعلام موجودیت کرد.[۱] حزب وحدت المسلمین از یکی احزاب بزرگ سیاسی در پاکستان محسوب می شود و برمبنای مکتب اثنی عشریه تأسیس شده و به دنبال یک دولت دموکراتیک اسلامی، با تأکید بر وحدت شیعه و سنی در این کشور است.[۲] راجه ناصر عباس جعفری دبیر کل این، امین شهیدی معاون دبیر کل و سید ناصر عباس دبیر سیاسی آن است. که اکثر مسؤلین و حامیان آن فارغ التحصلان حوزه علمیه قم و اعضای دانشجویان امامیه (iso) هستند.[۳]

ساختار

بالاترین نهاد تصمیم‌گیری در ساختار مجلس وحدت مسلمین پاکستان شورای عالی آن است که تدوین سیاست کلان حزب را بر عهده دارد. علاوه بر آن شورای مرکزی، شورای عمومی، هیئت رئیسه مرکزی، هیئت رئیسه ایالتی و شهرستانی نیز در ساختار این نهاد هستند.[۴] دفتر مرکزی حزب در اسلام‌آباد، پایتخت پاکستان قرار دارد و در ایالت‌ها نیز دفتر ایالتی دارد. در ایران نیز شعبه مجلس وحدت مسلمین تشکیل شده است.[۵]

خدمات اجتماعی

مجلس وحدت مسلمین، علاوه بر فعالیت سیاسی، فعالیت اجتماعی نیز دارد. مؤسسه خیرالعمل و مدیریت بحران المجلس این نوع کارها را بر عهده دارند.[۶]

حزب وحدت المسلمین در انتخابات مجلس فدرال و مجالس ایالتی نمایندگان را انتخاب کرد و اما به جز یک کرسی در ایالت بلوچستان پیروزی دیگری را بدست نیاورد و اما در انتخابات سال ۲۰۱۵م مجلس محلی ایالت گلگت بلتستان پاکستان به طور فعال شرکت کرد و سه دو کرسی را از آن خود کرد.[۷]

فعالیت های سیاسی

حزب وحدت المسلمین خود مطیع و فرمانبردار رهبر ایران می داند و خواهان مشارکت حد اکثر در عرصه سیاست و تحولات سیاسی و اجتماعی است. این حزب علاوه بر مشارکت سیاسی در بخش فرهنگی، تربیتی و رفاهی هم فعال و کارهای زیادی انجام داده است.[۸] یکی از اهداف مجلس وحدت مسلمین، ایجاد وحدت اسلامی میان فرق اسلامی است تا همه مذاهب اسلامی در پاکستان زندگی با آرامش داشته باشند.[۹] از این رو به پیروان مسلک بَریلوی نزدیک شد و در برگزاری هفته وحدت همیشه سعی نمود.[۱۰] حزب وحدت المسلمین در انتخابات مجلس فدرال و مجالس ایالتی نمایندگان را انتخاب کرد و اما به جز یک کرسی در ایالت بلوچستان پیروزی دیگری را بدست نیاورد و اما در انتخابات سال ۲۰۱۵م مجلس محلی ایالت گلگت بلتستان پاکستان به طور فعال شرکت کرد و سه دو کرسی را از آن خود کرد.[۱۱]

پانویس

  1. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۰.
  2. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۰.
  3. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۰.
  4. دستور مجلس وحدت مسلمین، باب دوم، شق ۱ ص۹ و ۱۰.
  5. دستور مجلس وحدت مسلمین، باب دوم، شق ۱.
  6. خیر العمل فاوندیش،‌ انسانیت کی خدمت کا تین سال، حصہ دوم۔
  7. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۰.
  8. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۱.
  9. ترحیمی، تروریسم در پاکستان، انتشارات دانشگاه آزاد اسلامی تهران، ۱۳۸۸ش، ص۱۰۹.
  10. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۲.
  11. سعیدی شگری،‌تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۱۰.

منابع

سید جواد نقوی
نام کاملجواد نقوی
نام‌های دیگرسید مقاومت
اطلاعات شخصی
محل تولدپاکستان
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
  • اختر جون
  • شیخ غالب حیات
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات جامعه عروة الوثقی
وبگاهtbum.parsiblog.com

سید جواد نقوی

سید جواد نقوی یکی از منادیان وحدت اسلامی، موسس جامعه عروه الوثقی و نظریه پرداز ننظام امامت و ولایت در پاکستان می باشد. وی از شاگردان حضرت آیت الله جوادی آملی و حسن زاده آملی هست. سید جواد نقوی در شهر لاهور بزرگترین جامعه اسلامی به نام عروه الوثقی را تأسیس نموده است که در تحت اشراف ان چندین مدارس و مراکز علمی، فرهنگی و اجتماعی فعال می باشد.

تحصیلات

سید جواد نقوی در شهر »هری پور» یکی از شهرهای ایالت »خیبر پختونخواده» در سال ۱۹۵۲م، به دنیا آمد.[۱] وی تحصیلات ابتدائی را در این کشور از اساتید برجتسه در حوزه علمیه پاکستان فرا گرفت. بعد از آن برای تحصیل در سطوح عالی وارد حوزه علمیه قم شد.[۲] در این حوزه از استاتید همچون آیت الله جوادی آملی و حسن زاده آملی در رشته های مختلف بهره برد.

فعالیت های علمی

سید جواد نقوی در دوران تحصیل در حوزه علمیه قم به تربیت شاگردان پرداخت و یک مؤسسه ی هم تأسیس کرد. ایشان فعالیت های علمی خود را از این حوزه شروع کرد. طلبه های از افکار سید جواد نقوی متأثر شده اند.[۳] بعد از حضور چند ساله در حوزه علمیه قم، به پاکستان بازگشت و حوزه علمیه بزرگ بنام »جامعه عروۀ الوثقی« تأسیس کرد و جامعه العروۀ الوثقی و چندین شاخ دارد و در حال حاضر هزاران طلبه اعم از پسر و دختر در این حوزه مشغول تحصیل هستند.[۴] سید جواد نقوی در رسانه فعال هست و یک شبکه به » اهل بیت (ع)« راه اندازی نموده است و از طریق این شبکه سخنرانیها و دورس سید جواد نقوی بخش می شود.[۵]

دیدگاه سیاسی سید جواد نقوی

سید جواد نقوی طرفدار سرسخت نظام امامت و ولایت است، با تمام وجود از نظام سیاسی ایران و از ولایت فقیه دفاع می کنند و خود را به عنوان سرباز رهبر انقلاب حضرت آیت الله العظمی سید علی خامنه ای معرفی می کنند. سید جواد نقوی خود را مصلح سیاسی-اجتماعی می داند.[۶]

فعالیت های پژوهشی

سید جواد نقوی در بخش پژوهش فعالیت می کند و یک مجله به عنوان » مشرب ناب« از سوی حوزه علمیه عروۀ الوثقی چاپ می شود و تاکنون شماره ها آن از صد گذشته است.[۷] این مجله باتیتر بالای چاپ می شود و صدها نفر عضو این مجله علمی- تربیتی هستند. مجله مشرب ناب علاوه بر در پاکستان در حوزه های علمیه نجف اشرف، قم، اصفهان و مشهد توزیع می شود.[۸] در این مجله سخنرانیها، مقالات سید جواد نقوی که در موضوعات قرآنی و مناسبات های مختلف نوشته می شود، به چاپ می رسد. سید جواد نقوی در طی سال چند گذشته توانست صدها نفر را در سراسر پاکستان با سخنرانیها و مقاله ها و نشت های علمی به سوی جذب نماید. چون بین افراد تحصیل کرده و دانشجویان خلأ فکری وجود داشت اذهان ها پذیرای افکار و نظریه های جدید بودند و سید جواد نقوی با افکار و نظریه های جدید وارد میدان شد.علاوه بر آن افرادی از جوانان و در خارج از مرز پاکستان از اندیشه ها و افکار سید جواد نقوی متأثر شده اند و این افراد از طریق شبکه اهل بیت (ع)، فضای مجازی و مجله مشرب ناب افکار و نظرات ایشان را پیگیری می کنند.[۹] سید جواد نقوی نظام آموزشی موجود در حوزه های علمیه شیعه ناکاره آمد و عقب افتاده می داند و خواهان آنها هست.

تلاش برای وحدت مسلمانان

سید جواد نقوی داعی وحدت بین شیعه و اهل سنت در پاکستان است. لذا در این راستا تلاشهای زیادی کرده است. به باور ایشان وحدت نتیجه ارتباط دو طرفه و سازنده شیعه و سنی است نه نشستن و شعار وحدت دادن.[۱۰] تلاش ها برای نزدیکی هرچه بیشتر پیروان مکاتب اسلامی در هفته وحدت ستودنی است این امام امت امام خمینی (ره) بود که ۱۲تا ۱۷ ربیع الاول را به نام هفته وحدت نامگذاری کرد.[۱۱] وی راهیپمایی وحدت امت و کانفرنس حرمت رسول(ص) و جشن میلاد مسعود نبی مکرم(ص) توسط حوزه علمیه عروۀ الوثقی را اقدامی مثبت در راستای اتحاد اسلامی می داند.[۱۲] سید جواد نقوی می گوید که اگر اهل سنت برنامه ای برگزار کنند ما در خانه بنشینیم و روزی که ما برنامه داریم آنها شرکت نکنند این خیانت به وحدت است، ولی اگر شیعه و اهل سنت در ارتباط باشند نظریه وحدت اسلامی تقویت می گردد و در مبارزه با تفکر فرقه گرایانه اقدامی مؤثر خواهد بود.[۱۳]

آثار علمی

سید جواد نقوی آثار زیادی در موضوعات مختلف دارد. برخی از آثار وی درباره امام حسین علیه السلام:

  • حماسه حسینی
  • مقصد حسین
  • فلسفه عزاداری
  • فلسفه تحریک کربلا
  • حسین علیه السلام چراغ هدایت
  • پیغام عاشورہ
  • حرارت القلوب
  • کرامت و شرف حسینی
  • عهد الهی و میثاق ربوبی
  • عاشورہ از نظر خمینی
  • حالت امت بعد از پیغمبر
  • کربلا کی عبرتیں(عبرت های کربلا)
  • کردار زینبی
  • لوگ دنیا کے بندے( مردم بنده دنیا)
  • وحدت پیغام کربلا
  • هم حسین و غم حسین
  • اسلامی بیداری و پیغام عاشورہ.[۱۴]

پانویس

  1. نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، ۱۳۷۰ش ص۱۱۲و۱۱۳.
  2. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۰.
  3. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۱.
  4. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۱.
  5. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۱.
  6. نقوی، جستارهائی در منش سیاسی شهید عارف حسین،۱۳۸۸ش، ص۱۵.
  7. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۱.
  8. سید مقاومت پاکستان، سید جواد نقوی،‌سایت.
  9. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۲.
  10. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۲.
  11. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۲.
  12. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۲.
  13. سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی،‌۱۳۹۹ش، ص۲۸۲.
  14. سید جواد نقوی، سید مقاومت پاکستان، سایت اسلام ناب محمدی.


منابع

  • سعیدی شگری، فرمان علی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی در پاکستان، قم جامعه المصطفی العالمیه، رساله دکتری تاریخ اهل بیت(ع)،‌۱۲۹۹ش.
  • نقوی،‌ سید جواد، جستارهائی در منش سیاسی سید عارف حسین الحسینی،‌ گفتگو و شنود با شاهد یاران، یاران،‌ شماره ۵۰، دی ماه ۱۳۸۸ش.
  • سید جواد نقوی،‌سید مقاومت پاکستان،‌سایت اسلام ناب محمدی.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی
نام کاملسید علی شرف الدین
نام‌های دیگرشرف الدین بلتستانی
اطلاعات شخصی
محل تولدپاکستان
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
  • محمد حسن جلال الدین
  • علی جوهری
آثار
  • ترجمه کتاب افق گفتگو، انبیا قرآن
فعالیت‌هاموسسه هیات دار ثقافه اسلامیه
وبگاهsibghatulislam.com

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی


سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی خود را در حال حاضر یک مصلح قرآنی می داند، وی نزد علمای شیعه و اهل سنت پاکستان، جایگاه و مقام خاصی داشته است. وی در دوران معاصر، یک مصلح بزرگ و داعی اتحاد بین مسلمانان به حساب می آید. سید علی شرف الدین یکی از شخصیت های دعوت کننده به قرآن و اسلام ناب محمدی (ص) می باشد. با مولانا اسحاق فیصل آبادی که یکی از مصلحان و دعوت کننده به اتحاد مسلمین بود، ارتباط نزدیکی داشته است۔۔

زندگی نامه

وی در سال ۱۹۴۲م در منطقه بلتستان در شهرستان شگر و در محله علی آباد دیده به جهان گشود، که یکی از وادی های اطراف قله ی مشهور کا 2 قرار گرفته است [۱].

تحصیلات

سید علی شرف الدین تحصیلات ابتدائی را در منطقه بلتستان فرا گرفت و برای تحصیل علوم در مراتب عالی در سال ۱۳۷۷هجری عازم نجف اشرف شد. آیت الله صادقی تهرانی یکی از اساتید وی به حساب می آید. [۲] انگیزه فهم دین از طریق ثقل اکبر » قرآن « بخاطر شاگردی صادقی تهرانی در وی ایجاد شد.[۳] سید علی شرف الدین نبود دروس قرآن و حدیث در حوزه های نجف و قم گله دارد. در دوران اقامت وی در نجف، با آیت الله سید محمد باقر الصدر در ارتباط بوده است.[۴]

فعالیت های علمی

سید علی شرف الدین حدود ۱۲ سال بعد به وطن باز گشت، وی موسسه ای را تأسیس کرد که به مؤسسه » دار الثقافه الاسلامیه « معروف است۔ [۵] وی بعد از برگشت به پاکستان تحت اشراف موسسه دار الثقاقه الاسلامیه با ترجمه کتابهای شیعی، تبلیغ مذهب شیعه را در این کشور شروع کرد.[۶] سید علی شرف الدین کتابهای کوچک و کم حجم شیعی را به زبان اردو ترجمه نمود و برای گسترش تشیع در پاکستان مصمم شد.[۷] وی کتابهای که متعلق به امام زمان (ع) و درباره مهدویت بود و همچنین دعای ندبه را در سر زمین پاکستان در سطح عموم گسترش داد.[۸] علاوه بر آن کتابهای عربی و فارسی که متعلق به شیعه بوده، به زبان اردو ترجمه نمود، همانند کتابهای پیدایش تشیع و چگونگی آن، کتاب های تیجانی سماوی همراه با راستگویان آنوقت که هدایت یافتم، فلسفه امامت، مذهب اهل بیت، شب های پیشاور و اهل بیت در آیه تطهیر. علاوه بر آن صدها کتاب را به زبان اردو ترجمه نموده است.[۹] سید علی شرف الدین بعد از انقلاب اسلامی در ایران در سال 1979 میلادی، برای شناساندن و معرفی مقام معظم رهبری و ولایت فقیه در پاکستان نقش مهمی را ایفاد کرد.[۱۰]

آثار =

۱.قرآنیات: نام کتاب به زبان اردو ترجمه نام کتاب به زبان فارسی

  • قرآن سے پوچھو از قرآن بپرسید
  • انبیاء قرآن، محمد مصطفی انبیای قرآن(حضرت محمد)
  • مکتب تشیع اور قرآن مکتب تشیع و قرآن
  • سؤالات و جوابات معارف قرآن پرسشها و پاسخهای معارف قرآن
  • قرآن اور مستشرقین قرآن و مستشرقان]
  • قرآن میں مذکر و مونث مذکر و مونث در قرآن
  • قرآن میں شعر و شعراء شعر و شاعران در قرآن
  • انبیاء قرآن(آدم،نوح،ابراهیم) انبیای قرآن (آدم، نوح، ابراهیم)
  • انبیاء قرآن(موسی ،عیسی) انبیای قرآن(موسی، عیسی)
  • قرآن میں امام و امت امام و امت در قرآن
  • اٹھو قرآن کا دفاع کرو برخیزید، از قرآن دفاع کنید

۲. کلام و ادیان

  • اعتقاد(4 جلد) اعتقاد (چهار جلد)
  • عقاید و رسومات شیعه اعتقادات و مراسم مذهبی شیعیان

۳. تاریخ

  • خطداحیوں کا اسماعیلیوں کا اغوا اغوای اسماعیلیه توسط خطاب و قداح
  • ادوار تاریخ اسلام دوره های تاریخ اسلام
  • مدخل الدراسات تاریخ اسلامی مدخل الدراسات تاریخ اسلام

۴. قیام امام حسین و بقیه ائمه (ع)

  • تفسیر عاشورا تفسیر عاشورا
  • تفسیر سیاسی قیام امام حسین تفسیر سیاسی قیام امام حسین(ع)
  • قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزه نگاه جغرافیایی به قیام امام حسین(ع)
  • اسرار قیام امام حسین اسرار قیام امام حسین
  • عزاداری کیوں؟ عزاداری چرا؟
  • انتخاب مصائب۔ترجیحات-ترمیمات انتخاب روضه و مصائب
  • مثالی عزاداری کیسے منائیں؟ عزاداری نمونه چگونه برگزار کنیم؟
  • عنوان عاشورا عنوان عاشورا
  • قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں قیام امام حسین درنگاه دانشمندان غیر مسلم
  • معجم کتب مؤلفین امام حسین(ع) معجم کتب و مؤلفان قیام امام حسین(ع)
  • آمریت کے خلاف آئمہ طاہرین کی جدو جدو نهضت ائمه (ع) بر علیه آمریت

۳.متفرقات و موضوعات متنوع

  • مدارس دینی و حوزات علمیه پر نگارشات نگارشی دربارة حوزه های علیمه
  • ہماری ثقافت و سیاست کیاہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟ فرهنگ و سیاست ما چگونه باشد؟
  • شکوؤں کے جواب پاسخ شکوه ها
  • شکوه جواب شکوه شکوه ها و پاسخ آن
  • فصل خطاب فصل الخطاب
  • جواب سے لاجواب پاسخ دندان شکن
  • عوامی عدالت کے شمارے شماره ی دادگاه مردمی
  • مجلہ فصلنامہ عدالت مجله فصلنامه عدالت
  • موضوعات متنوعہ موضوعات متنوع
  • تعدد قرآئات مترادف تحریفات تعدد قرائات برابر تحریف
  • فرقوں میں جذور شرک و الحاد شرک و الحاد در فرقه ها
  • حج و عمره قرآن و سنت کی روشنی میں حج و عمره از نگاه قرآن و سنت
  • مسجد
  • افق گفتگو افق گفتگو.[۱۱]

پانویس

  1. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص۱۹۷.
  2. موسوی، افق گفتگو، ۱۴۲۶ش، ص۹۰.
  3. موسوی، افق گفتگو، ۱۴۲۶ش، ص۹۰.
  4. موسوی، افق گفتگو، ۱۴۲۶ش، ص۹۰.
  5. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص ۱۹۹.
  6. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص ۱۹۹.
  7. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص ۲۰۰.
  8. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص ۱۹۹.
  9. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص ۲۰۱.
  10. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، ۱۳۹۹ش، ص ۲۰۱.
  11. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی، ۱۳۹۹ش، ۲۰۰-۲۰۲.

منابع

  • سعیدی شگری، فرمان علی،‌ تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی در پاکستان، جامعه المصطفی العالمیه قم، مجتمع آموزش عالی امام خمینی، ۱۳۹۹ش.
  • موسوی بلتستانی، سید علی شرف الدین، افق گفتگو، کراچی، دار ثقافه الاسلامیه، ۱۴۳۵ق.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
شیخ محسن علی نجفی
نام کاملمحسن علی نجغی
نام‌های دیگرمحسن ملت
اطلاعات شخصی
محل تولدپاکستان
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
  • سید جواد نقوی
  • شیخ سلیم
آثار
  • ترجمه کتاب الکوثر فی تفسیر القرآن، النھج السوی فی معنی المولی والولی
فعالیت‌هاموسسه هیات جامعه اهل بیت(ع) و جامعه الکوثر
وبگاهmohsinalinajafi.com

شیخ محسن علی نجفی از مفسران و یکی از فعالان شیعی پاکستان است. او مؤسس مدارس جامعة اهل البیت، جامعة الکوثر و سیستم آموزشی اسوه در پاکستان می باشد. او در زبان‌های عربی، اردو و فارسی تألیفاتی زیادی دارد که از جمله آنها کتاب تفسیری الکوثر فی تفسیر القرآن است. وی همچنین نماینده آیت‌الله سیستانی در پاکستان و ریاست شورای عالی مجمع جهانی اهل بیت(ع) پاکستان را بر عهده دارد. شیخ محسن علی نجفی یکی از منادیان وحدت اسلامی در این کشور شناخته می شود و فعالیت های زیادی در زمینه فرهنگی، آموزشی،‌ اجتماعی و سیاسی دارد.

زندگی نامه

محسن علی نجفی در سال ۱۹۴۳م در ۶۰ کیلومتری اِسکَردُو بَلْتِسْتان پاکستان در ناحیه کَهرمَنگ در روستایی به نام مَنتُوکهه به‌دنیا آمد.[۱] محسن علی نجفی تحصیلات ابتدایی را نزد پدرش حسین جان شروع کرد. در سن ۱۴ سالگی پدرش از دنیا رفت و بعد از وفات او نزد یکی از عالمان روستای خود به‌نام سید احمد موسوی ادامه تحصیل داد.[۲]

تحصیلات

در سال ۱۹۶۳م محسن نجفی در مدرسه مشارع العلوم سنده مشغول به تحصیل شد و در یک سال علاوه بر دروس حوزه زبان اردو را هم فرا گرفت.[۳] بعد از آن به طرف پنجاب سفر کرد و در دارالعلوم جعفریه خوشاب به شاگردی مولانا محمد حسین درآمد.[۴] نجفی برای ادامه تحصیل به جامعة المنتظر لاهور مراجعه کرد و نزد اساتیدی چون حسین بخش جارا، صفدر حسین نجفی کسب فیض کرد.[۵] در سال ۱۹۶۶م برای تحصیلات عالی به حوزه علمیه نجف رفت و نزد آیت‌الله خوئی و شهید باقر الصدر و دیگر اساتید آن حوزه علمیه به تحصیل علوم دینی پرداخت.[۶] بعد از روی کار آمدن دولت بعث در عراق و فشار بر مراکز دینی، عراق را به مقصد پاکستان ترک کرد و در اسلام‌آباد مستقر شد و همان‌جا مدرسه‌ای به نام جامعه اهل البیت تأسیس کرد. [۷] محسن علی نجفی از سال ۱۹۷۴م که از حوزه علمیه نجف به پاکستان بازگشت و مشغول تدریس فقه، اصول، تفسیر قرآن، فلسفه، کلام و اخلاق شد.[۸] محسن علی نجفی همچنین نماینده آیت‌الله سیستانی در پاکستان و ریاست شورای عالی مجمع اهل بیت(ع) پاکستان را بر عهده دارد.[۹]

تألیفات

محسن علی نجفی، کتاب‌های متعددی به زبان عربی و اردو تألیف و منتشرنموده است که بعضی از آنها به شرح ذیل می باشد:

  • الکوثر فی التفسیر القرآن: یک تفسیر روان و ساده در زبان اردو است که مشتمل بر ۲۰ جلد است.[۱۰] در این تفسیر ابتدای آیات را ترجمه کرده، سپس به شرح الفاظ پرداخته و در آخر به شأن نزول و مسائل اخلاقی و عقیدتی پرداخته است.
  • بلاغ القرآن: ترجمه و حاشیه بر قرآن به زبان اردو.[۱۱]
  • النھج السوی فی معنی المولی والولی (به زبان عربی)
  • دراسات الایداولوجیة المقارنة (به زبان عربی)
  • تصور اسلامی محنت(به زبان اردو).[۱۲]
  • فلسفه نماز (به زبان اردو)
  • راهنماء اصول برای تنظیمی انقلاب و انقلابی تنظیم (به زبان اردو)
  • تلخیص المنطق للعلامة المظفر (به زبان عربی)
  • تلخیص المعانی للتفتازانی (به زبان عربی)
  • تدوین و تحفظ قرآن (به زبان عربی)
  • فلسفه اسلامی و مارکسیسم (به زبان اردو)

و چندین مقالات علمی که در مجلات محلی و بین‌المللی چاپ شده‌اند.[۱۳]

ترجمه ها

نجفی در کنار نگارش، کتاب‌هایی را به زبان اردو ترجمه کرده است:

خدمات فرهنگی و آموزشی

خدمات علمی- فرهنگی محسن علی نجفی به شرح ذیل است:

مدارس اهل‌بیت: مجموعه‌ای از مدارس در سراسر پاکستان که به مدیریت محسن علی نجفی فعالیت می‌کنند و تعداد آنها به ۲۷ مدرسه می‌رسد. از بین آن‌ها ۱۸ تا برای آقایان و ۹ تا برای خواهران اختصاص دارد و مهم‌ترین اینها جامعه اهل بیت و جامعة الکوثر می‌باشد که در پایتخت پاکستان واقع است. جامعة الکوثر علاوه بر تدریس لمعتین، رسائل، مکاسب، کفایتین و درس خارج از امکانات تحصیلات آکادمی نیز برخوردار است.[۱۵]

جابر بن حیّان ترست: این مؤسسه با اهداف آموزشی و تربیتی در قالب ایجاد مدارس جدید، دانشکده ها و آموزشگاه ها وارد عمل شد و تا سال ۲۰۰۲ توانست ۳۸ مدرسه غیر انتفاعی ابتدایی به نام اُسوه پبلک سکول و باب ۲۵ باب مسجد در مناطق محروم و روستایی پاکستان بسازد. [۱۶]

خدمات اجتماعی

محسن نجفی در کنار خدمات علمی، به خدمات مختلف اجتماعی و رفاهی نیز می‌پردازد که ساخت حسینیه‌ها و مساجد، شبکه تلویزیونی هادی تی‌وی، [۱۷] پروژه‌های مسکونی برای یتیمان و فقرا، [۱۸] بنیاد حسینی برای کمک به زلزله‌زدگان و سیل‌زدگان، [۱۹] کمک به ازدواج نیازمندان، بهداشت عمومی و آب‌رسانی به مناطق محروم از خدمات رفاهی اجتماعی او است.[۲۰]

پانویس

  1. https://mohsinalinajafi.comدیدار دبیرکل مجمع جهانی اهل بیت(ع) با آیت الله شیخ محسن علی نجفی، وارث: پایگاه اطلاع رسانی هیات مذهبی.
  2. گفتگو با شیخ محسن علی نجفی،‌وفاق تایم، ۲۰۲۱م.
  3. حیات شیخ محسن علی،‌ پایگاه رسمی محسن نجفی.
  4. حیات شیخ محسن علی،‌ پایگاه رسمی محسن نجفی.
  5. حیات شیخ محسن علی،‌ پایگاه رسمی محسن نجفی.
  6. از تأسیس ۷۰ مراکز آموزشی حوزه تا راه اندازی ماهواره در پاکستان،‌خبرگزاری حوزه.
  7. گفتگوی محسن نجفی با خبرگزاری وفاق تایم.
  8. حیات شیخ محسن علی نجفی پایگاه رسمی محسن نجفی.
  9. دیدار دبیر کل مجمع جهانی اهل بیت(ع) با آیت الله محسن علی نجفی وارث؛ پایگاه اطلاع رسانی هیات مذهبی.
  10. گفتگوی شیخ محسن علی نحفی با وفاق تایم.
  11. عارفی،‌شیعیان پاکتسان،‌۱۳۸۵ش، ص۲۳۳.
  12. عارفی،‌شیعیان پاکتسان،‌۱۳۸۵ش، ص۲۳۳.
  13. گفتگوی با شیخ محسن علی نجفی با خبرگزاری وفاق تایم.
  14. حیات شیخ محسن علی نجفی، پایگاه رسمی محسن نجفی.
  15. خدمات علمی شیخ محسن علی نجفی،‌پایگاه رسمی محسن نجفی.
  16. عارفی، شیعیان پاکستان، ۱۳۸۵ش، ص۲۰۳.
  17. هادی تی وی، سایت رسمی هادی تی وی.
  18. مصاحبه شیخ محسن علی نجفی با اسلام تایمز، تاریخ درج، ۶ نوامبر ۲۰۱۶ م، تاریخ بازدید، ۵ ژانویه ۲۰۲۲م.
  19. مصاحبه شیخ محسن علی نجفی با اسلام تایمز، تاریخ درج، ۶ نوامبر ۲۰۱۶ م، تاریخ بازدید، ۵ ژانویه ۲۰۲۲م.
  20. شیخ محسن علی نجفی کون؟ سایت شیعه نیوز پاکستان.

منابع

  • نقوی، سید حسین عارف، تذکره علماء امامیه پاکستان، آستان قدس رضوی، اسلامی جمهوریه ایران، ۱۴۱۵ قمری، ۱۹۹۴م.
  • عارفی،‌ محمد اکرم، شیعیان پاکستان،‌ قم شیعه شناسی،‌۱۳۸۵ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
شورای ایدئولوژی اسلامی پاکستان
نام جریانشورای ایدئولوژی اسلامی پاکستان
رهبراناشرف تهانوی،‌ سید ابو الاعلی مودودی
اهدافاجرایی اسلام
مبانی و اصولقانون سازی با براساس قرآن و سنت
جهت‌گیریاسلام ساختن قوانین کشور
نحوه تبلیغاتشبکه های دولتی

شورای ایدئولوژی اسلامی پاکستان

تاریخچه

ایده تشکیل شورای ایدئولوژی اسلامی ابتدا در نخستین قانون اساسی پاکستان یعنی قانون اساسی سال ۱۹۵۶ میلادی ارائه شد. شورای ایدئولوژی اسلامی (Council of Islamic Ideology) نهادی قانونی است که به قانونگذاران در خصوص قوانین اسلامی و همچنین قوانین متناقض با اسلام مطابق قرآن و سنت پیشنهادات خود را ارائه می دهد.[۱] ایده تشکیل شورای ایدئولوژی اسلامی ابتدا در نخستین قانون اساسی پاکستان یعنی قانون اساسی سال ۱۹۵۶ میلادی ارائه شد. پس از آن در سال ۱۹۶۲ میلادی این شورا به عنوان شورای مشورتی تحت ماده ۱۹۹ قانون اساسی پاکستان تشکیل یافت. پس از آن بار دیگر این شورای مشورتی طبق ماده ۲۲۸ در قانون اساسی سال ۱۹۷۳ میلادی مجدداً تشکیل و به شورای ایدئولوژی اسلامی تغییر یافت. این شورا تاکنون بیش از صدها گزارش جامع در خصوص قوانین مربوط به اسلام، مسائل فقهی، اصلاحات در قوانین، قوانین متناقض با اسلام و بازبینی قوانین را به دولت و مجلس ارائه کرده است.

با توجه به این که پاکستان یک کشور مسلمان و اسلامی است، پیش نویس ها، پیشنهادات و توصیه های این شورا حائز اهمیت است، لیکن دولت موظف به تصویب و اجرای آن نمی باشد. اعضای شورای ایدئولوژی اسلامی شامل تمام فرقه های مسلمان پاکستان اعم از اهل تسنن و شیعه و همچنین برخی از محققان اسلامی و قضات بلند پایه می باشد.

فعالیت های

برخی از فعالیت های این شورا عبارتند از:

  • ارائه پیش نویس، پیشنهادها و توصیه های مرتبط با قوانین اسلامی به دولت و مجلس،
  • برگزاری سمینار، کنفرانس، میزگرد و نشست با حضور صاحب نظران و محققان اسلامی (همچون صدور گواهینامه غذای حلال، روش شناسی طراحی برنامه های درسی و بنیاد فکری و ایدئولوژی آن، شیوه های سیاست اسلامی، ارزش های معاصر در پرتو سیره پیامبر اسلام)،
  • انتشار ژورنال "اجتهاد
  • گزارش سالانه (پژوهش و تحقیق در زمینه قوانین و فقه اسلامی و قوانین متناقض با اسلام)،
  • مقالات و تحقیقات متفرقه (مقالات و تحقیقات با موضوعات مختلف بنا بر مسائل روز)،
  • گزارش ها و توصیه ها (این گزارش ها و توصیه ها شامل موضوعات مختلفی مانند اصلاحات اجتماعی، اسلامی سازی اقتصاد، پیشنهادات مربوط به نظام آموزشی، اسلامی سازی قوانین، اصلاحات در رسانه ها و از این قبیل می شود).

دستاوردها

در سطور زیر به برخی از دستاوردهای این شورا هم اشاره شده است که عبارتند از:

  • تاسیس وزارت امور مذهبی و اقلیت ها به پیشنهاد شورای ایدئولوژی اسلامی،
  • تشکیل کمیسیون حقوق،
  • تشکیل آکادمی شریعه،
  • تشکیل مسند قضایی شریعت و دادگاه فدرال شریعت،
  • ترویج زبان عربی،
  • اجرای قانون زنا، حکم دولتی ۱۹۷۹ میلادی،
  • اجرای قانون تجاوز به اموال، حکم دولتی ۱۹۷۹ میلادی،
  • قانون شهادت (گواهی)، ۱۹۸۴میلادی،
  • قانون زکات و عشر، حکم دولتی ۱۹۸۰ میلادی،
  • قانون قصاص و دیه، ۱۹۹۷ میلادی.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
جعمیت علمای اسلام پاکستان
نام جریانجعمیت علمای اسلام پاکستان
اهدافمولانا شبیر احمد عثمانی،مولانا طاهر قاسمی و مولانا ظفر احمد
مبانی و اصولبرقراری کامل نظام اسلامی در پاکستان
جهت‌گیریایجاد کشورِ مستقلِ مسلمانان‌ در شبه‌ قاره‌ (پاکستان‌)، در برابر کنگره ملی هند و روحانیانِ طرفدارِ یکپارچگی هند
نحوه تبلیغاتشبکه های اجتماعی و رسانه های مربوط به جمعیت

جمعیت‌ العلمای اسلام‌ پاکستان‌

تاریخچه

جمعیت‌ العلمای اسلام‌، حزبی اسلامی در پاکستان‌.پیشینه این‌ جمعیت‌، به‌ دوران‌ پیش‌ از تجزیه هندوستان‌ (۱۳۲۶ش‌/ ۱۹۴۷) و جمعیت‌ العلمای هند باز میگردد. «جمعیت‌ العلمای هند» با استعمار انگلیس‌ مخالف‌ بود و از اهداف‌ و سیاستهای کنگره ملی هند (به‌ رهبری گاندی) حمایت‌ میکرد، در عین‌ حال‌ اکثر اعضای آن‌ با تلاش‌ «جامعه مسلمانان‌ سراسر هند» برای تقسیم‌ هندوستان‌ و تشکیل‌ کشور مستقل‌ پاکستان‌ نیز مخالفت‌ می کردند.[۲]. برخی از اعضای جمعیت‌ العلمای هند، که‌ طرفدار «جامعه مسلمانان‌ سراسر هند» (مسلم‌لیگ‌) بودند، به‌ رهبری مولانا شَبیر احمد عثمانی (متوفی ۱۳۲۸ش‌/ ۱۹۴۹)، از ۴ تا ۷ آبان‌ ۱۳۲۴/ ۲۶ـ۲۹ اکتبر ۱۹۴۵ در کلکته‌ گردهم‌ آمدند و حزب‌ «جمعیت‌ العلمای اسلام‌» را تأسیس‌ کردند.[۳] مولانا شبیر احمد عثمانی، نخستین‌ رهبر این‌ جمعیت‌ شد. برخی از همکاران‌ او، که‌ در تأسیس‌ جمعیت‌ نقش‌ فعال‌ داشتند، عبارت‌ بودند از: مولانا طاهر قاسمی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمدحسن‌، مفتی محمد شفیع‌، مولانا محمدابراهیم‌ سیالکوتی، مولانا ابوالبرکات‌، مولانا عبدالرئوف‌ و مولانا احتشام‌الحق‌ ثانَوی.[۴].

فعالیت سیاسی

جمعیت‌ العلمای اسلام‌ بین‌ سالهای ۱۳۲۴ تا ۱۳۲۶ش‌/ ۱۹۹۵ تا ۱۹۴۷، عمدتاً از مواضع‌ سیاسی ـ مذهبی جامعه مسلمانان‌ سراسر هند، برای ایجاد کشورِ مستقلِ مسلمانان‌ در شبه‌ قاره‌ (پاکستان‌)، در برابر کنگره ملی هند و روحانیانِ طرفدارِ یکپارچگی هند حمایت‌ می کرد [۵] مولانا شبیر احمد عثمانی، از نزدیک‌ترین‌ یاران‌ محمدعلی جناح‌، رهبر جامعه‌ مسلمانان‌ سراسر هند و بنیانگذار پاکستان‌، بود. محمدعلی جناح‌ در زمان‌ برگزاری همه‌پرسی برای پیوستن‌ ایالت‌ سرحد به‌ پاکستان‌ یا هند در ۱۳۲۶ش‌/ ۱۹۴۷، مولانا شبیر احمد عثمانی را برای جلب‌ حمایت‌ مردمی به‌ این‌ ایالت‌ فرستاد و او، با همکاری پیر امین‌الحسنات‌، در جلب‌ افکار مردم‌ سرحد نسبت‌ به‌ سیاستهای جامعه مسلمانان‌ سراسر هند و ایستادگی در برابر مخالفان‌ الحاق‌ به‌ پاکستان‌، مانند خان‌ عبدالغفارخان‌ و دکترخان‌، نقش‌ مهمی داشت‌.

تغییر نام

در ۱۳۲۶ش‌/۱۹۴۷، با تشکیل‌ کشور پاکستان‌، برخی از اعضای جمعیت‌ به‌ پاکستان‌ مهاجرت‌ کردند و گروهی نیز در هند ماندند. اعضا و هواداران‌ جمعیت‌ در پاکستان‌، در آذر ۱۳۲۶/ دسامبر ۱۹۴۷ در منزل‌ مولانا احتشام‌ الحق‌ ثانوی گرد آمدند و جمعیت‌ را با رهبری احمد عثمانی، به‌ نام‌ جمعیت‌ العلمای اسلام‌ مرکزی (مرکزی جمعیت‌ العلماء اسلام‌) بازسازی کردند. [۶]

ساختار

جمعیت‌ العلمای اسلام‌ در آغاز ساختار بسیار ساده‌ای داشت‌ و فاقد ویژگیهای یک‌ حزب‌ سیاسی بود.[۷]، اما پس‌ از دهه ۱۳۴۰ش‌/ ۱۹۶۰ بر نظم‌ و انضباط‌ درونی آن‌ افزوده‌ و تقسیم‌ کار شفاف‌تر شد. ساختار اصلی جمعیت‌ از سه‌ شورا (مجلس‌) تشکیل‌ شده‌ است‌: شورای مرکزی عمومی (مرکزی مجلس‌ عمومی)؛ شورای مشورتی (مجلس‌ شوری)؛ و شورای اجرایی (مجلس‌ عامله‌)، شورای مرکزی عمومی، با ۳۲۵عضو، عالیترین‌ نهاد تصمیم‌گیری حزب‌ است‌ و اعضای آن‌ از تمام‌ مناطق‌ انتخاب‌ می شوند. [۸] انتخاب‌ اعضای شورای اجرایی، از جمله‌ امیر (بالاترین‌ مقام‌ و رهبر تام‌الاختیار حزب‌) و دبیرکل‌ (ناظم‌ عمومی)، و سایر اعضا برعهده شورای مرکزی عمومی است‌ که‌ برای یک‌ دوره سه‌ ساله‌ انتخاب‌ میشوند. امیر و دبیرکل‌، پس‌ از انتخابشان‌ با آرای مخفی اعضای شورای مرکزی عمومی، با مشورت‌ یکدیگر، سایر اعضای شورای اجرایی را انتخاب‌ و به‌ شورای مرکزی عمومی معرفی میکنند (همان‌، ص‌87، 107ـ109، 269، 272).شورای مشورتی از شورای مرکزی عمومی اختیارات‌ کمتری دارد و شامل‌ دو بخش‌ مرکزی و ایالات‌ است‌ که‌ هر کدام‌ در قلمرو اداری خود به‌ تصمیم‌گیری و سیاستگذاری میپردازد.

اهداف‌ و آرمانها

جمعیت‌ العلمای اسلام‌ از نظر مذهبی وابسته‌ به‌ مکتب‌ وهابی ـ سَلَفی دیوبندی است‌.[۹] و خواهان‌ برقراری کامل‌ نظام‌ اسلامی در پاکستان‌ می باشد. براساس‌ منشور حزب‌، اهداف‌ و برنامه‌های آن‌ در عرصه‌های سیاسی، اجتماعی، آموزشی، اقتصادی و فرهنگی چنین‌ است‌: ایجاد نظام‌ اسلامی در پاکستان‌ و ترویج‌ قرآن‌ و سنّت‌ بر مبنای اصول‌ ۲۲گانه اسلامی.

فعالیتهای سیاسی

فعالیتهای سیاسی جمعیت‌ العلمای اسلام‌ را میتوان‌ در سه‌ دوره‌ دسته‌بندی نمود:1) دوره پیش‌ از تأسیس‌ پاکستان‌، که‌ بیش‌ از دو سال‌ به‌ درازا نکشید. جمعیت‌ در این‌ مدت‌، مهم‌ترین‌ مدافع‌ سیاسی و مذهبی جامعه مسلمانان‌ سراسر هند بود و در انتخابات‌ ۱۳۲۴ـ ۱۳۲۵ش‌ به‌ نفع‌ آن‌ جامعه‌ فعالیت‌ کرد. رابطه نزدیک‌ مولانا شبیر احمد با محمدعلی جناح‌، پس‌ از تشکیل‌ پاکستان‌ نیز ادامه‌ پیدا کرد. در پی تقاضای شبیر احمد عثمانی در بهمن‌ ۱۳۲۷/ فوریه ۱۹۴۸، هیئتی از متفکران‌ و علمای برجسته‌، برای مشاوره‌ دادن‌ به‌ شورای تدوین‌ قانون‌ اساسی پاکستان‌، تشکیل‌ شد، که‌ خود وی نیز از اعضای آن‌ بود. چند ماه‌ بعد همان‌ شورا، هیئت‌ تعلیمات‌ اسلامی (تعلیمات‌ اسلامی بورد) را، به‌ ریاست‌ سید سلیمان‌ نَدوی، ایجاد کرد.

مهم‌ترین‌ دستاورد سیاسی ـ حقوقی

جمعیت‌ در این‌ مقطع‌، حضور فعال‌ و مؤثر آن‌ به‌ همراه‌ گروه‌ فعالِ جماعت‌ اسلامی، در گردآوری ۳۱ روحانی از تمام‌ فرقه‌های مذهبی پاکستان‌ برای تدوین‌ اصول‌ ۲۲ گانه دولت‌ اسلامی، در دی ۱۳۲۹ در کراچی بود که‌ ریاست‌ این‌ جلسه‌ را سید سلیمان‌ ندوی، از فعالان‌ جمعیت‌ العلمای اسلام‌، به‌ عهده‌ داشت‌. [۱۰]

پانویس

  1. اسلامی نظریاتی کونسل تعارف، ڈھانچہ اور ذمہ داریاں، https://www.islamtimes.org، خبرگزاری اسلام تایم
  2. جمعیت‌ العلمای هند.
  3. افضل‌، ۱۹۹۸، ج‌۱، ص‌۵۷، عزیز احمد، ص‌۲۳۷؛ صفدر محمود، ص‌۱۵۸؛ مهدی حسن‌، ص‌۹۵.
  4. پیرزاده‌، ص‌۱۰.
  5. مهدی حسن‌، ص‌۹۶ـ ۹۷.
  6. پیرزاده‌، ص‌۱۳، ۴۰؛ افضل‌، ۱۹۹۸، ج‌۲، ص‌۲۱۵.
  7. افضل‌، ۱۹۹۸، ج‌۱، ص‌۵۷
  8. شیخ‌ عبدالقیوم‌، ص‌۱۰۷.
  9. کمال‌، ص‌۲۱۵ـ ۲۱۶.
  10. افضل‌، ۱۹۹۳، ص‌۵۰۸؛ نصر، ص‌۱۲۶ـ۱۲۷؛ صفدر محمود، ص‌۱۵۸.

منابع

  • اسد سلیم‌ شیخ‌، پاکستان‌ جمهوریت‌ اور انتخابات، لاهور ۱۹۹۴.
  • شیخ‌عبدالقیوم‌، مولانا فضل ‌الرحمن‌ کاسیاسی سفر، لاهور ۲۰۰۱.
  • صفدر محمود، پاکستان‌: تاریخ‌ و سیاست‌، ۸۸ـ۱۹۴۷، لاهور ۱۹۹۶.
  • سید قاسم‌ محمود، انسائیکلو پیدیاپ اکستانیکا ، لاهور ۱۹۹۸.
  • احمد حسین‌ کمال‌، تاریخ‌ جمعیت‌ علماء اسلام‌، لاهور ۱۱۹۰.
  • مهدی حسن‌، پاکستان‌ کی سیاسی جماعتین‌ ، لاهور ۱۹۹۰.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
مفتی جعفر حسین
نام کاملجعفر حسین
نام‌های دیگرمفتی جعفر
اطلاعات شخصی
سال تولد۱۳۳۲ ق، ۱۲۹۲ ش‌، ۱۹۱۴ م
محل تولدپاکستان
روز درگذشت۷ شهریور
محل درگذشتگوجرانوالا
دیناسلام، شیعه
استادان
  • سید ابوالحسن اصفهانی]]
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات [[مذهب شیعه|نهضت فقه جعفریه]]
وبگاهjafariapress.com


مفتی جعفر حسین یکی از رهبران و عالمان شیعی بوده است. وی همچنین خطیب و محقق بوده نهج البلاغه و صحیفۀ سجادیه به زبان اردو ترجمه کرد. او به‌عنوان رئیس اولین حزب شیعی پاکستان انتخاب شد. به‌عنوان اولین رییس انتخاب گردید. یکی از کارنامه‌های مفتی جعفر حسین معافیت شیعیان از دادن زکات (عُشر) به دولت است. وی برای اتحاد و وحدت مسلمانان سعی نمود.

تحصیلات

مفتی جعفر حسین در سال 1914م در گوجرانواله در خانواه ای مذهبی و اهل علم متولد شد. پدر بزرگش طبابت می کرد پس از طی تحصیلات ابتدائی، گلستان، بوستان، اخلاق محسنی و حلیته المتقین و امثال آنها را نزد پدر خود حکیم شهاب الدین احمدتمام کرد و بعدها نزد اطبای آن شهر، میزان الطب، طب اکبر و مفرج القلوب را خواند و نیز در مدرسۀ دار العلوم اهل سنت، درس منطق را تا قطبی، درس فلسفه را تا سعیدیه و درس ادب تا سبعه معلقه و مقامات حریری را نیز تمام کرد [۱]. وی در سال 1928م به مدرسۀ ناظمیه لکهنو وارد شد و مدرک ممتاز الافاضل را به دست آورد و علاوه بر آن، مدارک فاضل ادب و فاضل حدیث را از دانشگاه لکهنو کسب کرد. اسامی استادان وی در لکهنو به قرار زیر می بوده اند:

  • نجم الملت مولانا سید نجم الحسن (متوفی 1357 ه ق).
  • مولانا ظهور حسن بارهوی. 3
  • مولانا سید ابو الحسن (متوفی 1355 ه ق).
  • مولانا سید سبط حسین جونپوری.
  • مولانا مفتی سید محمد علی (متوفی 1361ه ق).
  • مولانا مفتی سید احمد علی (متوفی 1388 ه ق)

وی درمیان ارباب علم و دانش به آفتاب پنجاب مشهور و معروف بود [۲]. وقتی وی در سال 1935م از حوزه علمیه لکهنو فارغ التحصیل شد، به نجف اشرف رفت.

در آن جا، مدت پنج سال علاوه بر دورۀ سطح، درسهای دیگر را هم آموخت استادان او در نجف به قرار زیر بوده اند:

شیخ عبد الحسین رشتی. میرزا باقر زنجانی . شیخ جواد تبریزی. ابراهیم رشتی. سید علی نوری مفتی جعفر حسین در سال 1940م به وطن خود بازگشت و بنا به دستور نجم الملت، کار تدریس را در مدرسه باب العلوم نوگانوان سادات از توابع مراد آباد، شروع کرد بعد از تأسیس مدرسه جعفریه در گوجرانواله پاکستان ، به آن جا منتقل شد. و در سال 1949م به عنوان یکی از اعضای هیأت تعلیمات اسلامی انتخاب شد [۳].

فعالیت های سیاسی - اجتماعی

به دنبال سخنرانی چوهدری ظفر الله خان قادیانی که در پارک جهانگیر در کراچی در 18/می 1952م ایراد شده بود، انجمن مسلمانان کل پاکستان نیز در کراچی کنفراسی را تشکیل داده بودند که یکی از دعوت کنندگان و امضاء کنندگان آن، مولانا مفتی جعفر حسین بود. وی در دوران حکومت نخست وزیر پاکستان لیاقت علی خان مفتی جعفر حسین را به عنوان نماینده شیعیان در شورای اسلامی انتخاب نمود. محمد ایوب خان دو بار به عنوان عضو شورای اسلامی انتخاب شد. در سال 1977م در نهضت اتحاد ملی، شرکتی فعال داشت. رئیس جمهور وقت پاکستان محمد ضیاء الحق، وی را برای عضویت شورای اسلامی انتخاب کرد، ولی ضیاء الحق در اجراء اسلام به ملت اسلامی و خصوصا با ملت جعفریه اخلاص نداشت، و این شورا با ایماء دولت وقت باوجود هشدارهای مفتی جعفر حسین در مورد نفاذ فقه جعفریه، در موضع گیری خود عقب نشینی نکرد، لذا مفتی جعفر حسین با برگزاری نشست خبری با بی بی سی، از سمت خود در 30/آوریل 1979م استعفا کرد. در همین سال او در کنفراس بهکر به عنوان «قائد ملت جعفریه» برگزیدند و این مرد مجاهد در سال 1980م با لشکر معدود و مختصر خود از دولت وقت امضاء بر معاهده و تعاهد نامه اجرای فقه جعفری را گرفت و یک پیروزی تاریخی و فتح مبین را بدست آورد. در همین سال وی مجمع شیعه را در اسلام آباد رهبری کرد و بیش از 24ساعت دبیر خانه در محاصره داشت. و ی در سال 1979م جامعه جعفریه را در گوجرانواله افتتاح کرد.

نقش وی برای اتحاد مسلمانان

مبارزه با استکبار و احیای حقوق مستضعفان از ویژگی های شخصیتی وی بود. مفتی جعفر حسین برای احیای حقوق مردم تلاش ها و مبارزه مسالمت آمیز فراوانی انجام داد و از سوی دیگر با مخالفت جدی با اعمال و نظریه های تندروی و افراطی؛ اعتدال، همدلی و برادری ملی را در کشور ترویج دادند. وی بخاطر بی ثباتی سیاسی و فقدان جمهوریت واقعی در کشور به شدت نگران بود و مفتی جعفر حسین یک رهبر واقع بین بودند که افکار و نظریه های سازنده ایشان راهنمای عظیمی برای نسل امروز است. او خواهان اجرای عدالت در سطح عمومی جامعه و اقتدار قانون اساسی در کشور بود، او می گفت: اگر قانون در کشور اجرا نشود کشور بازیچه دست دشمنان و گروه های تروریستی خواهد شد که به مرور زمان این اتفاق در پاکستان رخ داد و این نشانگر تفکر وسیع و دور اندیش بودن این رهبر فقید بود. مفتی جعفر حسین با وجود سن بالا و ضعف جسمی، تا اخر عمر برای احیای حقوق مستضعفان تلاش کردند و مبارزی سرسخت در برابر قدرت های استکباری بوده اند و وی معتقد بود که با ظلم و تجاوز نمی توان مردم را از حقوق دینی، انسانی و ملی شان محروم کرد [۴].

خدمات علمی- فرهنگی

وی در سال 1979م جامعه جعفریه را در گوجرانواله افتتاح کرد. تألیفات وی به شرح زیل می باشد: ترجمه و حواشی نهج البلاغه ترجمه و حواشی صحیفۀ سجادیه سیرت امیر المؤمنین (ع) در دو جلد [۵].

پانویس

  1. مفتی جعفر حسین، سیرت امیر المؤمنین (ع)،ج2،ص14
  2. سعیدی، فرمان علی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی، 1400ش، ص272
  3. همان،ص 273
  4. مبارزه با استکبار و احیای حقوق مستضعفان از ویژگی های مفتی جعفر حسین است rasanews.ir
  5. نقوي،حسين عارف ، همان، ص 70و71

منابع

  • نقوی، سید فیضان عباس، «ملت جعفریہ کا درخشندہ ستارہ، علامہ مفتی جعفر حسین»، اسلام تائمز.
  • عارفی، محمد اکرم، شیعیان پاکستان، قم،‌ شیعه شناسی، ۱۳۸۵ش.
  • نقوی، سید محمد عارف، تذکره علمای امامیه پاکستان، مشهد انتشارات آستان قدس رضوی، ۱۳۷۷ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
مؤسسه یاد بود امام خمینی کرگل هند
نام جریانمؤسسه یاد بود امام خمینی
جمیت طرفداربیش از صد هزار نفر
رهبرانشیخ ذاکر حسین
اهدافگسترش آموزش و فرهنگ دینی، ایجاد وحدت بین مسلمانان و مقابله بافقر
مبانی و اصولاحیای اندیشه‌ امام و انقلاب اسلامی
جهت‌گیریهمسویی با انقلاب اسلامی
نحوه تبلیغاتشبکه خبری وأس آف لداخ (صدای لداخ)، www.ikmtkargil.org

مؤسسه یاد بود امام خمینی (امام خمینی میموریل ٹرسٹ)کرگل هند

این بنیاد در سال ۱۹۸۹م تأسیس گردید. سرپرست این مؤسسه محمدحسین ذاکری بوده است.[۱]

اهداف

برخی از اهداف این بنیاد عبارتند از :


  • گسترش آموزش و فرهنگ دینی، ایجاد وحدت بین مسلمانان، از بین بردن فقر و بیکاری، کمک به فقرا و نیازمندان، تأسیس مدارس دینی و عصری برای شیعیان.[۲]
  • تلاش برای احیای فکر اصیل اسلام ناب محمدی و التزام به نظام ولایت فقیه.
  • تلاش برای احیای ندیشه‌های امام و انقلاب اسلامی.[۳]

فعالیت ها

برخی از فعالیت این بنیاد:

  • تأسیس انجمن علمی و مدرسه عصری شهید مطهری.
  • تشکیل بسیج امام، زینبیه و روحانی.
  • تأسیس مرکز بهداشتی – درمان باقریه.
  • تأسیس حوزه علمیه به نام جامعه امام خمینی
  • تأسیس جامعة الزهرا(ع) برای خواهران.
  • راه‌اندازی شبکه خبری وأس آف لداخ (صدای لداخ).[۴]

پانویس

  1. کنوری، تذکره پرکستان، ۲۰۰۱۵م، ص۳۱.
  2. کنوری، تذکره پرکستان، ۲۰۰۱۵م، ص۱۰۵.
  3. «مؤسسه یادبود امام خمینی»، سایت مؤسسه یادبود امام خمینی.
  4. «مؤسسه یادبود امام خمینی»، سایت مؤسسه یادبود امام خمینی.

منابع

  • کنوری‌، آخوند محمد یوسف، تذکره پُرکستان، کرگل، آخوند پبلیکیشنز، چاپ اول، ‌۲۰۱۵م.
  • «مؤسسه یادبود امام خمینی»، سایت مؤسسه یادبود امام خمینی، تاریخ بازدید:۲۴خرداد۱۴۰۲ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
اشرف علی تهانوی
نام کاملاشرف تهانوی
نام‌های دیگرعارف بالله
اطلاعات شخصی
محل تولد[[هند]]
محل درگذشتتهانه
دیناسلام، [[مذهب سنی |حنفی]]
استادان
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات مذهب شیعه
وبگاهjafariapress.com

اشرف علی تهانوی اشرف‌علی بن عبدالحق فاروقی ‌تَهانَوی (۱۲۸۰-۱۳۶۲ق)، با‌ عنوان‌های‌ حکیم الامت، محدث مشهور، عارف‌ بالله‌ و فقیه بزرگ، واعظ و عارف، مؤلف حنفی و یکی از علمای مکتب دیوبندیه بود.

زندگی نامه

اشرف‌علی بن عبدالحق فاروقی ‌تَهانَوی در ۱۲۸۰ در قریه تهانه، از توابع مظفرنگر هندوستان متولد شد.

تحصیلات

اشرف‌علی تحصیلات خود را در تهانه آغاز کرد و سپس در دارالعلوم دیوبند، در محضر محمود حسن دیوبندی و محمود نانوتوی و یعقوب نانوتوی، ادامه داد.[۱]

آغاز طریقت

اشرف‌علی در سفر حج از حاجی امداداللّه تهانوی ــ مهاجر مکی و از رهبران شورش هندیان بر ضد انگلستان که دلبستگی بسیار به مثنوی داشت و پیوسته در جوار کعبه شرح مثنوی می‌گفت.[۲] طریقت را فرا گرفت و مدتی با وی مصاحبت کرد. سپس به هند بازگشت و در کانپور به تدریس مشغول شد. پس از مدتی احوال باطنی بر او غلبه کرد، چنانکه تدریس را ترک کرد و به مسافرت در نواحی مختلف هند پرداخت. تهانوی بار دیگر به حجاز رفت و مدتی را در صحبت حاجی امداداللّه گذراند. وی در ۱۳۱۵ به زادگاه خود بازگشت و تا پایان عمر، جز بندرت، از آن‌جا خارج نشد و به ارشاد مریدان و اصلاح نفوس و کتابت و تألیف و تدریس و وعظ و خطابه پرداخت.[۳]

آثار

تهانوی دارای تألیفات بسیاری است. شمار تصنیفات فارسی و عربی و اردوی او در موضوعات گوناگون، از فقه و تفسیر و حدیث و منطق و کلام و عرفان و قرائت، به حدود سیصد اثر می‌رسد. در ذیل به برخی آثار وی اشاره می گردد:

  • بهشتی زیور، به اردو، که در اصل برای تعلیم دختران نگارش یافته بود و با رواجی کم نظیر مواجه شد.[۴]
  • خلاصه هدایة الحکمة اثیرالدین ابهری، که در دهلی چاپ شده است.[۵]
  • کرامات امدادیه و کمالات امدادیه، که هر دو در شرح حالات امداداللّه تهانوی است. [۶]
  • شرحی بر ابیات عارفانه حافظ که بارها به نام عرفان حافظ چاپ شده است. [۷]

مترجم قرآن مجید به زبان اردو بوده است. از این ترجمه معلوم می‌شود بر‌ فارسی‌ هم تسلّط کامل داشته‌ و احتمالا از ترجمه‌ها و تفسیرهای فارسی در ترجمۀ اردوی خویش بسیار سود برده است.

پانویس

  1. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۶.
  2. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۷۱ـ۷۲.
  3. اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)
  4. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۲، ص۵۸.
  5. اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)
  6. قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۶۸، کراچی ۱۹۷۵.
  7. اکبر ثبوت، «گوشه‌هایی از جایگاه مثنوی در تاریخ و * فرهنگ ما»، ج۱، ص۱۸۸، در ادبیات معاصر دری افغانستان، چاپ شریف حسین


منابع

  • اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری).
  • اکبر ثبوت، «گوشه‌هایی از جایگاه مثنوی در تاریخ و فرهنگ ما»، در ادبیات معاصر دری افغانستان، چاپ شریف حسین قاسمی، دهلی ۱۹۹۴.
  • شمس الدین محمد حافظ، دیوان، با ترجمه اردو از قاضی سجاد حسین، لاهور ۱۳۶۳ ش، عبدالحی حسنی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر، ج ۸، حیدرآباد دکن ۱۴۰۲/ ۱۹۸۲.
  • قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، کراچی ۱۹۷۵.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ****************************
نام مؤسسه منهاج القرآن اینترنشنال
نام مؤسس طاهری القادری
مدیر کل طاهر القادری
تاریخ تأسیس ۱۹۸۱میلادی
کشور پاکستان
نشانی پاکستان، لاهور اداره منهاج قرآن ،


وبسایت http://www.research.com.pk/ سایت منها/

منهاج القرآن اینترنشنال (به اردو: منهاج القرآن انٹرنیشنل) یا (MQI) سازمانی مردم نهاد و بین‌المللی است که در ۱۹۸۱ میلادی توسط طاهر القادری در لاهور پاکستان بنیان نهاده شده‌است. این مؤسسه چشم‌انداز راهبردی بلند مدتی برای اعتدال مذهبی، آموزش مؤثر، گفتگو و همسازی ادیان دارد و در حدود ۱۰۰ کشور دنیا فعال است. مؤسسه منهاج القرآن توانسته است هزاران مدرسه ابتدایی، دبیرستان، دانشگاه و مراکز دینی را در پاکستان، کشورهای غربی و سراسر جهان راه‌اندازی کند.

هدف تأسیس

مرکز اصلی این سازمان در ۱۹۸۷ توسط طاهرالدین القادری الگیلانی که به عنوان بنیان‌گذار معنوی سازمان شناخته می‌شود، افتتاح شد.جهانی‌کردن پیام قرآن، آشناسازی مردم غرب با پیام واقعی اسلام و زندگی مسالمت‌آمیز با دیگر ادیان الهی و همچنین تقویت جایگاه اهل بیت(ع) در کشورهای اسلامی از جمله اهداف آن است. [۱] هدف این سازمان در اروپا و کشورهای غربی به‌طور کلی ایجاد همسازی در جامعه میان گروه‌های مختلف فرهنگی، قومی و مذهبی از طریق تعامل اجتماعی، گفتگوی میان ادیان و گسترش پیام مدارا، احترام و دیگر مزایای همیاری است. این سازمان یکی از نخستین سازمان‌ها در نوع خود است که آغاز به گسترش گفتگوی میان ادیان، میان اقلیت‌های دینی کرده‌است. قادری رئیس انجمن گفتگوی اسلام و مسیحیت است، جایی که اسقف‌های مسیحی، علمای مسلمان و دانشمندان در کنار یکدیگر به فعالیت می‌پردازند. یکی از اهداف این سازمان، آموزش و تربیت نوجوانان و جوانان در سراسر جهان است.[۲]

فعالیت ها

فعالیت ها در پاکستان

کلاس شناخت قرآن، دوره مطالعات قرآنی، «بیایید دین را یاد بگیریم»، آشنایی با تجوید، فن قرائت، حدیث‌شناسی، دوره حفظ حدیث، دوره شناخت فقه، شناخت عقاید و یادگیری زبان عربی از دیگر برنامه‌های آموزشی منهاج القرآن است که با برگزاری کلاس‌های متعدد و کوتاه مدت اجرا می‌شود. [۳] بیشترین فعالیت منهاج القرآن در حوزه آموزش در مقطع ابتدایی متوسطه و دانشگاهی است به نحوی که اکنون تعداد دانشگاه‌های ساخته شده این سازمان صرفاً در پاکستان به ۵ واحد، تعداد کالج‌ها به ۱۰۰ واحد، تعداد دبیرستان‌ها به یک هزار واحد و تعداد دبستان‌ها نیز به ۱۰ هزار واحد می‌رسد. [۴] MQI (در تاریخ November, 2020) کنفرانس سالانه تولد مؤسسه را که در پارک اقبال (منار پاکستان) لاهور برگزار شد، ترتیب داد. مهمان اصلی این کنفرانس اسامه محمد العبد، معاون دانشگاه الازهر بود، در حالی که صدها هزار نفر از هر چهار استان و هیئت‌هایی از خاورمیانه و بخش‌هایی از اروپا در کنفرانس شرکت کردند. [۵] ایشان در برابر کاریکاتورهای کفرآمیز منتشر شده توسط فرانسه یک دقیقه سکوت کرد.[۶] MQI (در تاریخ January, 2019) کنفرانس جهانی بانکداری و اقتصاد اسلامی را برای یافتن راه حل‌هایی برای مسائل بانکی، مالی و اجتماعی سیاسی که مسلمانان با آن مواجه هستند ترتیب داد.[۷]. ایشان در سال ۲۰۱۹، پروژه 'بدون ربا' اقتصاد خرد اسلامی الموخت (Al-Muwakhat Islamic Micro-Finance project) را راه‌اندازی کردند.[۸] فعالان زن این سازمان روز جهانی زن را در راهپیمایی در اسلام‌آباد گرامی داشتند.[۹] ایشان در لاهور علیه قتل‌های ناموسی زنان تظاهرات کرد.[۱۰]

فعالیت‌های منهاج القرآن انگلستان

منهاج القرآن بریتانیا یک اردوی سه روزه ضد تروریسم را در دانشگاه وارویک برای مقابله با ایدئولوژی افراطی با حضور بیش از ۱۰۰۰ جوان مسلمان ترتیب داد.[۱۱] الهدایه (سازمان) بخشی از منهاج القرآن است.[۱۲] یک کنفرانس صلح برای محکومیت تروریسم برگزار کرد که در آن ۱۲۰۰۰ نفر در ومبلی آرنا لندن گرد آمدند. این کنفرانس پیام‌های حمایتی از دیوید کامرون، نخست‌وزیر، نیک کلگ، معاون نخست‌وزیر، اد میلیبند، رهبر مخالفان، بان کی مون دبیرکل سازمان ملل، و اسقف اعظم کانتربری روآن ویلیامز داشت. از طرف افراد مذاهب مختلف دعاهای صلح اقامه شد.[۱۳] MQI انگلستان برنامه درسی اسلامی در مورد صلح و مبارزه با تروریسم و فتوای تروریسم را منتشر کرد. منهاج القرآن یک ایستگاه رادیویی را از مسجد خود در فارست گیت لندن راه‌اندازی می‌کند، بنیاد رفاه منهاج را از مسجد اداره می‌کند و مراسم بیداری شمع روشن را برای افرادی که به انواع و اقسام شیوه‌های وحشتناک جان باخته‌اند، ترتیب داده‌است.[۱۴] جوانانی از ویمبلدون چدار و مسجد MQI در ابتکار عمل بین ادیان یهودی-مسلمان خود برای ساختن جایگاهی برای افراد بی خانمان و برگزاری کارگاهی با هم متحد شدند.[۱۵]

پانویس

  1. گفتگو با جعفر روناس، وابسته فرهنگی و مسئول خانه فرهنگ ایران در لاهور، خبرگذاری بین المللی قرآن، ۲۲خرداد ۱۴۰۰ش.
  2. خبرگزاری مهر، ۲۲آبان، ۱۴۰۰ش.
  3. گفتگو با جعفر روناس، وابسته فرهنگی و مسئول خانه فرهنگ ایران در لاهور، خبرگذاری بین المللی قرآن، ۲۲خرداد ۱۴۰۰ش.
  4. گفتگو با جعفر روناس، وابسته فرهنگی و مسئول خانه فرهنگ ایران در لاهور، خبرگذاری بین المللی قرآن، ۲۲خرداد ۱۴۰۰ش.
  5. Pakistan Today» (به انگلیسی). دریافت‌شده در ۲۰۲۲-۰۵-۲۴.
  6. Minhaj moot observes one-minute silence against profanity". www.thenews.com.pk (به انگلیسی). Retrieved 2022-05-24.
  7. "Islamic banking moot seeks global forum to help Muslims". DAWN.COM (به انگلیسی). Retrieved 2022-05-24
  8. "Minhajul Quran launches interest-free loan project". DAWN.COM (به انگلیسی). Retrieved 2022-05-24.
  9. Gannon, Kathy (1 May 2020). "Report gives Pakistan failing grade on human rights". ABC News. Retrieved 5 February 2021.
  10. Pakistani women allegedly killed by relatives for kiss seen in online video». www.cbsnews.com (به انگلیسی). دریافت‌شده در ۲۰۲۲-۰۵-۲۴.
  11. Muslim group Minhaj ul-Quran runs 'anti-terrorism' camp» (به انگلیسی). BBC News. ۲۰۱۰-۰۸-۰۷. دریافت‌شده در ۲۰۲۲-۰۵-۲۴.
  12. Muslim Camp' draws UK teens to combat extremism" (به انگلیسی). 2009-08-10. Retrieved 2022-05-24.
  13. «Muslim group Minhaj ul-Quran runs 'anti-terrorism' camp» (به انگلیسی). BBC News. ۲۰۱۰-۰۸-۰۷. دریافت‌شده در ۲۰۲۲-۰۵-۲۴.
  14. Ramadan radio' hits the airwaves live from Forest Gate HQ». Newham Recorder (به انگلیسی). دریافت‌شده در ۲۰۲۲-۰۵-۲۴.
  15. 'Muslim Camp' draws UK teens to combat extremism" (به انگلیسی). 2009-08-10. Retrieved 2022-05-24.

منابع

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
شاه ولی الله دهلوی
نام کاملشاه ولی الله
اطلاعات شخصی
محل تولدهند
روز درگذشت۳۱ اگوست
محل درگذشتدهلی
دیناسلام، [[اهل سنت]]
استادان
شاگردان
  • شاه عبد العزیز
  • شاه اسماعیل
آثار
  • ترجمه کتاب فتح الرحمن فی ترجمة القرآن، حجة الله البالغة
فعالیت‌هاموسسه هیات [[]]
وبگاه{{نشانی وب|example.com|متن نمایشی اختیاری}}

شاه ولی الله دهلوی شاه ولی دهلوی یکی از اندیشمندان مسلمان شبه قاره هند بوده است. وی منادی وحدت بین مسلمانان و مخالف استعمار بود.شاه ولی الله آثار زیادی در موضوعات دینی و اسلامی دارد.

زندگی نامه

قطب الدين احمد ابن عبد الرحيم معروف به شاه ولى‌اللّه دهلوى ( ۱۱۱۴- ۱۱۷۶ ق) دانشمند مسلمان، قرآن‌شناس، محدث، فقیه و متكلم و از پرآوازه‌ترين شخصيت‌هاى فكرى و فرهنگى قرن دوازدهم در شبه قارّه هند بود.[۱] وی در سال ۱۱۱۴ هجری قمری در دهکده پهلت شهرستان مضفرنگر در نزدیک دهلی، در خانواه‌ای شهره به حکمت و دیانت متولد شد.[۲] پدران او همه عالمان دین بودند و پدرش، شیخ عبدالرحیم نیز عالمی بزرگ در دستگاه‌ اورنگ زیب بود.

تحصیلات

شاه ولی‌الله استعدادی در حد نبوغ داشت. او در پنج سالگی‌ به مکتب رفت و در هفت سالگی حافظ قرآن شد.[۳] در همین سال‌ها زبان عربی و زبان‌ فارسی را فراگرفت. در ده سالگی کتاب مشهور شرح جامی را آغاز نمود و در ۱۴ سالگی بخشی از تفسیر بیضاوی را خواند و در همین سال ازدواج کرد. در ۱۵ سالگی توانست از علوم قرآن، حدیث، فقه، منطق و فلسفه، کلام، عرفان، طب، ریاضی و معانی بیان فراغت حاصل کند.ع[۴] در ۱۷ سالگی پدرش فوت شد و او در مسند وی قرار گرفت. در ۲۹ سالگی به سفر حج رفت و به‌مدت ۱۴ ماه نیز در مدینه به‌ مطالعه و تحصیل ادامه داد و با اوضاع و احوال مسلمانان سایر نقاط جهان آشنا شد.[۵] در بازگشت به هند، دهلی را مرکز علم و اصلاح، به‌ویژه حدیث قرار داد و نظام آموزشی خاصی برای تربیت‌ طلاّب ایجاد کرد. و از آن پس عمر خود را یکسره وقف تعلیم و تالیف و ارشاد طلاب کرد. یک دهه بعد، اثر گرانسنگ علمی-اجتماعی حجةاللّه‌ البالغة را به عربی نوشت. در این کتاب، احیاگری و بازگشت به خلوص اولیه فرهنگ و علوم اسلامی، با تاکید بر قرآن و حدیث و نیز آزاد‌اندیشی‌های اجتماعی برای حل معضلات مسلمانان ارائه داده است.[۶] او پس از ۶۲ سال عمر، در ۲۹ محرم‌ ۱۱۷۶ مطابق ۳۱ آگوست ۱۷۶۲ وفات یافت و در گورستانی در دهلی، که محل مقابر مشایخ‌ و مشاهیر و علما و ادباست به‌خاک سپرده شد.[۷] شاه ولی الله دهلوی بزرگ ترین متکلم و دانشمند دینی است که بعد از عبدالحق دهلوی در سر زمین هند ظهور کرد.[۸] بعضی در بیان عظمت شخصیت علمی او، وی را برتر از غزالی و ابن رشد خوانده اند.[۹]

مذهب

ترجمه وی نشانگر آن است که از اهل سنت بوده است، چنان‌که در مواردی از ترجمه‌اش، در حاشیه، صحت خلافت شیخین را مطرح نموده، و در استناد به روایات نیز از کتب بخاری و ترمذی و حاکم نیشابوری بهره جسته است. در آیه ۶ سوره مائده که کیفیت وضو ذکر شده نیز، همچون دیگر علمای اهل سنت، در ترجمه «و امسحوا برؤسکم و ارجلکم الی الکعبین»، [۱۰] شستن پاها را مطرح کرده است. با وجود این، از تحقیقاتی که برخی از تاریخ نگاران پیرامون شرح حال وی به عمل آورده‌اند برمی آید که وی خود را پیرو مذهب خاصی از مذاهب چهارگانه اهل سنت نمی‌دانسته، بلکه به مجموع آنها گرایش داشته و معتقد بوده است که باید برای حل اختلافات محدثان و پیروان چهار امام ، یک راه حل عملی را دنبال کرد و هرگز منصفانه نیست که کفه ترازو را فقط به یک طرف کج کنیم و نسبت به طرف دیگر کاملا بی‌اعتنا باشیم.

آثار

شاه ولی‌اللّه‌ مردی کوشا و کثیرالتالیف بود. آثار او را تا یک‌صد کتاب و رساله هم برشمرده‌اند که در حدود سی اثر از آنها به چاپ رسیده و بقیه یا به‌صورت نسخه خطی است یا از بین رفته است. آثار او به دو زبان عربی و فارسی نوشته شده است. و برخی از کتاب‌های او هم اخیرا به‌ زبان انگلیسی چاپ شده است.بعضی از آثار او عبارتند از:

  • الطاف القدس فی معرفة لطائف النفس،
  • الانتباه فی سلاسل اولیاء اللّه‌ و اتحاف النبیه فی ما یحتاج الیه المحدّث والفقیه.

مهم‌تر از نظر بحث و تحقیق، آثار قرآن‌پژوهی اوست که برجسته‌ترین آنها عبارتند از «فتح الرحمن فی ترجمة القرآن» که پایان ترجمه و پاک‌نویس آن به تصریح خود شاه ولی اللّه‌ در ۱۱۵۱ق (۱۷۳۸م) بوده است.

  • «الفوز الکبیر فی اصول التفسیر» که رساله‌ای کم حجم و پر مغز درباره اصول و مبانی تفسیر قرآن است و «المقدمة فی قوانین الترجمة» رساله‌ای کوتاه و چاپ نشده در باب اصول و روش‌های درست ترجمه قرآن است. نامه‌های فارسی او نیز در چندین کتابخانه هند نگهداری می‌شود.[۱۱]

در تالیفات شاه ولی‌الله، علاوه‌بر مباحث کلام و مباحث اجتماعی و مابعد الطبیعه، مباحث و دیدگاه‌های اقتصاد و سیاست نیز وجود دارد.[۱۲] وى صاحب آثار گوناگونى در زمينه علوم قرآنى است از جمله: ۱. الارشاد الی مهمات علم الاسناد؛ ۲. انسان العین فی مشایخ الحرمین؛ ۳. عقد الجید فی احکام الاجتهاد و التقلید؛ ۴. الفوز الکبیر فی اصول التفسیر ؛ ۵. حجة الله البالغة؛ ۶. اجوبة عن ثلاث مسائل؛ ۷. الانصاف فی بیان سبب الاختلاف؛ ۸. تنویر العینین فی رفع الیدین؛ ۹. رسائل الدهلوی؛ ۱۰. شرح تراجم ابواب صحیح البخاری؛ ۱۱. فتح الخبیر فی اصول التفسیر ؛ ۱۲. القول الجمیل فی اصول الطرق الاربع النقشبندیة و الجیلانیة و الجشتیة و المجددیة.[۱۳]

اندیشه سیاسی - اجتماعی

شاه ولی الله دهلوی در فقه و کلام سعی کرد نوعی وحدت در میان مذاهب فقهی و کلامی تصوف به وجود‌ آورد. [۱۴] او اختلافات فقهی چهار مکتب بزرگ اهل سنت را بسیار سطحی و ظاهری می دانست و معتقد بود که با رجوع به احادیث قابل رفع است. به همین جهت از نظر او پیروی از تمامی مکاتب فقهی چهارگانه جایز بود. [۱۵] او در مسئله «خلافت« به شدت معتقد به ضرورت و لزوم خلافت جهانی بود.[۱۶] شاه ولی الله دهلوی به عنوان بزرگ ترین متفکر و مصلح در شبه قاره، تأثیرات فکری فراوانی بر اندیشه دینی و سیاسی این منطقه برجای گذاشته است. افکار اصلاحی او به وسیله فرزندش شاه عبد العزیز(۱۷۴۶-۱۸۲۴م) و نوه اش شاه اسماعیل (۱۷۸۱-۱۸۳۱م) تبدیل به جنبش سیاسی-اجتماعی علیه سلطه استعماری انگلیس گردید.[۱۷] شاه عبد العزیز با فتوای معروفش مبنی بر «دار الحرب» بودن هند زیر سلطه بریتانیا، جهاد علیه استعمار را واجب اعلام کرد. [۱۸]

پانویس

  1. جمعی از نویسندگان، دائرةالمعارف تشیع، تهران، حکمت، ۱۳۹۰/۱۴۳۲ق، چاپ اول، ص۵۱۷.
  2. آمیغی، معصومه، معناشناسی واژه «انما» در دو ترجمه دهلوی و مکارم، مجله قران و حدیث، مجله بینات، ۱۳۸۹، سال هفدهم، شماره ۶۷، ص۱۲۴.
  3. خرمشاهی، بهاء الدین، ترجمه شاه ولی الله دهلوی، مجله ترجمان وحی، شهریور ۱۳۸۰، شماره۹، ص۶۱.
  4. الم قاسمی، محمد مسعود، زندگی‌نامه‌ی امام شاه ولی‌الله محدث‌ دهلوی، اثر مولانا، ترجمه‌ی عبدالله خاموشی هروی، مشهد، فردوسی، ۱۳۸۱، چاپ اول، ص۵۵.
  5. دهخدا، علی اکبر، فرهنگ دهخدا، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، ۱۳۷۷، چاپ دوم از دوره جدید، ج۹، ص۱۴۰۹۶.
  6. خرمشاهی، بهاء‌الدین، ترجمه شاه ولی‌الله دهلوی، مجله ترجمان وحی، شهریور ۱۳۸۰، شماره۹، ص۶۲.
  7. عالم قاسمی، محمد مسعود، زندگی‌نامه‌ی امام شاه ولی‌الله محدث‌ دهلوی، اثر مولانا، ترجمه‌ی عبدالله خاموشی هروی، مشهد، فردوسی، ۱۳۸۱، چاپ اول، ص۶۵.
  8. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۱.
  9. کنت مورگان، اسلام صراط مستقیم، ص۱۷۷.
  10. سوره مائده/ آیه ۶.
  11. خرمشاهی، بهاء‌الدین، ترجمه شاه ولی‌الله دهلوی، مجله ترجمان وحی، شهریور ۱۳۸۰، شماره۹، ص۶۳.
  12. انصاری، مسعود، شکوه و زیبایی در ترجمه قران دهلوی، مجله قران و حدیث، بینات، ۱۳۷۵، شماره ۱۲، ص۱۰۶.
  13. معجم المؤلفین، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج۱۳، ص۱۶۹.
  14. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۲.
  15. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۲.
  16. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۲.
  17. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۲.
  18. شاه ولی الله، قرة العینین فی تفضیل الشیخین، ص۱۶۹-۱۷۰.

منابع

  • خرمشاهی، بهاء‌الدین، ترجمه شاه ولی‌الله دهلوی، مجله ترجمان وحی، شهریور ۱۳۸۰، شماره۹.
  • انصاری، مسعود، شکوه و زیبایی در ترجمه قران دهلوی، مجله قران و حدیث، بینات، ۱۳۷۵، شماره ۱۲.
  • معجم المؤلفین، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج۱۳.
  • عارفی، محمد اکرم، جنبش اسلامی پاکستان بررسی عوامل ناکامی در ایجاد نظام اسلامی، قم مؤسسه بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش.
  • شاه ولی الله، قرة العینین فی تفضیل الشیخین، پیشاور، نورانی کتب خانه، ۱۳۱۰ش.
  • مورگان، کنت، اسلام صراط مستقیم، ترجمه گروهی از دانشمندان، تبریز چابخانه شفق، ۱۳۴۲ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
سید احمد خان
نام کاملسید احمد خان
نام‌های دیگرسر سید
اطلاعات شخصی
محل تولدهند
دیناسلام، سنی
آثار
  • ترجمه کتاب تفسیرالقرآن و هوالهدی و الفرقان
فعالیت‌هاموسسه هیات انجمن ترجمه
وبگاه{{ |}}

سید احمد خان سید احمد خان هندی (۱۸۱۷-۱۸۹۸) دانشمند اصلاح طلب و مفسر مادی گرای هندی بود.

زندگی نامه

سید احمد خان در سال ۱۸۱۷ میلادی دیده به جهان گشود. تحصیلات خود را از محضر استادان طی نمود و به نوشتن روی آورد. وی با انگلیسی‌های اشغالگر هند ارتباط داشت و در نوشته‌های خود نگاه مادی به دیانت داشت. در پنجاه و دو سالگی که دو فرزندش را برای ادامه تحصیلات به انگلستان برد، دیدن ترقیات شگرفت اروپائی‌ها از نزدیک،‌ اندیشه‌اش را در مهم شمردن تعلیم و تربیت به سبک جدید و با الهام از فرهنگ غربی، ریشه‌دارتر کرد. [۱] در بازگشت، انجمنی علمی - ادبی و دانشگاهی به سبک دانشگاه‌های اروپایی در علیگره تاسیس کرد که بر محور آن دانشگاه و فارغ التحصیلان آن، گرایش فکری پیشتازی پدید آمد. وی در سال ۱۸۹۸ میلادی درگذشت و در حیاط دانشگاه علیگره هند مدفون شد.

آثار

از وی تألیفاتی بر جای مانده‌است. از جمله تفسیر تفسیرالقرآن و هوالهدی و الفرقان که انتقادات فراوانی را بر او در پی داشته‌است.

دیدگاه

سید جمال الدین اسدآبادی بزرگترین شخصیت مخالف سید احمد خان است و نگاه مادی او به ادیان و تفسیر قرآن را مذمت می‌کند. سید جمال الدین در دوران اقامت خود در هند (۱۲۹۶) با افکار سید احمد خان آشنا شد و دو رساله یکی در رد افکار طبیعت گرای سید احمد خان و دیگری در رد تفسسیر او نوشت.«رساله نیچریه» سید جمال پاسخی به افکار سید احمد بود. [۲] در خاموش کردن مسالمت آمیز در یک شورش انقلابی که هندیان در طی آن، به جان انگلیسی‌ها افتادند، به نفع انگلیسی‌ها کوشید. [۳] توصیه سیاسی مهم او همین بود که مسلمانان باید با تمسک به ذیل عنایت اسلام، خود یک ملت مستقل و واحدی باشند. اما این تمسک به ذیل اسلام، در عمل، توسل به ذیل عنایت دولت علیه بریتانیا شد. تصور نمی‌رود که عنوان پر افتخار سر که انگلیسی‌ها در سال ۱۳۰۵ ق/ ۱۸۸۸ م به سیداحمدخان دادند در جهت تحکیم مبانی اسلام و تحقق امت واحده اسلامی بوده باشد.[۴]

تأسیس دانشگاه

دانشگاه علگیره هند توسط سید احمد هندی تأسیس شده‌است.سید احمد خان به تحت تأثیر علوم غربی قرار داشت. نوگرایی علمی بود. او جامعه مسلمانان هند را به فراگیری علوم جدید فرا می خواند. باری ترویج علوم جدید، «انجمن ترجمه» را در سال ۱۸۶۳ تأسیس کرد و سپس دانشگاه «علیگیره» در سال ۱۸۷۷ افتتاح کرد. [۵] در این دانشگاه، علوم جدید و علوم اسلامی در کنار هم تدریس می شدند.به اعتقاد او، عامل اصلی عقب ماندگی مسلمانان، خودداری از فراگیری دانش های زمان است.[۶]

پانویس

  1. امین مصری، احمد، زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، صفحات ۱۳۸ - ۱۲۰.
  2. پی هاردی، مسلمانان هند بریتانیا، ترجمه حسن لاهوتی، ص۱۴۳.
  3. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۴.
  4. القرآن و هو الهدی و الفرقان، سایت ویکی فقه.
  5. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۵.
  6. عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، ۱۳۸۲ش، ص۶۵.

منابع

  • عارفی، جنبش اسلامی پاکستان، قم، مؤسسه بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش.
  • امین مصری، احمد، زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث، شرکة نوابغ الفکر - قاهره - مصر، ۱۴۲۹ق.
  • پی هاردی، مسلمانان هند بریتانیا، ترجمه حسن لاهوتی، مشهد، آستان قدس رضوی۱۳۶۹.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
سید ابوالقاسم خوانساری ریاضی
نام کاملسید ابوالقاسم خوانساری
اطلاعات شخصی
محل تولد[ایران]]
محل درگذشتگلگت پاکستان
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات مذهب شیعه
وبگاهjafariapress.com

سید ابوالقاسم بن محمود خوانساری ریاضی (۱۳۰۹ق، خوانسار-۱۳۸۰ق، گِلگِت پاکستان) از علمای شیعه در قرن چهاردهم قمری بود. او علاوه بر تبحر در علوم دینی، بر حساب، هندسه و جبر نیز تسلط داشت و آثاری در این موضوعات نگاشت. خوانساری نزد ابوتراب خوانساری و آقا ضیا عراقی شاگردی کرد. وی از ابوتراب خوانساری، سید حسن صدر و سید ابوالحسن اصفهانی اجازه اجتهاد و روایت دریافت کرد. علامه طباطبایی از شاگردان او بود. او به درخواست حاکم منطقه شیعه نشین نگر گلگت، از سید ابوالحسن اصفهانی برای تبلیغ به منطقه نگر رفت و برای گسترش معارف اهل بیت(ع) سعی نمود. وی آواخر عمر خود به شهر گِلگِت آمد و در همین مکان درگذشت و در همانجا مدفون شد.

زندگی نامه

ابوالقاسم ریاضی فرزند محمود خوانساری و از عالمان خاندان خوانساری است. خاندان خوانساری همگی فرزندزادگان محبّ الله بن قاسم‌اند که نسب او با ۷ واسطه به صالح قصیر و در نهایت به امام کاظم(ع) می‌رسد. عالمان این خاندان بیشتر در ایران، به ویژه در خوانسار، گلپایگان و اصفهان و برخی در عراق و هند سکونت داشتند. [۱]

تحصیلات

دروس عالی فقه و اصول را در نجف نزد عمویش ابوتراب خوانساری و ضیاءالدین عراقی خواند. و از ابو تراب خوانساری، سید حسن صدر و سید ابوالحسن اصفهانی اجازه اجتهاد و روایت دریافت کرد. او علاوه بر تبحر در علوم دینی، بر علوم حساب و هندسه و جبر تسلط داشت و آثار متعددی در این زمینه‌ها نگاشت. سید محمد حسین طباطبائی از شاگردان خاص او بود. [۲] خوانساری به درخواست حاکم منطقه شیعه نشین نگر گلگت از سید ابوالحسن اصفهانی برای تبلیغ به منطقه نگر شمال پاکستان رفت و در آنجا سکونت گزید. و در سال ۱۳۸۰ در شهر گِلگت در شمال پاکستان درگذشت و در همانجا دفن شد. بر مدفن او بقعه‌ای بنا گردیده است و شیعیان شمال پاکستان برای زیارت مزارش می آیند.[۳]

آثار

ابوالقاسم خوانساری ریاضی کتابخانه‌ای با کتاب‌های نفیس داشت او بیش از سی اثر تألیف کرد که برخی از آنها عبارتند از:

  • اعجاز المهندسین، او الهندسة التی لا یحتاج الی الفرجار (پرگار)
  • رسالة الجبر و المقابلة
  • رسالة قابلیة تقسیم الاعداد
  • رساله‌های متعدد دیگر در ریاضیات
  • رسالة فی استخراج نهایة الخطأ الکعب
  • اعتقادات، یا تاریخ تمدن
  • سیاحات المتفکرین فی آراء الملحدین و المتدینین یا دین بی‌نزاع
  • منظومه‌ای بدون الف به فارسی
  • حاشیه بر مستدرک الوسائل میرزا حسین نوری
  • جزوات در فقه و اصول.[۴]

پانویس

  1. موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۸۴-۹۰؛ روضاتی، ۱۳۳۲ش، ص۱۱-۱۴.
  2. نشریه گلستان قرآن، وابسته به موسسه نمايشگاه‌های فرهنگی ايران آذر 1381 - شماره 136
  3. آقابزرگ طهرانی، طبقات، نقبا، قسم۱، ص۶۴، قسم۲، ص۶۴۵؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۲۶؛ موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱.
  4. آقابزرگ طهرانی، الذریعة، ج۳، ص۳۸۴، ج۵، ص۸۷، ج۶، ص۳۳، ج۱۱، ص۶۵، ج۱۷، ص۲، ج۲۱، ص۳۹۱،۳۹۹، ج۲۳، ص۱۰۳; موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱-۱۹۳.

منابع

  • منبع مقاله: بر گرفته از مقاله خاندان خوانساری در دانشنامه جهان اسلام، ج۱۶، صص۳۷۷-۳۸۳.
  • آقابزرگ طهرانی، الذریعة الی التصانیف الشیعة، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۸۹۳م.
  • آقا بزرگ طهرانی، طبقات اعلام الشیعة، نقباء البشر، فی القرن الرابع عشر، محمد، مشهد، قسم۱-۴، ۱۴۰۴ق.
  • موسوی اصفهانی، محمدمهدی، احسن الودیعة فی ترجمة اشهر مشاهیر مجتهدی الشیعة، او، تتمیم روضات الجنات، بغداد، ۱۳۸۴.
  • روضاتی، محمدعلی، زندگانی حضرت آیت الله چهار سوقی، حاوی شرح حال بیش از یکصد نفر رجال قرون اخیره، اصفهان، ۱۳۳۲ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
سید صفدر حسین نجفی
نام کاملصفدر حسین
نام‌های دیگرمحسن ملت
اطلاعات شخصی
محل تولدپاکستان
روز درگذشت۱۲آذر
محل درگذشتلاهور
دیناسلام، شیعه
استادان
شاگردان
آثار
فعالیت‌هاموسسه هیات جامعه المنتظر و
وبگاهjafariapress.com

سید صفدر حسین نجفی سید صفدرحسین نجفی یکی از منادیان وحدت میان مسلمانان، مروج انقلاب اسلامی ایران و افکار امام خمینیی و مؤسس مدارس و سازمان‌های شیعی در پاکستان بود.او مترجم قرآن کریم و کتاب‌های مهم شیعه به زبان اردو بوده است.

زندگی نامه

سید صفدر حسین نقوی النجفی که در سال 1933م در علی پور، بلوک مظفر گره به دنیا آمد، سلسلۀ نسبش به سید جلال الدین نقوی البخاری اوچ شریف، می رسد، پدرش غلام سرور، که مایل بود فرزندش را تعلیم دینی بدهد در سال 1940م او را به خدمت استاد مولانا سید محمد یار شاه نجفی به چک شمارۀ 38 خانیوال، بلوک مولتان، فرستاد و مدت شش ماه نزد استاد تحصیل کرد.[۱] او در سن ۵۷ سالگی درگذشت.

تحصیلات

پدرش غلام سرور، که مایل بود فرزندش را تعلیم دینی بدهد در سال 1940م او را به خدمت استاد مولانا سید محمد یار شاه نجفی به چک شمارۀ 38 خانیوال، بلوک مولتان، فرستاد و مدت شش ماه نزد استاد تحصیل کرد. سپس همراه استاد، مدت دو ماه هم در مدرسه باب العلوم به تحصیل پرداخت، بعد از آن به مدت شش ماه در مدرسه تهته سیال، در نزدیکی مظفر گره، کسب علم کرد. در سال 1941م به جلالپور ننگیانه رفت و تا سال 1945م در آن جا ماند و از آن جا به سیت پور، بلوک مظفر گره رفت. در تمام این مدت استاد سرپرست و مسئوول تعلیمات وی بود، در سال 1946م به مدرسه باب العلوم مولتان رفت و از محضر شیخ محمد یار فاضل لکهنو و مرحوم مولانا سید زین العابدین فاضل لکهنو، کسب فیض کرد. در سال 1948م در خان گره بلوک مظفر گره از محضر مولانا احمد حسین مستفیض شد و شرح جامی، قطبی، شرح باب حادی عشر را تمام کرد. در سال 1949م به جارا بلوک دیره اسماعیل خان رفت و دروس نظامیه را نزد مفسر قرآن، مولانا حسین بخش نجفی، کامل کرد. در سال 1951م بود که عازم نجف اشرف شد و تا 1956م در نجف به سر برد.سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان شیعی، 1400ش،ص124. در سال ۱۹۵۱م وی عازم نجف اشرف شد و تا ۱۹۵۶م در نجف به سرد برد.[۲]

اساتید

صفدر نجفی در پاکستان نزد اساتیدی همچون سید یار شاه نقوی و سید حسین بخش جارا نجفی شاگردی کرد.وی در نجف اشرف از اساتید زیر بهره برد: 1.شیخ محمد علی افغانی 2- مولانا اختر عباس 3- سید ابو القاسم رشتی 4- شیخ محمد تقی آل راضی 5- آیۀ الله سید ابو القاسم خوئی 6- آیۀ الله سید محسن الحکیم 7. آقا بزرگ تهرانی. او از آقا بزرگ تهرانی اجازه ارشاد و اجتهاد گرفت و در سال 1956م به پاکستان بازگشت و مدرس و استاد جامعۀ المنتظر لاهور شد. در آن زمان استاد او، شیخ اختر عباس، مدرس اعلای آن مدرسه بود. مولانا اختر عباس در سال 1967م به عراق رفت و مولانا سید صفدر حسین نقوی، به سمت مدرس اعلا منصوب شد[۳]. سید صفدرحسین نجفی از آقا بزرگ تهرانی اجازه روایت گرفت و همچنین از امام خمینی اجازه صرف وجوهات شرعیه را دریافت نمود.[۴]

شاگردان

سید صفدر نجفی شاگردانی فراوانی را تربیت نموده است و آنهایی که زیاد شهرت پیدا کرده اند به شرح زیرند: 1- حافظ سید ریاض حسین نقوی 2- مولانا غلام حسین نجفی 3- مولانا محمد شفیع نجفی 4-مولانا موسی بیگ نجفی 5-مولانا ملک اعجاز حسین نجفی 6-مولانا عاشق حسین نجفی 7- مولانا محسن علی نجفی 8- آیۀ الله حافظ بشیر حسین نجفی 9-مولانا تاج الدین حیدری 10- مولانا کرامت علی حیدری 11-مولانا ملک محمد اسلم قمی.

تأسیس سازمان‌ها و نهادها

سید صفدر نجفی یکی از مؤسسان سازمان امامیه پاکستان، نهضت فقه جعفریه بوده است. وی همچنین در انتخاب رهبران شیعه نقش داشته است.ایشان سرپرستی انجمن دانش آموزان را بر عهده داشت و در ژوئیه سال 1980م در گردهمایی اهل تشیع، که در اسلام آباد برگزار شد وایشان نیز از شرکت کنندگان پر تحرک بود. او یکی از علمایی بود که همراه قائد ملت جعفریه علامه مفتی جعفر حسین، رئیس جمهور پاکستان را ملاقات کرد [۵]

حمایت از انقلاب

در سال 1978م، هنگامی که دولت عراق از ادامه اقامت امام خمینی (رح) در سر زمین عراق ممانعت به عمل آورد وی به فرانسه عزیمت فرمود، مولانا صفدر حسین از طرف مردم پاکستان به فرانسه رفت و از حضرت آِیۀ الله درعوت کرد تا به پاکستان مهاجرت کند، حضرت آیۀ الله خمینی (رح) از وی تشکر کرد [۶]

تأسیس مدارس

با کمک و همکاری مؤمنین و خیرین، صفدر نجفی مدارس زیادی در این کشور تأسیس نموده است. در زیر به برخی از آنها اشاره می گردد:[۷]

  • جامعة الرضا (روهری، سکهر)
  • جامعه امام حسین (خانقاه دوگراں شیخوپوره)
  • جامعه نقویه (آزاد کشمیر)
  • جامعه فاطمیه (ریناله خورد، اوکاره)
  • مدرسه رضویه (صالح پت، سکهر)
  • جامعه قرآن و عترت (نارووال)
  • جامعه مهدویه (توبه تیک سنگه)
  • جامعه الزهراء برای خواهران (توبه تیک‌سنگه)
  • جامعه آل محمد (جن پور، رحیم یار خان)
  • جامعه رضویه عزیز المدارس (چیچه وطنی، ساهیوال)
  • جامعه مرتضویه (وهاری)
  • جامعه امام سجاد (جهنگ)
  • جامعه آیت‌الله خوئی (شورکوت، جهنگ)
  • مدرسه مدینة العلم (قلعه ستار شاه، شیخوپوره)
  • حوزه علمیه بقیةالله (لاهور)
  • جامعة الزهراء. ویژه خواهران (لاهور)
  • مدرسه ولی عصر (سکردو)
  • جامعه مدینةالعلم (چوهنگ، لاهور)
  • جامعه مدینةالعلم (بهاره کهو، اسلام‌آباد)
  • مدرسه محمدیه (جلال پور جدید، سرگودها)
  • دار الهدٰی محمدیه (علی پور، ضلع مظفر گره)
  • مدرسه امام المنتظر (جتوئی، ضلع مظفر گره)
  • جامعه خاتم النبیین (کوئته)

او همچنین در انگلیس، آمریکا و ایران نیز مدارسی تحت عنوان جامعة المنتظر تأسیس کرد [۸].


تألیفات

سید صفدر نه فقط در آموزش، مهارت داشت بلکه در عرصه پژوهش و تحقیقات هم مهارت کافی داشت لذا کتاب‌های زیادی را نوشت و مهم ترین کتاب‌های شیعی که در رشته های مختلف بود، به زبان اردو ترجمه نمود.کتابهای زیادی از وی اعم از تألیف و ترجمه به چاپ رسیده است. از آن جملۀ کتابهای چاپ شدۀ زیر است:

ترجمه

  • ترجمه قرآن کریم به زبان اردو
  • حقوق و اسلام
  • السفینه
  • تذکرۀ الخواص سبط بن جوزی
  • توضیح المسائل، تألیف آیۀ الله خمینی.
  • حکومت اسلامی، دروس امام خمینی
  • سعادت الابدیۀ، شیخ عباس قمی.
  • معدن الجواهر، ترجمه کتاب عربی از علامه شیخ محمد علی کراجکی
  • رسالۀ المواعظ، تألیف شیخ عباس قمی.
  • الارشاد شیخ مفید.
  • ارشاد القلوب، علامه شیخ محمد علی دیلمی
  • عقائد، تألیف شیخ رضا مظفر.
  • احسن المقال، ترجمه منتهی الامال محدث قمی.
  • شیعه دوازه امامی و اهل بیت (ع) تألیف شیخ محمد جواد.[۹]

تحقیقات

سید صفدر حسین نجفی علاوه بر ترجمه، آثاری تحقیقاتی و پژوهشی هم دارد که در ذیل برخی از آنها را بیان می کنیم: عرفان المجالس، قسمت اول و دوم کتاب روضه خوانی است. دین حق از دیدگاه عقل مبادی حکومت اسلامی چهل حدیث اسلامی جمهوریه ایران پر اعتراضات حدود و تعزیرات فرقۀ یزیدی مناسک حج کتاب زیارات جهاد اکبر، مجموعه سخنرانیها که وی برای علما در نجف اشرف ایراد کرد. انتخاب تاریخ طبری علاوه بر این، در حدود 24 رساله کوچک دارد که به چاپ هم رسیده است و مقالات زیادی هم در مجله ها و روزنامه ها نیز انتشار یافته است.همچنین رساله ای دربارۀ شرح حال مالک اشتر، صحابۀ جانباز حضرت امیر المؤمنین (ع)نیز تحریر کرده است. ایشان بعد از مولانا سید محمد جعفر (متوفی 1980م) سؤالات مردم در ماهنامه پیام عمل جواب می دهد. او صرف نظر از مناظر و تظاهر و شعار، به طور جدی به اصلاح امور ملت می پردازد و بنا به تشویق و کوشش وایشان، بنیان چند مدرسه و مسجد نهاده شده است.[۱۰] .نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، ۱۳۷۰ش، ص۱۳۸-۱۳۹.

پانویس

  1. «سید صفدر حسین، نجفی»https://web.archive.org، پایگاه ترجمان وحی.
  2. نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، ۱۳۷۰ش، ص۱۳۷.
  3. نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، ۱۳۷۰ش، ص۱۳۷.
  4. نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، ۱۳۷۰ش، ص۱۳۷.
  5. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی، 1400ش، ص126.
  6. نقوي، تذکره علمای امامیه ،ص136-139.
  7. سید حسن رضا نقوی، محسن ملت سید صفدر حسین نجفی اور مدارس کا قیام:http://www.jafariapress.com
  8. سید حسن رضا نقوی، محسن ملت سید صفدر حسین نجفی اور مدارس کا قیام،jafariapress.com
  9. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی، 1400ش، ص125-126.
  10. سعیدی، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی، 1400ش، ص125-126.


منابع

  • سید حسن رضا نقوی، مقاله، محسن ملت سید صفدر حسین نجفی اور مدارس کا قیام، پایگاه جعفریه پریس، تاریخ درج، ۳ دسمبر، ۲۰۲۰م، تاریخ اخذ: ۲۳ آوریل ۲۰۲۱م.
  • سید صفدر حسین، نجفی»https://web.archive.org، پایگاه ترجمان وحی.
  • سعیدی شگری، تحلیل و نقد جریان اصلاح طلبان مذهبی شیعی در پاکستان، رساله دکتری، جامعه المصطفی العالمیه، قم، 1400ش.
  • نقوی، سید حسین نقوی، تذکره علمای امامیه پاکستان، مشهد، بنیاد پژوهشهای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۳۷۰ش.
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************
آپریشن طوفان الاقصیٰ
نام جریانآپریشن طوفان الاقصیٰ
جمیت طرفداراسرائیل کی حارحیت کا جواب
رهبران
اهدافاسرائیلی جارحیت کے خلاف

آپریشن طوفان الاقصیٰ 7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔ جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس آپریشن کو کامیاب آپریشن قرار دیا۔ اسی طرح حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی نے اس کے آپریشن کے بعد مسلمانان پر اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔ آپریشن طوفان الاقصیٰ7 اکتوبر 2023 کو، حماس کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے کا آغاز کیا، غزہ-اسرائیل رکاوٹ کو توڑتے ہوئے اور غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے ذریعے قریبی اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے اسے آپریشن طوفان الاقصیٰ کا نام دیا۔ 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کی حدود میں یہ پہلا براہ راست تنازع ہے۔ جنگ کا آغاز صبح سویرے اسرائیل کے خلاف راکٹوں اور گاڑیوں کے ذریعے اسرائیلی سرزمین میں داخلے کے ساتھ کیا گیا تھا، جس میں ارد گرد کے اسرائیلی شہری علاقے اور اسرائیلی فوجی اڈوں پر کئی حملے کیے گئے تھے۔ بعض مبصرین نے ان واقعات کو تیسری فلسطینی انتفاضہ کا آغاز قرار دیا ہے۔ 1973ء کی جنگ یوم کپور کے بعد پہلی بار اسرائیل نے باضابطہ طور پر جنگ کا اعلان کیا۔ اسرائیل نے اپنے جوابی عمل کو آپریشن آہنی تلوار کا نام دیا ہے ۔ فلسطینیوں کا حملہ، غزہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بڑی خرابی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ جنگ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مہینوں کی جھڑپوں کے بعد شروع ہوئی ہے ، جن میں جنین اور مسجد اقصی بھی شامل ہے، جس میں تقریباً 250 فلسطینی اور 32 اسرائیلی مارے گئے؛حماس نے ان واقعات کو حملے کا جواز بنایا ہے۔ محمد ضیف، حماس کی عسکری شاخ، عزالدین القسام بریگیڈز کے کماندار، نے فلسطینیوں اور عرب اسرائیلیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "قابضین کو نکال باہر کریں اور گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دیں "۔ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مغربی کنارے میں ایک ہنگامی اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے محمود عباس نے جنگ کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی قبضے کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل میں یش عتید کے يائير لپید نے فلسطینی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد کی حکومت کے قیام کی وکالت کی ہے۔ غزہ کی پٹی سے کم از کم 3,000 راکٹ فائر کیے گئے۔ جب حماس کے مجاہد سرحدی رکاوٹوں کو توڑ کر اسرائیل میں داخل ہوئے، جس سے کم از کم 700 اسرائیلی ہلاک ہوئے.

اور اسرائیل کی حکومت کو ہنگامی حالت کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حملوں کے آغاز کے بعد ایک قومی خطاب میں کہا کہ اسرائیل ’جنگ میں ہے‘۔اسرائیل میں داخل ہونے والے فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب کیبوتس کے ساتھ ساتھ سدیروت شہر کو بھی اپنی عملداری میں کرلیا۔ اسرائیل نے سٹریٹجک عمارتوں اور گھروں پر بمباری کرکے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کی۔ غزہ میں حماس کی زیر قیادت فلسطینی وزارت صحت نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے کم از کم 400 فلسطینیوں کو دوبدو لڑائی اور فضائی حملوں میں شہید کیا ہے، جن میں عام شہری، 78 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں۔ فلسطینی اور اسرائیلی میڈیا دونوں ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو، جن میں بچے بھی شامل ہیں، فلسطینی مجاہدین نے جنگی قیدی بنا لیا ہے؛ ان میں سے کئی یرغمالیوں کو مبینہ طور پر غزہ کی پٹی لے جایا گیا ہے۔ حماس کے حملے کے آغاز کے بعد ایک ہسپتال اور ایمبولینس سمیت شہری اہداف پر اسرائیلی بمباری ہوئی جس میں تقریباً 200 افراد مارے گئے۔

رد عمل

پاکستان

پاکستان میں فلسطینی مزاحمت کے حامیوں کی جانب سے آپریشن "الاقصی طوفان" کی حمایت۔ آج پاکستانی نیوز نیٹ ورکس نے "الاقصیٰ طوفان" نامی آپریشن کے آغاز کے بعد مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال بتانے کے لیے اپنے روزمرہ کے پروگراموں کے دوران خصوصی رپورٹنگ کی۔ پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے بھی غاصب صیہونی دشمن کے خلاف فلسطینی مزاحمت کے حامیوں کی جانب سے آپریشن "الاقصی طوفان" کی بھرپور حمایت کی۔ پاکستانی جی ٹی وی نیٹ ورک نے اپنی بریکنگ نیوز میں اعلان کیا کہ صہیونی ’’اقصیٰ طوفان‘‘ آپریشن سے حیران ہیں۔

جماعت اسلامی پاکستان

جماعت اسلامی کے نمائندے سینیٹر مشتاق احمد خان نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کی کامیابی پر فلسطینی عوام اور جنگجوؤں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں نے اپنی آزادی اور استقلال کے لیے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے کہا کی کہ فتح یقینی طور پر بہادر فلسطینی عوام کی ہے جبکہ شکست اور ذلت غاصب صیہونی افواج کا ابدی مقدر ہے۔

وحدت المسلمین

پارٹی کے سربراہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ "الاقصی طوفان" آپریشن فلسطین کے بہادر جوانوں کی ایمانی طاقت کے مقابلے میں کرپٹ اور ناجائز غاصب صیہونی حکومت کی ذلت اور بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ناصر عباس جعفری کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام ہمیشہ اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہیں اور آج کے آپریشن کی کامیابی کے لیے خدا سے دعاگو ہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی پر رہائش پذیر فلسطینیوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کو نہتے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی غاصب حکومت کی جارحیت کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔

فلسطین سپورٹ فاؤنڈیشن

پاکستان میں فلسطین سپورٹ فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل اور اراکین نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی مزاحمت کاروں کی کارروائیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ اس فاؤنڈیشن کے سیکرٹری جنرل صابر ابو مریم نے کہا کہ اسلامی ممالک کی حکومتوں اور فوجوں کو فلسطینی جنگجوؤں کی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ آج کی کارروائی مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی صیہونی بے حرمتی کا جواب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن سے صیہونیوں کی تباہی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور غاصب صہیونیوں کے خلاف مزاحمت اسرائیل کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے منصوبے کے خلاف انکار ہے۔[۱]

ہندوستان

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ: حماس کا اقدام اسرائیلی مظالم کا فطری رد عمل۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس وقت حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ جاری ہے، وہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے اوریہ واضح طور پر اسرائیل کی بدعہدی اوراس کی طرف سے ہونے والی زیادتی اور مسجد اقصی کی بے حرمتی کا فطری رد عمل ہے، اس رد عمل کو دہشت گردی ظالموں کو طاقت

فلسطینی حملہ

راکٹ بیراج

اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے سمر ٹائم (UTC+3) کے لگ بھگ 06:30 بجے، حماس نے "آپریشن طوفان الاقصیٰ" کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی سے اسرائیل میں 20 منٹ کے اندر اندر 5000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے ہیں۔ اسرائیلی ذرائع نے بتایا ہے کہ غزہ سے کم از کم 3000 پروجیکٹائل داغے گئے ہیں۔ راکٹ حملوں میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ دھماکوں کی اطلاع غزہ کے آس پاس کے علاقوں اور سہل شارون کے شہروں بشمول غدیرا، ہرتزیلیا، تل ابیب اور عسقلان میں موصول ہوئی تھی۔ بئر سبع، یروشلم، رحوووت، ریشون لصیون اور پاماچیم ایئربیس میں بھی فضائی حملے کے سائرن بجائے گئے۔ حماس نے جنگ کی کال جاری کی، جس میں اعلیٰ فوجی کماندار محمد ضیف نے "ہر جگہ مسلمانوں کو اسرائیل میں حملہ کرنے کی اپیل کی"۔ فلسطینی مجاہدین نے غزہ کی پٹی کے قریب اسرائیلی کشتیوں پر بھی فائرنگ کی، جب کہ غزہ کی سرحدی باڑ کے مشرقی حصے میں فلسطینیوں اور آئی ڈی ایف کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ شام کو حماس نے اسرائیل کی طرف تقریباً 150 راکٹوں کا ایک اور بیراج داغ دیا، جس میں یفنہ، جفعاتایم، بت یام، بیت دگان، تل ابیب اور رشون لیزیون میں دھماکوں کی اطلاع ہے۔ اس کے بعد 8 اکتوبر کی صبح ایک اور راکٹ بیراج ہوا، جس میں ایک راکٹ عسقلان کے برزیلائی میڈیکل سینٹر پر گرا۔ حماس نے سدیروت پر 100 راکٹ بھی فائر کیے ہیں۔ 9 اکتوبر کو حماس نے تل ابیب اور یروشلم کی سمت میں ایک اور بیراج فائر کیا، ایک راکٹ بین گوریون ہوائی اڈے کے ٹرمینل کے قریب گرا۔[۲]

اسرائیل میں فلسطینی حملہ

تقریباً 1,000 فلسطینی مجاہدین نے ٹرکوں، پک اپ، موٹر سائیکلوں، بلڈوزروں، اسپیڈ بوٹس اور پیرا گلائیڈر کے ذریعے غزہ سے اسرائیل میں دراندازی کی۔ تصاویر اور ویڈیوز میں سیاہ رنگت والے پک اپ ٹرکوں میں ملبوس بھاری مسلح اور نقاب پوش مجاہدین کو دکھایا گیا ہے جنہوں نے سدیروت میں فائرنگ کرتے ہوئے کئی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ دیگر ویڈیوز میں اسرائیلیوں کو قیدی بناتے اور جلتے ہوئے اسرائیلی ٹینک، کے ساتھ ساتھ مجاہدین کو اسرائیلی فوجی گاڑیوں میں سوار دکھایا گیا ہے۔ اس صبح، ریئم کے قریب ایک آؤٹ ڈور میوزک فیسٹیول میں ایک قتل عام ہوا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے، بہت سے لوگ ابھی تک لاپتہ اور روپوش ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار عسکریت پسند فرار ہونے والے شرکاء پر فائرنگ کر رہے تھے، جو پہلے ہی راکٹ فائر کی وجہ سے منتشر ہو رہے تھے جس سے کچھ شرکاء زخمی ہو گئے تھے۔ کچھ کو یرغمال بھی بنا لیا گیا۔ حملہ آور افواج کو نیر اوز، بیری اور نیتیو ہاسارا میں،نیز غزہ کی پٹی کے ارد گرد کبوتزم میں، بھی دیکھا گیا، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر یرغمال بنائے اور گھروں کو آگ لگا دی،۔ نتيف عشرہ حملے میں 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ افکیم میں بھی یرغمال بنائے جانے کی اطلاع ملی، جبکہ سدیروت میں گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ حماس نے کہا کہ اس نے اسرائیل کو اپنے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے مجبور کرنے کے لیے قیدیوں کا سہارا لیا اور دعویٰ کیا کہ اس نے تمام فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے کافی تعداد میں اسرائیلی قیدی بنائے ہیں۔

طوفان الاقصی کے بارے میں آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا موقف

طوفان الاقصی ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو تباہ کردیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ نے منگل کو تہران کی امام علی کیڈٹ یونیورسٹی کی سالانہ تقریب سے خطا ب میں استقامتی فلسطینی محاذ کے آپریشن طوفان الاقصی کی قدردانی کی ۔[۳] آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ سات اکتوبر کو غاصب صیہونی حکومت کو فوجی اور اینٹیلیجنس دونوں لحاظ سے ایسی شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ جس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔آپ نے فرمایا کہ صیہونی حکومت کی شکست کی بات سب کرتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ شکست ناقابل تلافی ہے۔[۴]

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں کہتا ہوں کہ یہ ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی بنیادوں کو تباہ کردیا اور ان بنیادوں کی تعمیر آسانی سے ممکن نہیں ہے۔[۵]

آپ نے فرمایا کہ میں فلسطینی نوجوانوں اوراس آپریشن کی منصوبہ بندی کرنے والے ذہین اور مدبر جوانوں کی پیشانی اور بازوؤں کو بوسہ دیتا ہوں اور جو یہ کہتے ہیں کہ یہ رزمیہ کارنامہ فلسطینیوں کا کام نہیں ہے، وہ اپنے اندازوں میں غلطی کررہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ مصیبت اپنے اوپر صیہونی خود اپنی کارکردگی سے لائے ہیں ۔ جب ظلم و جرائم حد سے گزرجائے، جب درندہ خوئی آخری حد کو پہنچ جائے تو طوفان کا منتظر رہنا چاہئے ۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ فلسطینیوں کا دلیرانہ اور فداکارانہ اقدام غصب دشمن کے ان جرائم کا جواب ہے جس کا ارتکاب اس نے برسوں کیا ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران ان میں شدت آگئی تھی ۔ اس کی ذمہ دار موجودہ صیہونی حکومت بھی ہے اور ماضی کی حکومتیں بھی ہیں۔

آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ خبیث اور ظالم دشمن اب طمانچہ کھانے کے بعد خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ دوسرے بھی اس کی مدد کررہے ہیں ، یہ مظلوم نمائی حقیقت کے برعکس اور جھوٹ ہے۔ اور یہ کوشش اس لئے کی جارہی ہے کہ فلسطینی مجاہدین غزہ کے محاصرے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور صیہونیوں کے فوجی اور غیر فوجی مراکز تک پہنچ گئے ۔

آپ نے سوالیہ انداز میں فرمایا کہ " وہ مظلوم ہے؟ یہ حکومت غاصب ہے ، مظلوم نہیں ظالم ہے ، جارح ہے، جاہل ہے ، ہرزہ سرائی کرتی ہے، مظلوم نہیں ظالم ہے اور کوئی بھی اس شیطان صفت دیو کو مظلوم بنا کے نہیں پیش کرسکتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ مظالم اورجرائم ، بہادر فلسطینی جوانوں اور فداکار فلسطینیوں کے عزم و ارادے کو محکم تر کریں گے ۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دن چلا گیا جب وہ آتے تھے تاکہ ظالم کے ساتھ نشست وبرخاست کرکے، بات کرکے، فلسطین میں اپنے لئے کوئی جگہ بنالیں ۔ وہ دور اب نہیں رہا۔ آج فلسطینی بیدار ہیں ، فلسطینی نوجوان بیدار ہیں اور فلسطینی منصوبہ ساز پوری مہارت کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہیں ۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دشمن کا یہ اندازہ اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ وہ خود کو مظلوم ظاہر کرکے اپنے مجرمانہ حملوں کا سلسلہ جاری رکھ سکیں گے۔[۶]

حضرت آیت اللہ سید علی سیستانی کا اسرائیل کے خلاف کا فتوی

آیت اللہ سیستانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم دنیا آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن کوئی انکو روکنے والا نہیں ہے۔[۷]

فلسطین کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے آیت اللہ سیستانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے جرائم دنیا آنکھوں کے سامنے ہورہے ہیں لیکن کوئی انکو روکنے والا نہیں ہے ۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا کو اس گھناؤنے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، ورنہ جارحین کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی۔

آیت اللہ سیستانی نے تاکید کی کہ فلسطینیوں کو جائز حقوق دینا اور قبضے کا خاتمہ ہی خطے میں سلامتی کے حصول کا واحد راستہ ہے۔[۸]

طوفان الاقصیٰ آپریشن کی اہم خصوصیات

الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ سات اکتوبر 2023ء کو تحریک استقاومت و مزاحمت نے صیہونی حکومت کے خلاف طوفان الاقصیٰ نامی تاریخی آپریشن انجام دیا، جس نے اس حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس آپریشن میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف نہ صرف زبردست راکٹ بلکہ حیران کن زمینی حملہ بھی کیا۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف جو بہت کم بیان دیتے ہیں، انہوں نے اس حملے کا نام "الاقصیٰ طوفان" رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر بنیاد پرست یہودیوں کے مسلسل حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔ قسام بٹالین کے کمانڈر محمد الضیف کے بقول یہ حملہ مسجد اقصیٰ کے اسلامی تشخص کے دفاع میں کیا گیا۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران صیہونیوں نے مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کی عید "سوکوت" کے نام پر کئی بار حملہ کیا، اس موقع پر فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جس میں متعدد فلسطینی شہری زخمی ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ حملہ مسجد الاقصیٰ پر حملے کے حوالے سے فلسطینیوں کا فیصلہ کن ردعمل ہے۔

پہلی خصوصیت

الاقصیٰ طوفان آپریشن کی سب سے اہم خصوصیت صیہونی حکومت کی حیرانی و بے خبری ہے۔ یہ حملے ایسے وقت کیے گئے ہیں، جب فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل پر حملہ کرنے کا کوئی اشارہ نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قدس پر قابض حکومت کو اس حملے سے شدید ضربیں پہنچیں۔ بلاشبہ صیہونی حکومت کی 75 سالہ تاریخ میں یہ سب سے بھاری فوجی شکست تھی۔ مرنے والوں کی صحیح تعداد کے بارے میں کوئی صحیح اعداد و شمار نہیں ہیں، لیکن صرف ایک دن میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے، جبکہ فلسطینی ذرائع اور حتیٰ کہ بعض اسرائیلی ذرائع نے مرنے والوں کی تعداد 100 سے زائد بتائی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔

دوسری خصوصیت

اس حملے کی سب سے اہم بات اسرائیلی انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، کیونکہ فلسطینیوں نے آسمان اور سرنگ دونوں کا استعمال کرتے ہوئے ہوا اور زمین دونوں سے حملہ کیا اور بہت سے قیدی نیز مال غنیمت بھی حاصل کیا۔ مرکاوا ٹینک اور آہنی گنبد جسے صہیونی اپنے لئے بہت اہم سمجھتے تھے، عملی طور پر ناکارہ ثابت ہوئے۔ فلسطینی راکٹ آہنی گنبد کو عبور کرتے ہوئے اہم اہداف کو تباہ کرتے رہے۔ تاہم، جو چیز اس حملے اور اسرائیل کی انٹیلی جنس کی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے، وہ راکٹ حملے نہیں بلکہ غزہ کی پٹی کے ارد گرد اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں حماس کے مجاہدین کا ایک قابل ذکر تعداد میں داخل ہونا اور بعض اڈوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیکر درجنوں فوجیوں کو گرفتار کرنا ہے۔ مجاہدین نے کچھ بکتر بند گاڑیوں اور فوجی سازوسامان پر قبضہ کرکے انہیں غزہ واپس لے گئے اور غزہ کی سڑکوں پر ان کی نمائش بھی کی۔

تیسری خصوصیت

الاقصیٰ آپریشن کی ایک اور اہم خصوصیت اس حملے کے لیے تحریک حماس کی بہترین منصوبہ بندی تھی۔ وقت کے لحاظ سے یہ حملہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل تھا، کیونکہ اس وقت صیہونی حکومت داخلی انتشار کے عروج پر ہے۔ چونکہ یہ حملہ زمین اور آسمان دونوں سے کیا گیا تھا اور حماس کی افواج نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو پکڑ لیا، جس کے مستقبل میں دورس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اگر تل ابیب انہیں رہا کرانا چاہے گا تو اسے ان کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہوگا۔ یہ حملہ یوم الکپور یا اکتوبر 1973ء کی جنگ کی سالگرہ کے موقع پر کیا گیا تھا، جو اسرائیل کے خلاف عربوں کی نسبتاً فتح کا دن تھا۔

چوتھی خصوصیت

مزید یہ کہ الاقصیٰ آپریشن اس وقت انجام پایا، جب اسرائیلی اور سعودی حکام تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدے کے قریب آنے کی بات کر رہے تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ الاقصیٰ آپریشن سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے میں خلل ڈالے گا یا نہیں، اس آپریشن نے ثابت کیا کہ فلسطینی نہ صرف نارمالائزیشن سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ اس سے ان کی ڈیٹرنس پاور زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ نارمالائزیشن سے اسرائیل کی سلامتی کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے۔[۹]

حوالہ جات

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

محمد طاہر القادری 19 فروری، 1951 کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی رہنما ہیں، جو 1980ءسے قرآن و سنت کے افکار کے ذریعے فروغ علم و شعور، اصلاح احوال امت اور ترویج و اقامت دین کے لیے مصروف عمل ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تحریک کے قیام کا مقصد ان الفاظ مین بیان کیا: "تحریک منہاج القرآن کے بپا کیے جانے کا مقصد اولیں غلبہ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کے احیاء و اتحاد کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی جمہوری اور پرامن مصطفوی انقلاب کی ایک ایسی عالمگیر جدوجہد ہے جو ہر سطح پر باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کے اثر و نفوذ کا خاتمہ کر دے۔ آپ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، عوامی تعلیمی منصوبہ اور منہاج یونیورسٹی کے بانی ہیں اور پاکستان عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کے بھی بانی چیئرمین ہیں۔

خاندانی پس منظر

محمد طاهر القادری.jpg طاہرالقادری جھنگ کے ایک معروف عالم دین ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بیٹے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد سیال خاندان سے تھے، جو تحصیل و ضلع جھنگ کے چنیوٹ روڈ پر واقع گاؤں کھیوا کے نواب تھے۔ ان میں سے دو بھائیوں نے اپنی جائداد تیسرے بھائی کے سپرد کر کے خود درویشی اختیار کی، نواب جمعہ خان ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف اور نواب احمد یار خان (جو ڈاکٹر طاہرالقادری کے اجداد میں سے تھے) جھنگ صدر جا آباد ہوئے۔ ڈاکٹر فریدالدین 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لیے دنیابھر کا سفر کیا۔ انہوں نے لکھنؤ (بھارت) سے طب یونانی میں تخصص کیا اور انہیں 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے گولڈمیڈل دیا گیا۔ انہوں نے لکھنؤ، حیدرآباد، دہلی، دمشق، بغداد اور مدینہ منورہ سے اکتساب علم کیا۔ وہ دہلی اور حیدرآباد میں حکیم نابینا انصاری کے ساتھ بھی شریک رہے۔ وہ نقیب الاشراف سید ابراہیم سیف الدین الگیلانی کے مرید تھے، جو بغداد سے بمبئی میں آن بسے تھے۔ انہیں علامہ محمد اقبال کے ساتھ گہرا شغف تھا اور وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے۔ وہ سعودی عرب کے عبدالعزیز ابن سعود کے طبی مشیر بھی رہے۔ ان سے مروی ہے کہ وہ 1948ء میں سعودی عرب گئے تو بیت اللہ کے پہلو میں آخر شب اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ انہیں ایسا بیٹا عطا فرما جو اسلام کی خدمت کرے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خواب میں طاہر کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ ڈاکٹر فریدالدین نے 2 نومبر 1974ء کو جھنگ میں 56 سال کی عمر میں انتقال کیا۔

اساتذہ

آپ کے اساتذہ میں عرب و عجم کی معروف شخصیات شامل ہیں، جن میں الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنی، محدّث الحرم الامام علوی بن عباس المالکی المکی، الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی، محدثِ اعظم علامہ سردار احمد قادری، علامہ سید ابو البرکات احمد محدث الوری، علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہی، علامہ عبد الرشید الرضوی اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔

آپ کو امام یوسف بن اسماعیل النبہانی رحمۃ اللہ علیہ سے الشیخ حسین بن احمد عسیران اللبنانی کے صرف ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ اِسی طرح آپ کو حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی سے ان کے خلیفہ الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنی کے ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ امام الہند حضرت الشاہ احمد رضا خان کے ساتھ صرف ایک واسطہ سے تین الگ طُرق کے ذریعے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے بے شمار شیوخِ حرمین، بغداد، شام، لبنان، طرابلس، مغرب، شنقیط (موریطانیہ)، یمن (حضر موت) اور پاک و ہند سے اِجازات حاصل کی ہیں۔ اِس طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذاتِ گرامی میں دنیا بھر کے شہرہ آفاق مراکزِ علمی کے لامحدود فیوضات ہیں۔[۱۰]

سوانح عمری

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اوائل عمر ہی سے انقلابی رجحانات کے حامل تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ انکا یہ ہونہار بیٹا نہ صرف روایتی مذہبی علوم میں ماہر ہو بلکہ جدید علوم و فنون میں بھی طاق ہو۔ لہذا انہوں نے بیٹے طاہر کے لیے بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ یہ معمول از اول تا آخر جاری رہا۔ طاہرالقادری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے حالات پر شدید دکھی رہتے تھے۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی ان کو ہردم پریشان کیے رکھتی تھی۔ اسی اثنا میں اکتوبر 1971ء میں انہیں عظیم مفکر ڈاکٹر ب رہان احمد فارقی کی صحبت ملی، جس نے ان کی فکر کو پروان چڑھانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔

1971ء سے 1973ء کے زمانے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے انقلابی افکار کا تاریخی مطالعہ کیا۔ مسلم مفکرین میں امام غزالی، شاہ ولی اللہ دہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، مولانا عبید اللہ سندھی وغیرہم اور غیر مسلم مفکرین میں کارل مارکس، فریڈرک اینجلس، لینن، سٹالن اور ماؤزے تنگ وغیرہم شامل ہیں۔ اس مطالعے سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انقلابی فکر کے حوالے سے کامیابی کا جو دوٹوک یقین غیر مسلم مفکرین کے ہاں نظر آتا ہے، وہ اکثر مسلم مفکرین کے ہاں مفقود ہے۔ اس پر انہوں نے انقلابی زاویہ نگاہ سے قرآن و حدیث کا ازسرنو گہرا مطالعہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انقلاب کی کامیابی کی حتمی اور دوٹوک ضمانت مہیا کردی، جس سے انقلاب پر انکا ایقان پختہ تر ہو گیا۔

چنانچہ انہوں نے ایک بار قرآن کریم کو تھام کر اور دوسری بار اپنے شیخ طریقت سید طاہر علاؤ الدین القادری البغدادی کے دست اقدس پر باضابطہ بیعتِ انقلاب کرکے، اپنے رب اور آقائے کریم سے اپنی زندگی کو عظیم عالمی انقلاب کے لیے وقف کردینے کا پختہ عہد کر لیا۔ یہ بیعتِ انقلاب مورخہ 26 جولائی 1972ء بمطابق 14 جمادی الثانی 1392ھ ساڑھے بارہ بجے بعد دوپہر بمقام دربارِ غوثیہ شارع الگیلانی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ ان کے شیخِ طریقت نے انقلاب سے متعلق تفصیلی ہدایات دیں اور ان کے لیے عزم واستقلال، جرآت و ہمت اور کامیابی و کامرانی کی دعا فرمائی۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی جدوجہد کا آغاز 1976ء میں جھنگ کی سطح پر نوجوانوں کی تنظیم محاذ حریت قائم کرکے کیا، جسے بعد ازاں 1980ء میں لاہور سے تحریک منہاج القرآن کے نئے نام کے ساتھ بدل دیا گیا۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب نے نصنیف و تالیف اور دروس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے ذریعے ان کے افکار پورے ملک اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے ممالک میں بھی عام ہوتے گئے۔ اسی دوران میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامک لاءپر لیکچر دیتے رہے۔ پھر وہ فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کے ارکان بنے۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ میں جیورسٹ کنسلٹنٹ مقرر ہوئے۔ جب ان کی شاندار صلاحیتوں کی وجہ سے ان کی شہرت مزید بڑھی تو ٹی وی پر ان کے پروگرام فہم القرآن نے بھی ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا۔

ان کے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ ان کی اس ترقی کا سارا کریڈٹ نواز شریف کی اتفاق مسجد میں ان کے خطیب مقرر ہونے کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ جب انکا پروگرام فہم القرآن ٹی وی پر شروع ہوا تو اس وقت نواز شریف ابھی وزیر اعلیٰ بھی نہیں بنے تھے۔ اور ادارہ منہاج القرآن بھی اتفاق مسجد سے تعلق قائم ہونے سے بہت پہلے قائم ہوچکا تھا۔

انتظامی کیریئر

  • لیکچرار اسلامک سٹڈیز، گورنمنٹ کالج عیسی خیل، میانوالی
  • ایڈووکیٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ، جھنگ
  • رکن سنڈیکٹ، پنجاب یونیورسٹی
  • مشیر فقہ وفاقی شرعی عدالت، پاکستان
  • مشیر سپریم کورٹ آف پاکستان
  • ماہر قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی
  • لیکچرار اسلامک لا، پنجاب یونیورسٹی لا کالج، لاہور
  • وزٹنگ پروفیسر و سربراہ شعبہ اسلامی قانون (برائے ایل ایل ایم کلاسز)، پنجاب یونیورسٹی لا کالج، لاہور
  • تا حال - پرو چانسلر / چیئرمین بورڈ آف گورنرز، منہاج یونیورسٹی، لاہور

تعلیمی خدمات

  • 1195میں آپ نے عوامی تعلیمی منصوبہ کا آغاز کیا، جسے غیر سرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت پاکستان کے طول و عرض میں 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں۔
  • لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کر دی گئی، جسے 2009ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے کیٹگری X سے W میں ترقی دی گئی۔

سیاسی خدمات

  • مؤرخہ 25 مئی 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی، جس کا بنیادی ایجنڈا پاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی، خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ملکی سیاست سے کرپشن اور دولت کے اثرات کا خاتمہ تھا۔
  • 1990 میں پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
  • 1991 میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔
  • 1989ء تا 1993ء انہوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی، سیاسی اور معاشی صورت حال پر حکومت وقت کو تجاویز ارسال کیں۔
  • 1992 میں آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلاسود بینکاری نظام پیش کیا، جسے صنعتی و بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔
  • 1998میں وہ سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔
  • 2003محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔
  • 2003میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا استعفی تھا۔
  • 2006میں جب ڈنمارک سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توہین آمیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینر بھی تھا[13] جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوں کے دستخط ثبت تھے۔
  • توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے آپ نے امریکا، برطانیہ، ڈنمارک، ناروے اور دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو ’’دنیا کو تہذیبی تصادم سے بچایا جائے‘‘[15] کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔
  • 2009میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تباہی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے غزہ کانفرنس کا انعقاد ہوا، بعد ازاں متاثرین غزہ کے لیے امداد سامان روانہ کیا گیا۔

دینی خدمات

  • آپ کے زیراہتمام لاہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے، جسے حرمین شریفین کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے۔
  • آپ کے قائم کردہ گوشہ درود میں لوگ سارا سال دن رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ روئے زمین پر یہ ایسی واحد جگہ ہے جسے تاریخ میں پہلی بار ڈاکٹر طاہرالقادری نے قائم کیا۔
  • آپ کی قائم کردہ تحریک منہاج القرآن کی دنیابھر میں شاخیں ہیں، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

علمی و ادبی خدمات

  • طاہرالقادری ہزا رہا دینی موضوعات پر اردو، انگریزی اور عربی میں خطابات کر چکے ہیں۔
  • بہت سے اسلامی موضوعات پر ان کی اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں سیکڑوں کتب شائع ہو چکی ہیں۔
  • عرفان القرآن کے نام سے آپ نے قرآن مجید کا سلیس اردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ترجمہ ہو کر تفسیری شان کا حامل ہے اور عام قاری کو تفاسیر سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
  • تفسیر منہاج القرآن کے نام سے آپ قرآن مجید کی تفسیر پر کام کر رہے ہیں، سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی تفسیر طبع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہے۔
  • المنہاج السوی من الحدیث النبوی المنہاج السوی کے نام سے ان کا حدیث مبارکہ کا ایک ذخیرہ طبع ہو چکا ہے، جس میں ریاض الصالحین اور المشکوٰۃ المصابیح کی طرز پر منتخب موضوعات پر احادیث مع تخریج پیش کی گئی ہیں۔[26]
  • سیرت الرسول کے نام سے آپ کی تصنیف اردو زبان میں سیرت نبوی کی سب سے ضخیم کتاب ہے، جو 12 جلدوں پر مبنی ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی اور ان کی سیرت سے آج کے دور میں رہنمائی کے پہلوؤں پر کام کیا گیا ہے۔
  • میلاد النبی کے نام سے آپ نے میلاد منانے کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضخیم کتاب تصنیف کی، جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میلاد کی حیثیت اور سلف صالحین کا میلاد منانے کا طریقہ باتحقیق پیش کیا گیا ہے۔
  • اسلام اور جدید سائنس نامی تصنیف میں آپ نے ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، جس کے مطالعہ سے اسلامی تعلیمات کی سائنسی افادیت و ناگزیریت واضح ہوتی ہے۔
  • اسلام کے اقتصادی نظام کو آج کے دور میں قابل عمل ثابت کرنے کے لیے آپ نے اقتصادیات اسلام کے نام سے ایک ضخیم تصنیف بھی تحریر کی۔
  • حقوق انسانی نامی تصنیف میں اقلیتوں، خواتین، بچوں اور عمررسیدہ اور معذور افراد کے حقوق سمیت بنیادی انسانی حقوق کو اسلام کی عطا ثابت کیا۔
  • عالمی سیاسی صورت حال میں عالم اسلام کو درپیش خطرات کے حوالے سے آپ کی تصنیف نیو ورلڈ آرڈر اور عالم اسلام خاص اہمیت کی حامل ہے۔
  • امام مہدی کے حوالے سے افراط و تفریط پر مبنی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے القول المعتبر فی الامام المنتظر آپ کی اہم تصنیف ہے۔
  • اسلامی فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کے علم حدیث میں مقام و مرتبہ کے حوالے سے امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث نامی ضخیم کتاب تمام اعتراضات اور غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہے۔

تصانیف

  • کشف الغطا عن معرفۃ الاقسام للمصطفیٰ.
  • شانِ مصطفی میں قرآنی قَسمیں.
  • زیارت روضہ رسول کی فضیلت.
  • الفوز الجلی فی التوسل بالنبی.
  • بشریٰ للمومنین فی شفاعۃ سید المرسلین.
  • فضیلت زیارت قبور
  • صحیح بخاری و صحیح مسلم میں مذکور سیدنا علی المرتضیٰ، سیدہ کائنات اور حسنین کریمین علیہم السلام کے فضائل و مناقب۔
  • سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ذکر جمیل۔
  • محبت حسنین کریمین علیھما السلام۔
  • صحابہ کرام و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے فضائل و مناقب۔
  • اہلِ بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل و مناقب۔
  • سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب۔
  • باب مدینۂ علم علیہ السلام۔
  • سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ سے وہی نسبت ہے جو ہارون علیہ السلام کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔
  • فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہے (اِس حدیث مبارک کے 63 طُرُق کا بیان)۔
  • فاطمہ میری جان کا حصہ ہے (اِس حدیث مبارک کے طُرُق اور روایت کرنے والے محدثین کا بیان)۔
  • حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں (اِس حدیث مبارک کے 101 طُرُق کا بیان)۔
  • حسن اور حسین تمام جنتی جوانوں کے سردار ہیں (اِس حدیث مبارک کے 101 طُرُق کا بیان)۔
  • حدیث ولایت علی علیہ السلام کا تحقیقی جائزہ۔
  • اعلان غدیر۔
  • سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب۔
  • حسنین کریمین علیہما السلام کے فضائل و مناقب۔
  • ذکر شہادت امام حسین علیہ السلام (احادیثِ نبوی کی روشنی میں)۔
  • امام مہدی علیہ السلام۔.[۱۱]

نظریات

  • طاہرالقادری ایک سنی سکالر ہیں مگر وہ مسلک اہل سنت کو کسی شخصیت یا علاقے سے منسوب کرنے کو مذموم سمجھتے ہیں، اس لیے وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی عنوانات سے آزاد فقط اہل سنت مسلمان قرار دیتے ہیں۔
  • ان کے مطابق اہل سنت کوئی فرقہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریتی جماعت یعنی سواد اعظم کا نام ہے، جو سنت رسول اور طریق صحابہ کرام کی اتباع کرنے والی ہو، جبکہ فرقے وہ ہیں جو مختلف ادوار میں اس اکثریتی جماعت سے اختلاف کرکے الگ ہوتے گئے۔
  • ان کے مطابق اہل سنت کوئی فرقہ نہیں بلکہ مسلمانوں کی اکثریتی جماعت یعنی سواد اعظم کا نام ہے، جو سنت رسول اور طریق صحابہ کرام کی اتباع کرنے والی ہو، جبکہ فرقے وہ ہیں جو مختلف ادوار میں اس اکثریتی جماعت سے اختلاف کرکے الگ ہوتے گئے۔
  • ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے۔
  • ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بنا پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔
  • ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔ آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔
  • ان کے مطابق اسلام حقوق نسواں کا واحد علمبردار مذہب ہے، جو آزادی نسواں کے نام پر عورت کی تذلیل کرنے کی بجائے صحیح معنوں میں اسے مرد کے برابر معاشرتی حقوق دیتا ہے۔
  • ان کے مطابق اسلام کا اصول مشاورت اسلامی نظام حیات کی روح ہے۔ اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے فرد واحد کے فیصلوں کی بجائے تمام فیصلوں میں اجتماعی مشاورت ناگزیر ہے۔
  • ان کے مطابق انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے بین المذاہب رواداری نہایت ضروری ہے۔ انہوں نے خود عملی طور پر مسلم کرسچئن ڈائیلاگ فورم بنا رکھا ہے اور وہ عیسائیوں کے مسجدوں میں آ کر عبادت کرنے کو حدیث نبوی کی بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔
  • ان کے مطابق اسلامی نظام معیشت آج کے دور میں بھی قابل عمل ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے بلاسود بینکاری نظام بھی پیش کیا۔
  • ان کے مطابق اسلام کو آج کے دور میں قابل عمل دین ثابت کرنے کے لیے اسلام کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر اسلام کی تعبیر کی ضرورت ہے۔
  • ان کے مطابق سیاست اسلام کا حصہ ہے، جسے دین سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں کا عقیدہ چھیڑو مت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے۔
  • ان کے مطابق اسلامی تصوف کی روح نفس کی پاکیزگی سے عبارت ہے، جو شریعت کی پاسداری کے بغیر ناممکن ہے۔ اسی بنا پر وہ تصوف کو کاروبار بنانے والوں کو جاہل اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔
  • ان کے مطابق اسلام قیام امن کا سب سے بڑا داعی ہے اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کرنے والے گروہ مسلمان تو کجا انسان بھی کہلانے کے مستحق نہیں۔ آپ کے مطابق دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں۔آپ نے متعدد بار واضح طور پر اسامہ بن لادن کی کارروائیوں کی مذمت بھی کی۔[۱۲]
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

طارق جمیل

طارق جمیل (معروف بہ مولانا طارق جمیل) ایک پاکستانی مبلغ اور عالمِ دین ہیں۔ اُن کا تعلق خانیوال، صوبہ پنجاب کے شہر تلمبہ سے ہے جو میاں چنوں کے قریب واقع ہے۔ وہ تبلیغی جماعت کے رکن ہیں اور فیصل آباد، پاکستان میں ایک مدرسہ چلاتے ہیں۔ اُن کی تبلیغی کوششوں کے باعث بہت سے گلوکار، اداکار اور کھلاڑی دینِ اسلام کی طرف راغب ہوئے۔

ابتدائی حالات

طارق جمیل کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے اور ان کی پیدائش ضلع خانیوال کے مياں چنوں علاقے میں ہوئی۔ اُنھوں نے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد لاہور کی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کے لیے داخلہ لیا۔ دورانِ تعلیم وہ تبلیغی جماعت سے متعارف ہوئے اور پھر اُس سے متاثر ہوکر مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ عربیہ رائے ونڈ میں داخلہ لیا۔

تبلیغی جماعت

طارق جمیل اپنے اندازِ بیان کے باعث مشہور ہیں۔ انہوں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ 6 براعظموں کا سفر کیا ہے۔ اُن کے مقتدین کی جانب سے اُن کے بیانات انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹوں پر پیش کیے جاتے ہیں۔

اثر

لوگ بڑی تعداد میں اُن کی باتیں سنتے ہیں، ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر کئی معروف شخصیات دائرۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ وہ فرقہ واریت کے سخت مخالف ہیں۔ لوگوں میں اختلافات ہوتے ہیں اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کریں، اسلام ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا۔

اعزازات

2021 میں ، صدر پاکستان کی طرف سے انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازاگیا۔ یہ سالانہ قومی ادبی ایوارڈ ہے۔ اصل میں اس اعزاز کا اعلان حکومت نے 2020 میں کیا تھا۔ [۱۳]

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

ابو الاعلی مودودی سید ابو الاعلیٰ مودودی (1903ء – 1979ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحریکات کے ارتقا میں گہرا اثر ڈالا اور بیسویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔ مولانا مودودی وہ دوسرے شخص تھے جن کی غائبانہ نماز جنازہ کعبہ میں ادا کی گئی، پہلے نجاشی تھے۔ اسلام کی دنیا بھر میں موجودہ پزیرائی سید ابوالاعلیٰ مودودی اور شیخ حسن البناء (اخوان المسلمون کے بانی) کی فکر کا ہی نتیجہ ہے جنھوں نے عثمانی خلافت کے اختتام کے بعد نہ صرف اسے زندہ رکھا بلکہ اسے خانقاہوں سے نکال کر عوامی پزیرائی بخشی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کا پاکستانی سیاست میں بھی بڑا کردار تھا۔ پاکستانی حکومت نے انہیں قادیانی گروہ کو غیر مسلم قرار دینے پر پھانسی کی سزا بھی سنائی جس پر عالمی دباؤ کے باعث عملدرآمد نہ ہو سکا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو ان کی دینی خدمات کی پیش نظر پہلے شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ کی لکھی ہوئی قرآن مجید کی تفسیر تفہیم القرآن کے نام سے مشہور ہے اور جدید دور کی نمائندگی کرنے والی اس دور کی بہترین تفسیروں میں شمار ہوتی ہے۔

ابتدائی زندگی

سید ابوالاعلیٰ مودودی 1903ء بمطابق 1321ھ میں اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آبا و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔ آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیا گیا۔ 1914ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اورنگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہو گئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔ اس زمانے میں دارالعلوم کے صدر مولانا حمید الدین فراہی تھے جو مولانا امین احسن اصلاحی کے بھی استاد تھے۔ تاہم والد کے انتقال کے باعث وہ دار العلوم میں صرف چھ ماہ ہی تعلیم حاصل کر سکے۔

بطور صحافی

کیونکہ سید مودودی لکھنے کی خداداد قابلیت کے حامل تھے اس لیے انہوں نے قلم کے ذریعے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے اور اسی کو ذریعہ معاش بنانے کا ارادہ کر لیا۔ چنانچہ ایک صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور متعدد اخبارات میں مدیر کی حیثیت سے کام کیا جن میں اخبار "مدینہ" بجنور (اترپردیش)، "تاج" جبل پور اور جمعیت علمائے ہند کا روزنامہ "الجمعیت" دہلی خصوصی طور پر شامل ہیں۔ 1925ء میں جب جمعیت علمائے ہند نے کانگریس کے ساتھ اشتراک کا فیصلہ کیا تو سید مودودی نے بطور احتجاج اخبار"الجمعیۃ" کی ادارت چھوڑ دی۔

پہلی تصنیف

جس زمانے میں سید مودودی"الجمعیۃ" کے مدیر تھے۔ ایک شخص سوامی شردھانند نے شدھی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنالیا جائے۔ چونکہ اس تحریک کی بنیاد نفرت، دشمنی اور تعصب پر تھی اور اس نے اپنی کتاب میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین کی جس پر مسلمان نوجوان علم دین نے غیرت ایمانی میں آکر سوامی شردھانند کو قتل کر دیا۔ اس پر پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہو گیا۔ ہندو دینِ اسلام پر حملے کرنے لگے اور علانیہ یہ کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے۔ انہی دنوں مولانا محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں تقریر کی جس میں بڑی دردمندی کے ساتھ انہوں نے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کرے تاکہ اسلام کے خلاف جو غلط فہمیاں آج پھیلائی جا رہی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔ اس پر سید مودودی نے الجہاد فی الاسلام کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ اس وقت سید مودودی کی عمر صرف 24 برس تھی۔

ترجمان القرآن

"الجمعیۃ" کی ادارت اور اخبار نویسی چھوڑکر سید مودودی حیدرآباد دکن چلے گئے۔ جہاں اپنے قیام کے زمانے میں انہوں نے مختلف کتابیں لکھیں اور 1932ء میں حیدرآباد سے رسالہ"ترجمان القرآن" جاری کیا۔

1935ء میں آپ نے "پردہ" کے نام سے اسلامی پردے کی حمایت میں ایک کتاب تحریر کی جس کا مقصد یورپ سے مرعوب ہوکر اسلامی پردے پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا تھا۔ اس کے علاوہ "تنقیحات" اور"تفہیمات" کے مضامین لکھے جن کے ذریعے انہوں نے تعلیم یافتہ مسلمانوں میں سے فرنگی تہذیب کی مرعوبیت ختم کردی۔

تحریک پاکستان میں کردار

مولانا مودودی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف یہ کہ مطالبہ پاکستان کی مخالفت کی، بلکہ پاکستان بننے کے بعد بھی جماعت اور مولانا مودودی قائد اعظم کی مخالفت کرتے رہے اور مولانا مودودی پاکستان بننے کے بعد بھی اس موقف پر قائم رہے کہ قائد اعظم ایک قومیتی ریاست قائم کرنے کے لیے پاکستان بنانا چاہتے تھے اور پاکستان میں شریعت کا نفاذ ان کا مقصد نہیں تھا۔اس حوالے سے بطور دلیل درج ذیل اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔

تحریک پاکستان کی حمایت

اسلامی قومیت

1938ء میں کانگریس کی سیاسی تحریک اس قدر زور پکڑ گئی کہ بہت سے مسلمان اور خود علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ مل گئی۔ کانگریس کے اس نظریہ کو "متحدہ قومیت" یا "ایک قومی نظریہ" کانام دیا جاتا تھا۔ سید مودودی نے اس نظریے کے خلاف بہت سے مضامین لکھے جو کتابوں کی صورت میں "مسئلہ قومیت" اور ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش" حصہ اول و دوم کے ناموں سے شائع ہوئی۔ مولانا مودودی صاحب پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ قیام پاکستان کے خلاف تھے۔

مسلم لیگ علما کمیٹی کی رکنیت

قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوان مسلم قومیت پر سید مودودی کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے۔ بعد ازاں مسلم لیگ یو پی نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے علما کی ایک کمیٹی بنائی تو مولانا مودودی نے اس کی رکنیت قبول کرتے ہوئے اس کام میں پوری دلچسپی لی۔ اس کا مسودہ کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے Working Paper تیار کیا تھا۔

جماعت اسلامی کا قیام

سید مودودی نے ترجمان القرآن کے ذریعے ایک پابندِ اسلام جماعت کے قیام کی تجویز پیش کی اور اس سلسلے میں ترجمان القرآن میں مضامین بھی شائع کیے۔ جو لوگ اس تجویز سے اتفاق رکھتے تھے وہ 26 اگست 1941ء کو لاہور میں جمع ہوئے اور "جماعت اسلامی" قائم کی گئی۔ جس وقت جماعت اسلامی قائم ہوئی تو اس میں پورے ہندوستان میں سے صرف 75 آدمی شامل ہوئے تھے۔ اس اجتماع میں سید مودودی کو جماعت کا سربراہ منتخب کیا گیا۔

پہلی قید

تقسیم ہند کے بعد سید مودودی پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں قائد اعظم کے انتقال کے اگلے ہی ماہ یعنی اکتوبر 1948ء میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے پر آپ گرفتار ہو گئے۔ گرفتاری سے قبل جماعت کے اخبارات "کوثر"، جہان نو اور روزنامہ "تسنیم" بھی بند کردیے گئے۔

سید مودودی کو اسلامی نظام کا مطالبہ اٹھانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن الزام یہ دھرا گیا کہ وہ جہادِ کشمیر کے مخالف تھے۔ قرارداد مقاصد کی منظوری سے قبل اس کا متن بھی مودودی کو ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔ انہیں 20 ماہ بعد 1950ء میں رہائی ملی۔ اپنی پہلی قید و بند کے دوران میں انہوں نے "مسئلہ ملکیت زمین" مرتب کی، "تفہیم القرآن" کامقدمہ لکھا، حدیث کی کتاب "ابو داؤد" کا انڈکس تیارکیا، کتاب "سود" اور "اسلام اور جدید معاشی نظریات" مکمل کیں۔

قادیانی مسئلہ

1953ء میں سید مودودی نے "قادیانی مسئلہ" کے نام سے ایک چھوٹی سی کتاب تحریر کی جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا اور پھرفوجی عدالت کے ذریعے انہیں یہ کتابچہ لکھنے کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنادیا۔ سزائے موت سنانے کے خلاف ملک کے علاوہ عالم اسلام میں بھی شدید رد عمل ہوا۔ جن میں مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضیبی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علما نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا جبکہ شام کے دار الحکومت دمشق میں ان کی سزائے موت کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔ بالآخر حکومت نے سزائے موت کو 14 سال سزائے قید میں تبدیل کر دیا۔ تاہم وہ مزید دوسال اور گیارہ ماہ تک زندان میں رہے اور بالآخر عدالتِ عالیہ کے ایک حکم کے تحت رہا ہوئے۔

فتنۂ انکار حدیث

1958ء میں مارشل لا کے نفاذ کی سخت مخالفت کرنے کے بعد اس وقت کے صدر ایوب خان نے سید مودودی کی کتاب "ضبط ولادت" کو ضبط کر لیا اور ایوبی دور میں ہی فتنۂ انکار حدیث نے سر اٹھایا اور حکومتی سر پرستی میں ایسا طبقہ سامنے آیا جس کا کہنا تھا کہ اسلام میں حدیث کی کوئی حیثیت نہیں حتیٰ کہ مغربی پاکستان کی عدالت کے ایک جج نے حدیث کے بارے میں شک ظاہر کرتے ہوئے اسے سند ماننے سے انکار کر دیا۔ اس موقع پر سید مودودی نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے دونوں کو اسلامی قانون کا سرچشمہ قرار دیا۔ انہوں نے فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف اپنے رسالے "ترجمان القرآن" کا "منصب رسالت نمبر" بھی شائع کیا۔

قاتلانہ حملہ

مارشل لا اٹھنے کے بعد اکتوبر 1963ء میں سید مودودی نے جماعت اسلامی کا سالانہ جلسہ لاہور میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایوب خاں کی حکومت نے اس کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی اور منٹو پارک کی بجائے بھاٹی دروازے کے باہر تنگ جگہ میں جلسہ کرنے کی اجازت دی۔ بعد ازاں لاؤڈ سپیکر استعمال کرنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا گیا۔ 25 اکتوبر کو جلسہ شروع ہوا۔ سید مودودی نے تقریر شروع ہی کی تھی جلسہ گاہ میں موجود نامعلوم افراد نے فائرنگ شروع کی جس سے جماعت اسلامی کا ایک کارکن جاں بحق ہو گیا تاہم مودودی بچ گئے۔

جماعت پر پابندی

ایوب خاں نے 6 جنوری 1964ء کو جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ سید مودودی اور جماعت اسلامی کے 65 رہنماؤں کو گرفتار کر کے قید خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس قید کا دورانیہ 9 ماہ رہا جس کے بعد انہیں عدالیہ عظمیٰ کے فیصلے پر رہا کر دیا گیا۔

کتابوں اور مضامین کی فہرست

  • تحریک آزادی ہند اور مسلمان دو جلد۔
  • تنقیحات
  • تعلیمات
  • تجدید و احیائے دین
  • تفہیمات 3جلد
  • سنت کی آئینی حیثیت
  • صود
  • رسائل و مسائل
  • قرآن کی چار بنیادی اصلاحیں
  • قادیانی مسئلہ
  • پردہ
  • نشری تقریریں
  • معاشیات اسلام
  • مسئلہ جبر و قدر
  • خطبات
  • خلافت و ملوکیت
  • اسلامی تہزیب اور اس کے اصول و مبادل
  • اسلامی ریاست
  • اسلام نظام زندگی اور اس کے تصورات
  • اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر
  • اسلام اور ضبط ولادت
  • اسلام اور جدید معاشی نظریات
  • حقوق الزوجین
  • فضائل قرآن
  • دینیات
  • دعوت اسلام اور اس کے مطالبات
  • دروس قرآن از مولانا سید ابو الا علٰی مودودی
  • الجہاد فی الاسلام
  • تفہیم القرآن پشتو 6جلد۔[۱۴]
                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

قاضی احمد حسین قاضی حسین احمد صاحب (پیدائش:12 جنوری 1938ء، وفات:6 جنوری 2013ء) ممتاز عالم اور سیاست دان تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کے امیر کے طور پر شہرت پائی۔ آپ کے دور میں جماعت سیاسی طور پر زیادہ عوامی مقبولیت کی طرف مائل ہوئی۔ آپ کی زیر صدارت 19xx کے انتخابات میں جماعت کا یہ نعرہ ظالمو ڈرو، قاضی آ رہا ہے مقبول ہوا۔

تعارف

جماعت اسلامی کے سابق امیر۔ مذہبی جماعتوں کے مرحوم اتحادمتحدہ مجلس عمل کے بانی سید ابوالاعلٰی مودودی اورمیاں طفیل محمد کے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے تیسرے منتخب امیر بنے۔ اور طویل عرصے بعد مارچ 2009ء میں امارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ ان کی جگہ سید منورحسن جماعت اسلامی کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔

پیدائیش

قاضی حسین احمد 1938 ء میں ضلع نوشہرہ (صوبہ خیبر پختونخوا) کے گاؤں زیارت کاکا صاحب میں پیدا ہوئے۔ والد مولانا قاضی محمد عبد الرب صاحب ایک ممتازعالم دین تھے اوراپنے علمی رسوخ اور سیاسی بصیرت کے باعث جمعیت علمائے ہند صوبہ سرحد کے صدرچُنے گئے تھے۔ قاضی صاحب اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن اور مرحوم قاضی عطاء الرحمٰن اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل تھے۔ قاضی حسین احمد بھی ان کے ہمراہ جمعیت کی سرگرمیوں میں شریک ہونے لگے۔ لٹریچر کا مطالعہ کیا اور یوں جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اور عملی زندگی

قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنے والد سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔ بعد ازتعلیم جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کر دیا۔ جہاں سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

سیاسی

دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے،پھرجماعت اسلامی پشاورشہر اور ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی گئی۔ 1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان امیر منتخب کر لیے گئے۔ تب سے وہ چارمرتبہ (1999ء،1994ء، 1992ء، 2004ء) امیرمنتخب ہو ئے۔

قاضی حسین احمد 1985ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ء میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے،تاہم انہوں نے حکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے سینٹ سے استعفا دے دیا۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ نورانی صاحب کی وفات کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔ ایم ایم اے میں فضل رحمان کے برعکس قاضی صاحب کا نقطۂ نظر ہمیشہ سے سخت گیر رہا ہے۔ حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد استعفا کی بات بھی ان کی طرف سے ہوئی تھی۔ اور قاضی صاحب نے پارٹی قیادت پر کافی دباؤ بھی ڈالا لیکن جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفا دینے کا اعلان کر دیا۔ 3 نومبر کے ایمرجنسی کے بعد آپ کو اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ 14 نومبر کو عمران خان کو پولیس کے حوالے کرنے کا واقعہ ہوا۔[4] دو ہی روز بعد حکومت نے قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی نظربندی ختم کر دی۔

عائلی زندگی

قاضی حسین احمد کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ جو والدہ سمیت جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔ قاضی صاحب منصورہ میں دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو،انگریزی،عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبال کے بہت بڑے خوشہ چین تھے، انہیں فارسی و اردو میں ان کااکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے۔

وفات

6 جنوری 2013ء کو دل کے عارضہ سے اسلام آباد میں انتقال ہوا، اُن کو ان کے آبائی علاقے نوشہرہ میں دفن کیا گیا۔[۱۵]

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

محمد علی مرزا انجینئر محمد علی مرزا (انگریزی: Muhammad Ali Mirza) (پ۔ 1977ء) ایک پاکستانی محقق ہیں جو یوٹیوب کے ذریعہ درس دیتے ہیں۔ وہ بلحاظ پیشہ ایک میکینیکل انجینئر ہیں۔ان کی وجہ شہرت مذہبی تعلیمات پر مبنی بیانات ہیں۔

حالات زندگی

انجینئر محمد علی مرزا ایک مکینیکل انجینئر ہیں اور ان کا تعلق ”جہلم“ شہر سے ہے؛لیکن وہ انجینئرنگ سے زیادہ ”علوم اسلامیہ“ میں مصروف ہیں،اسی نسبت سے موصوف جہلم شہر میں ہی قرآن و سنت ریسرچ اکیڈمی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں ،ادارہ کی پالیسیوں میں سر فہرست امت اسلامیہ کا اتحاد و اتفاق ہے اور مرزا صاحب کی ساری کوشش اسی حوالہ سے سامنے لائی جارہی ہیں [۱۶]۔

نظریات

اسلام دشمن قوتوں نے مختلف مکاتب فکر میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہو کر ہم اسلام ناب محمدی کا ادراک کر سکتے ہیں۔ ہمیں فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ اُمت مسلمہ کو اتحاد کی جنتی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کو وحدت کی لڑی میں پرونے کیلئے کوشاں ہیں [۱۷]۔ انجینئر محمد علی مرزا صاحب، ان دونوں نے فرقہ واریت اور تکفیری سوچ کے خلاف جو کام کیا ہے اور اس نظریئے کو جو شکست فاش دی ہے وہ اپنے آپ میں ایک تاریخی کام ہے۔ جو لوگ پچھلی چند دہائیوں کے حالات سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک دور میں اس خطے میں تکفیریت کا کتنا بول بالا اور عروج تھا لیکن آج حالات یکسر بدل چکے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے گزشتہ چار پانچ سال میں انجینئر مُحمّد علی مرزا صاحب نے بھی اس بات پر بے حد زور دیا کہ اختلافات کے باوجود تمام مسالک اسلامیہ و مکاتب فکر کے لوگ مسلمان ہیں اور سب آپس میں بھائی بھائی ہیں.انجینئر محمد علی مرزا صاحب نے جس طرح اتحاد امت کے لئے اپنی خدمات انجام دی ہیں وہ بھی اپنے آپ میں ایک مثال ہے [۱۸]۔

سوانح عمری

سنہ 1977ء میں پنجاب کے شہر جہلم میں پیدا ہوئے۔ وہ جہلم میں مشین محلہ نمبر 1 کے رہائشی ہیں۔ علی پاکستان میں مروجہ نظام کے مطابق کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں نہ ہی کوئی امامِ مسجد ہیں۔ وہ ایک سرکاری محکمہ میں انیسویں اسکیل کے انجینئر ہیں۔ وہ آن لائن مذہبی درس دیتے ہیں، جہاں وہ مختلف معاشرتی و مذہبی موضوعات پر مبنى گفتگو کرتے ہیں۔لیکن ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ حساس موضوعات پر کھل کر بات کرتے ہیں، صحابہ کے خلاف تنقیدی الفاظ استعمال کرتے ہیں خصوصاً علی حضرت علی کے مقابلے میں آنے والے نبی کے صحابہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کو بدعتی ظالم وغیرہ کہتے ہیں ، جبکہ ان کے خیالات سے اختلاف کرنے والے لوگ ان کے اندازِ گفتگو کو شدید تنقیدی انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کی بیشتر تقریروں پر بہت سے تنازعات کھڑے ہو چکے ہیں تاہم لوگوں میں خصوصاً نوجوان نسل میں وہ مشہور ہیں۔ علی کا دعویٰ ہے کہ ”میں مذہبی خدمات سے روزگار نہیں کماتا بلکہ اپنی تنخواہ سے اخراجات چلاتا ہوں۔“ وہ جہلم میں ایک ریسرچ اکیڈمی چلاتے ہیں. مئی 2020ء میں انہیں مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔6 مئی 2020ء کو ضمانت پر رہا ہو گئے۔

تنقید

علی نے اپنی ایک وڈیو میں قادیانیوں کو یہود اور دوسرے مذاہب سے بدتر سمجھنے کی مخالفت کی جس کے بعد ان پر قادیانیت کی حمایت کا بھی الزام لگایا گیا۔ ان کے خلاف مذہبی حلقوں کی جانب سے رد عمل آتے رہتے ہیں۔ ان پر صحابہ، اولیا اور علما کی توہین کا الزام ہے۔ علی کا دعویٰ ہے کہ ان کے موقف کی تائید میں کتب حدیث کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی حوالے دیے جاتے ہیں اور ناقدین ان کے جواب میں قرآن اور حدیث کے کوئی حوالے پیش نہیں کرتے۔ علی پر تنقید کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ آپ کو کسی دوسرے کے مزھب کے اکابرین کو برا بھلا کہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

گرفتاری اور رد عمل

مئی 2020ء میں جہلم پولیس نے آن لائن مذہبی لیکچر دینے پر ان کو اس وقت گرفتار کیا جب ان کی ایک پرانی ویڈیو وائرل ہوئی۔ کیونکہ ان کے خلاف سیکشن 153 اے (جو کسی ایسے شخص کے خلاف لگایا جاتا ہے جو نفرت انگیز گفتگو اور کسی دوسرے کے خلاف اشتعال دلانے کا مرتکب ہو) کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے جلد عدالت سے رجوع کیا اور انھیں وہاں سے چھ مئی کو ضمانت مل گئی۔ اور دو روزہ گرفتاری کے بعد ان کو رہا کیا گیا۔ علی کا موقف تھا کہ ان کے لیکچر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنے موقف کی تائید میں کئی کتب کے ساتھ ساتھ قرآن سے بھی حوالے دیے۔ محمد علی مرزا کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی گرفتاری اور وائرل ہونے والی ویڈیو زیر بحث آ گئیں، جس کے بعد ٹویٹر پر ان کے نام سے ٹرینڈ بھی چلنے لگے اور محمد علی مرزا کی گرفتاری پر عوام کے ردِ عمل کے ساتھ ساتھ دیگر چند نامور شخصیات کی جانب سے ٹویٹس سامنے آئیں۔ اداکار حمزہ علی عباسی نے ان کی گرفتاری پر لکھا کہ ”یاد رہے دوسروں کو ان کے عقیدوں کی وجہ سے دبانے پر ہمیں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا، جبکہ محمد علی مرزا کی گرفتاری پاکستانیوں کے لیے ایک لمحۂ فکر ہے۔“ اینکر شفاعت علی نے اپنے ٹویٹر پر محمد علی مرزا کی گرفتاری کی مذمت کی۔ جہاں لوگوں کی بڑی تعداد ان کے حق میں اپنے سوشل میڈیا پر لکھا، وہیں دوسری طرف کچھ لوگوں کی جانب سے محمد علی مرزا کی گرفتاری کو سراہا بھی گیا اور ان پر تنقید بھی کی گئی۔[۱۹]

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

نور الحق قادری

نور الحق قادری ایک پاکستانی سیاست دان جو اگست 2018ء سے وزیر مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی ہیں۔

سیاسی زندگی

نور الحق نے پاکستان عام انتخابات، 2002ء میں این اے-45 سے بطور آزاد امیدوار آزاد امیدوار عجب خان آفریدی کو 9,121 ووٹ لے کر شکست دی۔ دوسری بار پاکستان عام انتخابات، 2008ء میں این اے-45 سے بطور آزاد امیدوار آزاد امیدوار محمد ابراہیم کوکی خیل کو 13,876 ووٹ لے کر شکست دی۔ تیسری بار پاکستان عام انتخابات، 2013ء میں این اے-45 سے بطور آزاد امیدوار آزاد امیدوار الحاج شاہ جی گل آفریدی سے شکست کھا گئے، نور الحق اس وقت 20,181 ووٹ لیے تھے۔ پاکستان کے عام انتخابات، 2018ء میں نور الحق نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لیا اور حلفہ این اے-43 (قبائلی علاقہ-4) سے الحاج شاہ جی گل آفریدی کو 33,243 ووٹ لے کر شکست دی۔ اس وقت وہ عمران خان کی کابینہ میں وزیر مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی ہیں۔[۲۰]

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

محمد تقی عثمانی مفتی محمد تقی عثمانی (پیدائش: 27 اکتوبر 1944ء) عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ ان کا شمار عالم اسلام کی مشہور علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ وفاق المدارس العربیہ کےحالیہ صدر، بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی، جدہ کے نائب صدر اور دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثیت شرعی مشیر کام کر رہے ہیں اور البلاغ جریدے کے مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔

پیدائش

مفتی محمد تقی عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کی پیدائش 27 اکتوبر 1943ء کو ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔ اردو کے مشہور شاعر محمد زکی کیفی اور اردو کی مشہور غیر منقوط کتاب ہادی عالم کے مصنف محمد ولی رازی بھی مفتی محمد تقی عثمانی کے بھائی ہیں۔

تعلیم

انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔

اجازہ

انہوں نے اپنے وقت کے تقریباً تمام جید علما سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علما میں خود ان کے والد محمد شفیع عثمانی کے علاوہ ادریس کاندھلوی اور محمد زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔

تصوف و معرفت

انہوں نے تزکیہ کا سفر مسیح اللہ خان جلال آبادی اور عبد الحئی عارفی کی زیرِ نگرانی طے کیا، جو مولانا اشرف علی تھانوی کے معروف خلفاء میں شمار ہوتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی دونوں علما کے خلیفہ ہیں اور چاروں سلاسلِ تصوف یعنی قادریہ، سہروردیہ، نقشبندیہ اور چشتیہ میں اجازت رکھتے ہیں۔

تدریس

مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دار العلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہےـ آپ کو اپنے ایک استاذ مفتی سحبان محمود نے شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔

رکن اسلامی نطریاتی کونسل

جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور کی اسلام سازی کے لیے 1973ء کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی اکائی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ حدود اور جرائم کی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لیے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لیے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔

بحثیت جج

مفتی محمد تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہو گئے۔ آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک شرعی عدالتی بینچ، عدالت عظمیٰ پاکستان کے جج رہے ہیں۔ آپ شرعی عدالتی بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ نے بحثیت جج کئی اہم فیصلے کیے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002ء میں اسی فیصلے کی وجہ سے جنرل (ر) پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔

اسلامی بینکاری

قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو بین الاقوامی اسلامی فقہ اکادمی، جدہ کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کر رہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود 8 اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اورگنائزیشن کے چیرمین بھی ہیں۔

عہدے

تاحال جن عہدوں پر فائز ہیں:

  • چیئرمین شریعہ بورڈ آف اسٹیٹ بینک پاکستان۔
  • نائب مہتمم، اور شیخ الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی۔
  • چیئرمین اِنٹرنیشنل شریعہ اسٹینڈرڈ کونسل، اَکاؤنٹنگ اینڈ ایڈیٹنگ آرگنائزیش آف اِسلامک فائنانشل اِنسٹیٹیوشن، بحرین۔
  • مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ، سعودی عرب۔
  • آرگن آف آرگنائزیشن آف اِسلامک کانفرنس (OIC)۔
  • ممبر رابطۃ العالم الاسلامی فقہ اکیڈمی مکہ، سعودی عرب۔
  • مستقل ممبر، اور نائب صدر اِنٹرنیشنل فقہ الاسلامی اکیڈمی، جدہ، سعودی عرب، (اسپانسرڈOIC)۔
  • چیئرمین سنٹرآف اِسلامک اِکنامکس، پاکستان (1991)۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ، سنٹرل بینک بحرین۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ، ابوظہبی اِسلامی بینک،

یواے ای(UAE)۔

  • چیئرمین شریعہ بورڈ، میزان بینک لمیٹڈ کراچی پاکستان۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ اِنٹرنیشنل اِسلامک ریٹنگ ایجنسی، بحرین۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ، پاک کویت تکافُل کراچی۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ، پاک قطر تکافُل کراچی۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِنویسٹمنٹ اِسلامک فنڈز، کراچی۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ ’’JS‘‘ اِسلامک پینشن سیونگ فنڈز۔
  • چیئرمین شریعہ بورڈ عارف حبیب اِنویسٹمنٹ_پاکستان اِنٹرنیشنل اِسلامک فنڈ، کراچی۔
  • چیئرمین ’’ Arcapita‘‘ اِنویسٹمنٹ فنڈز، بحرینْ
  • ممبر متحدہ شریعہ بورڈ اِسلامک ڈیویلپمنٹ بینک، جدہ، سعودی عرب۔
  • ممبر شریعہ بورڈ، گائیڈنس فائنانشل گروپ۔

ملی و سیاسی کردار

  • مفتی تقی عثمانی کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب آپ نے مولانا محمد یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی ختم نبوت تحریک میں اپنا کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو پارلیمان میں پیش کی گئی۔
  • 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی تقی عثمانی نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے ذریعہ کھل کر مخالفت کی۔
  • انہوں نے افغانستان کی ریاست پر امریکا کی شدید مذمت کی اور اسے مغربی سامراج کا تیسری دنیا کے ممالک کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔
  • حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف پر تنقید کی۔
  • آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور ٹی وی پر آ کر اسں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا مشورہ دیا۔
  • 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
  • کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں مساجد میں اجتماعی عبادت کے لیے ایس او پیز مرتب کرنے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں بھی ان کا کردار اہم رہا ہے۔

حدیث کےجامع ترین مجموعے کی تدوین

گزشتہ اٹھارہ برس سے ان کے زیر نگرانی المدونۃ الجامعۃ کے نام سے تمام احادیث نبویہ پر مشتمل ایک انسائیکلوپیڈیا بھی مرتب کیا جا رہا ہے۔ جس کی 6جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔

وفاق المدارس العربیہ کی صدارت

ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی وفات کے بعد 19 ستمبر 2021ء کو وفاق المدارس العربیہ کی مجلسِ شوری نے انہیں متفقہ طور پر صدر منتخب کیا ہے۔

کتابیں

  • آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں آسان تفسیر قرآن (توضیح القرآن) -(اب تک چار جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔)
  • المدونۃ الجامعۃ
  • تقلید کی شرعی حیثیت
  • تكملہ فتح الملہم
  • فتاویٰ عثمانی
  • فقہی مقالات
  • فقہ البیوع
  • اصول الافتاء و آدابہ
  • دنیا مِرے آگے
  • جہان دیدہ
  • سفر در سفر
  • اسلام اور دور حاضر کے شکوک وشبہات کا ازالہ
  • حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
  • علوم القرآن
  • ہمارا معاشی نظام
  • نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں
  • عدالتی فیصلے
  • عیسائیت کیا ہے
  • درسِ ترمذی
  • بائبل سے قرآن تک (آپ نے رحمت اللہ کیرانوی کی اظہار الحق کی اردو شرح رقم فرمائی۔. یہ تین جلدوں میں طبع ہوئی ہے)۔
  • یادیں (خود نوشت سوانح)

اعزازات

مفتی محمد تقی عثمانی کو اپریل 2019ء کو روس میں اعزازی طور پر علمی خلعت زیب تن کرایا گیا جو روس کا بہت اعلیٰ علمی اعزاز ہے۔ مفتی تقی عثمانی اپنی علمی خدمات کی بدولت دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اعزازات اور ایوارڈز سے نوازے گئے ہیں۔ 14 اگست 2019ء کو ہلال امتیاز دینے کا اعلان ہوا، 2020ء میں حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز ستارہ امتیاز دیا۔ 2009 میں پی آئی اے (پاکستان اِنٹرنیشنل اِئیرلائن) پر پوری دُنیا میں سب سے زیادہ ٹریولنگ کرنے والے مفتی تقی عثمانی تھے۔ جس پر پی آئی اے نے اِنہیں بطور اِعزاز عمر بھر کےلئے پی آئی اے پر سفر کرنے کی صورت میں اِن کو ایک تہائی یا آدھے کرائے میں سفر کرنے کی سہولت دے رکھی ہے۔

با اثر ترین مسلمان شخصیت

عمان کے عالمی اسلامی تحقیقی ادارے المجمع الملکی للبحوث الاسلامیۃ نے انہیں 2020ء اور 2021ءکی اسلامی دنیا کی بااثر ترین شخصیت قرار دیا۔ جس کی تفاصیل مندرجہ ذیل لنک پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔[۲۱]

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

سراج الحق سراج الحق خان پاکستان کے باعزت، اسلام پسند سیاست دان ہیں۔آپ جماعت اسلامی کے امیر بھی ہیں۔جو پاکستان میں ایک مذہبی، اسلام پسند پارٹی کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اور پاکستان میں اسلامی شریعت کی بنیاد پر اسلامی قانونی نظام قائم کرنا چاہتی ہے۔ آپ کی پیدائش 5ستمبر 1962ء پختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں ثمرباغ کے گاوں کاکس میں ہوئی۔

تعلیم

سراج الحق نے اپنی ابتدائی تعلیم خطے کے مقامی ہائی اسکول سے لی اور پشاور یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس اور 1990 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ایجوکیشن مکمل کیا ۔ یونیورسٹی کی مدت کے دوران، انہوں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا نعیم صدیقی کی کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کی اور 1988 سے 1991 تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔وہ PK-95 انتخابی حلقہ سے MPA کے طور پر دو بار منتخب کر دیے گئے ہیں۔

سیاسی زندگی

آپ اس سے قبل خیبرپختونخوا کے صوبائی اسمبلی میں متعدد مرتبہ منتخب ہوئے اور آپ صوبہ خیبر پختونخواں کے تین دفعہ سینئیر وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ ایک انتہائی سادہ مزاج کے مالک ہیں۔ سراج الحق واحد سینٹر اور صوبائی اسمبلی کے رکن ہیں جن کا سود کیوجہ سے کوئی بینک اکاؤنٹ نہیں تھا۔[۲۲]

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

لیاقت بلوچ لیاقت بلوچ پاکستان کے سیاست دان اور جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی عہدہ دار ہیں۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی سید علی شرف الدین موسوی کی شخصیت پاکستان کے علما (بشمول شیعہ و سنی) میں احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ آپ اس دور کے ایک عظیم مصلح اور اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں۔ آپ قرآن اور اسلام ناب محمدی کی دعوت دینے والے اسکالرز میں سے ہیں۔ مرحوم مولانا اسحاق فیصل آبادی جو اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے، آپ کے ان سے بھی دوستانہ روابط تھے۔ آج بھی علامہ سید علی شرف الدین موسوی پاکستان میں فرقہ بندی کی بجائے صرف اسلام کی طرف دعوت دینے والے گنے چنے اسلامی اسکالرز و علما میں سے ہیں۔

سوانح عمری

سید علی شرف الدین بن سید محمد بن سید حسن موسوی کی جائے پیدائش بلتستان کے ایک گاؤں چھورکاہ محلہ علی آباد ضلع شیگر کی ہے، جو مشہور پہاڑی چوٹی کے ٹو کے گردونواح کی ایک وادی ہے۔ ان کی سنہ پیدائش 1360ھ (1942ء) ہے۔ آپ بلتستان کے ایک شیعہ سادات کے مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ موسوی سید ہونے کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ موسوی لکھتے ہیں۔ آپ نے ا قرآن مجید و عربی زبان اور ابتدائی تعلیم اپنے علاقے بلتستان، شمالی پاکستان، سے حاصل کی۔تقریبا 13 سال آبائی گاؤں میں مقیم رہے،ساتھ ہی چوتھی جماعت تک اسکول کی تعلیم بھی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ اسلامی تعلیم کے حصول کے لیے لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔

تعلیم

جامع المنتظر میں تعلیم

1956 عیسوی میں آپ نے بلتستان سے لاہور کا سفر کیا اور وہاں جامع المنتظر میں داخلہ لیا وہاں پر عربی زبان نیز دیگر دینی علوم کی مزید تعلیم حاصل کی [۲۳]۔

عراق کا سفر اور تعلیم

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی حصول علم کے لیے 1958 عیسوی کو نجف اشرف عراق پہنچے وہاں حوزہ علمیہ نجف میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا۔ آپ نے وہاں جن علماء سے استفادہ کیا ان میں ذیشان حیدر جوادی سے فلسفہ و ادب، آیت اللہ شیخ صدرا البادکوبی سے نیز آیت اللہ سید مسلم حلی سے کفایہ پڑھا۔آیت اللہ شیخ محسن آصفی کے پاس آپ نے منطق اور فلسفیہ پڑھا اور شیخ راستی کے پاس مکاتب پڑھا۔آیت اللہ شیخ تسخیری سے اقتصادنا و فلسفتنا کے دروس لیے اور آیت اللہ شیخ صادقی تہرانی سے تفسیر قرآن کے دروس لیے ،اور یہیں سے قرآن فہمی اور قرآنی دعوت کا شوق پیدا ہوا۔آیت اللہ سید کوکبی کے پاس رسائل کے درس میں شرکت کی۔آپ نے آیت اللہ سید خوئی اور آیت اللہ سید باقر صدر کے بحث خارج میں شرکت کی نیز باقر الصدر سے فقہ و اصول اور تدقیق میں استفادہ کیا۔آیت اللہ باقر الصدر سے کافی متاثر ہوئے اور انہی کی پیروی کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے لیے بعد میں آپ نے کام کیا،نیز باقر الصدر کی تفسیر موضوعی کا اردو ترجمہ کیا [۲۴]۔

اساتذہ

علی شرف الدین نے حوزہ علمیہ قم اور حوزہ علمیہ نجف میں جن علماء و مجتہدین سے دینی تعلیم حاصل کیں ان کے نام یہ ہیں:

  • سید ذیشان حیدر جوادی
  • آیت اللہ باقر الصدر
  • آیت اللہ خوئی
  • آیت اللہ مشکینی
  • آیت اللہ صدرا البادکوبی
  • آیت اللہ سید مسلم الحلی
  • آیت اللہ محسن آصفی
  • آیت اللہ راستی
  • آیت اللہ کوکبی
  • آیت اللہ صادقی تھرانی
  • آیت اللہ محمد علی تسخیری
  • آیت اللہ کاظم حائری
  • آیت اللہ خمینی
  • آیت اللہ آصف محسنی
  • آیت اللہ شیخ عباس قوچانی
  • آیت اللہ حسین حلی
  • آیت اللہ محسن الحکیم [۲۵]۔

پاکستان واپسی اور دینی خدمات

1971 عیسوی میں علی شرف الدین اپنے وطن واپس لوٹے اور بلتستان میں مذھب اثناعشری کی تبلیغ اور دینی علوم کی تدریس میں مشغول ہوگئے۔اور آپ نے وہاں جمعہ پڑھانے کا اہتمام بھی کیا اور آپ کی کاوش سے جامع محمدی قائم کی گئی نیز ایک مدرسہ بنام مدرسہ امام علی کی بنیاد رکھی تاکہ علوم قرآن اور عقائد اسلامی کی تعلیم دی جا سکے۔آپ وہاں 1979 تک موجود رہے [۲۶]۔

ایران کا سفر اور تعلیم

پھر 1979 عیسوی میں آپ نے اپنی دینی تعلیم کو جاری رکھنے کا عزم کیا اور اسی لیے قم گئے۔وہاں حوزہ علمیہ قم میں داخل ہوگئے اور آیت اللہ شیخ کاظم حائری کے درس اصول اور آیت اللہ شیخ مشکینی کے بحث خارج کے دروس میں شریک ہوئے۔

دارالثقافہ الاسلامیہ کراچی کی تاسیس

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی تقریباً 14 سال کے بعد جب نجف اشرف سے پاکستان آئے، آغا صاحب نے جس ادارے کی بنیاد ڈالی اس کا نام دارالثقافہ الاسلامیہ ہے،اس اداراے کی بنیاد 1405 ہجری میں رکھی گئ،اور 1420 ہجری میں یہ ادارہ بند ہوگیا، یہ ادارے اپنے قیام سے اب تک کسی قسم سے بھی مرجعییت کے ذیر تسلط نہیں رہا اور نہ اس ادارے کو چلانے کے لیے کسی قسم کے خمس کا سہاری لیا گیا۔

شیعیت کی تبلیغ

پاکستان آنے کے بعد ادارہ" دارالثقافہ الاسلامیہ پاکستان" کے تحت انہوں نے مذہب شیعہ جعفری اثنا عشری سے متعلق کتب کا اردو میں ترجمہ کرنے اور شیعہ مسلک کی تبلیغ کا آغاز کیا۔ انہوں نے شیعہ مسلک کی چوٹی کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور شیعہ مسلک کو پھیلانے میں پر عزم ہو گئے۔ انہوں نے پاکستان میں امام مھدی علیہ السلام سے متعلق اور ان کی شان میں لکھی گئی کتب اور "دعائے ندبہ" کو بھی عام کیا۔ اس کے علاوہ عربی و فارسی کے شیعہ مسلک سے متعلق کتب "شیعت کا آغاز کب اور کیسے"، تیجانی سماوی کی کتابوں "ہو جاو سچوں کے ساتھ" اور" پھر میں ہدایت پا گیا"، "فلسفہ امامت"، "مذہب اہل بیت"، "شب ہاے پشاور"، "اھل بیت آیت تطھیر کی روشنی میں" اوراس کے علاوہسینکڑوں کتب کے اردو ترجمہ کا بھی اہتمام کیا۔

انقلاب ایران اور مقام ولایت فقیہ کی تبلیغ

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی نے ١٩٧٩ کے انقلاب اسلامی کے بعد مقام رہبری اور مقام ولایت فقیہ کو پاکستان میں روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آغا صاحب کی پر جوش شخصیت ہی تھی کہ جس کی وجہ سے قائد عارف حسین کی شہادت کے بعد اپ کا نام بھی قیادت کے لیے سنا جاتا رہا۔

قرآن فہمی کیلے جد و جہد

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی نے ہی سب سے پہلے کراچی میں قرآن فہمی کے پروگرام کرائے اور قرآن فہمی کے عنوان سے مختلف مقابلے بھی کرائے۔ آغا صاحب نے ہی سب سے پہلے کراچی میں دعائے ندبہ کی محافل کا آغاز کیا۔ دروس کا سلسلہ بھی آغا صاحب کے ادارے میں طویل عرصے جاری رہا- جس کے ذریعے سینکڑوں عاشقان دین مستفید ہوتے رہے [۲۷]۔ انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلے میں رمضان 1407 ھجری میں پہلا سیمینار "یوم القرآن" منعقد کیا، تاکہ قرآنی تعلیمات کی اہمیت، قرآنی علوم کی نشر و اشاعت ہو سکے۔ اس سیمینار میں ملک کے علما و دانشوروں کو مختلف موضوعات پر قرآن کی روشنی میں اظہار خیلا کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ سیمینار مسلسل آٹھ(8) سال تک منعقد ہوتی رہیں۔ چنانچہ رمضان 1415 ھجری میں پہلی مرتبہ ملکی سطح پر مقابلہ معارف قرآن کا انعقاد کیا تاکہ کراچی شہر کی حدود سے نکل کر ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں تک کو قرآنی تعلیمات کی جانب توجہ اور ان کے حصول کی ترغیب دی جائے اور یوں پورے ملک میں قرآن شناسی کی فضا پیدا ہو جائے۔ 1417 رمضان کو بھی آپ نے تیسری مرتبہ معارف قرآن کا اعلان کیا، جس میں حصہ لینے والوں اور اس کے ناظر افراد کی تعداد ہزاروں میں تھی۔10 ہزار کی تعداد میں یہ سوالات تقسیم کرنے کا اہتمام کیا [۲۸]۔

عزاداری اور قیام امام حسین

شرف الدین موسوی نے نہ صرف عزاداری اور قیام امام حسین علیہ السلام سے متعلق کتب لکیھں بلکہ عزاداری کی مجلسوں میں بھی شیعت اور اہل بیت پر مبنی خطبات دیے۔ چنانچہ تحقیقات و علمی جستجو کے دوران میں آپ پر عزاداری میں موجود خرافات ظاہر ہو گئیں چنانچہ اس سلسلے میں پہلے مشہور کتب شیعہ جو اصلاح عزاداری کے سلسلے میں تھی ان کا اردو میں ترجمہ کیا جیسے جناب علامہ طبرسی کی اللولو والمرجان کا اردو ترجمہ "آداب اہل منبر" اور آیت اللہ یزدی کی "حسین شناسی" جیسی کتب کے ترجمے شایع کیں۔ اس کے بعد آپ نے بذات خود ان خرافات کے خلاف کتابیں لکھنے کا فیصلہ کیا چنانچہ "عزاداری کیوں"، ا"نتخاب مصائب امام حسین"، "قیام امام حسین کا سیاسی جائزہ"، "تفسیر عاشورا" وغیرہ درجنوں کتب لکھیں۔ جلد ہی آپ نے پہچان لیا کہ مذہب تشیع میں بہت سی رسومات و خرافات بھی شامل ہو گئے ہیں چنانچہ آپ نے "عقائد و رسومات شیعہ" اور "شیعہ اہل بیت" اور "موضوعات متنوعہ" لکھی۔ اس کے علاوہ ان تمام رسومات اور بدعات کو رواج دینے والے اصل لوگوں کی پہچان کیلے"باطنیہ و اخوتھا" لکھی۔ ان سب کتابوں کو لکھنے کے علاوہ قرآن فہمی کے سلسلے میں "اٹھو قرآن کا دفاع کرو" اور اس جیسی 10 کے قریب کتابیں لکھیں [۲۹]۔

شیعہ علی، کا نظریہ

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی نے حال ہی میں تہمتوں اور بہتانوں کے بارے میں "محرم 2013 عیسوی" میں ایک کتابچہ"دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی" لکھی۔ اس سے پہلے بھی "شیعہ اہل بیت نامی کتاب میں اور حالیہ کتاب "دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی " میں بھی شیعہ اثنا عشری جعفری وغیرہ کی بجائے خود کو "شیعہ علی" کے نام سے پہچان کرایا ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی شیعہ علی کا نظریہ اپنی کتاب "تشیع علوی و تشیع صفوی" میں پیش کر چکے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر موسی الموسوی نے بھی اپنی کتاب "الشیعہ و التصحیح" میں شیعوں کو "علی کے شیعہ" اور خرافات سے پر شیعہ میں تقسیم کیا ہے۔ آیت اللہ ابو الفضل برقعی قمی اور حیدر علی قلمداران بھی اپنے نام کے ساتھ "شیعہ اثنا عشری جعفری" کی بجائے "شیعہ علی"لکھتے تھے [۳۰]۔

مخصوص نظریات اور عقائد

امامت کو نص قرآنی سے نہیں مانتے اور ان کا یہ کہنا ہے کہ نص وہ ہوتی ہے جس میں کوئی ابہام نہ ہو اور جب امت کے ایک بڑے طبقے نے غدیر خم کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ سننے کے باوجود مولا کے معنوں میں اختلاف کیا تو اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ یہ نص نہیں ہے۔ اس کے علاوہ آغا صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ علی ابن ابی طالب ہمیشہ اپنی فضیلت کو معیار بنا کر خلافت پر اپنے حق کو ثابت کیا ہے اور نص کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ علی ابن ابی طالب کا خلافت کی نامزدگی کے لیے ہونے والے ہر طریقہ کار میں شامل ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے۔ اہلیبیت کے خاندان کے مختلف لوگوں نے امامت کا دعویٰ کیا [۳۱]۔ اس کے علاوہ آغا صاحب تقلید غیر مشروط کے مخالف ہیں۔

  • توسل کے مخالف ہیں۔
  • نکاح متعہ کو غلط اور حرام سمجھتے ہیں۔
  • تقیہ کو درست نہیں سمجھتے۔
  • امام مہدی سے متعلق روایات کو صحیح نہیں سمجھتے۔ بلکہ ایسی تمام روایات کو افسانہ پردازوں اور قصہ سازوں کی گھڑی گئی روایات قرار دیتے ہیں۔۔ اور حالیہ برسوں میں سید علی شرف الدین نے عقیدہ مہدویت پر سب سے زیادہ تنقید کی ہے اور اپنی کتاب خطداھیون صفحہ 34 سے صفحہ 50 تک روایات مہدی اور وجود مہدی کو غیر اسلامی،باطل ،غیر قرآنی اور مفاد پرستوں کی اختراع و کارنامہ قرار دیا۔ [۳۲]۔
  • قبروں پہ تعمیرات کو درست نہیں سمجھتے۔
  • فرقہ کی بجائے صرف اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
  • توحید پہ بہت زور دیتے ہیں۔
  • خلفاءراشدین کے دور کو بہترین اسلامی دور قرار دیتے ہیں۔
  • خلفاء و اصحاب رسول پر سب و شتم اور تبراء و لعن کو جائز نہیں سمجھتے۔
  • علم، ذوالجناح، زنجیر زنی اور دیگر رسومات عزاداری کو بھی غیر شرعی سمجھتے ہیں۔
  • تربت حسینی یا ٹکیے پر سجدہ کرنا ان کے خیال میں ضروری نہیں ہے۔ اس لیے وہ اب کارپیٹ یا قالین یا جائے نماز پر ہی سجدہ کرتے ہیں۔

سید علی شرف الدین موسوی بلتستانی اور چند احادیث

سید علی شرف الدین بہت سی احادیث کو جعلی سمجھتے ہیں،جن کا ذکر ان کی کتاب صفحہ 64 پر ہیں جیسے:

  • اول ما خلق اللہ نوری و نور علی۔
  • اولنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد و کلنا محمد۔
  • آسمان و زمین کو اللہ تعالی نے آل محمد کے لیے خلق کیا ہے،یہ حدیث کساء کے نام سے بھی مشہور ہے۔
  • من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔
  • علی نفس رسول اللہ ہیں۔
  • اہل بیت کے لیے صدقہ حرام ہے۔
  • ائمہ مخلوق نوری ہیں۔
  • ائمہ محدث ہیں۔
  • حضرت علی ابراہیم و موسی و عیسی کے ساتھ تھے۔
  • ذکر علی عبادت ہے۔
  • علی ؑ سے منسوب جملہ میں تیری عبادت جہنم کے خوف اور جنت کی لالچ میں نہیں کرتا ہوں۔
  • علی ؑ لاکھوں ھروف جانتے تھے۔
  • نبی ص نے علی ؑ کو ہزار کلمات سکھائے ہیں۔
  • نبی ص نے مجھے ہزار باب سکھائے،ہر باب سے ہزار باب کھل گئے۔
  • انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔
  • سلونی قبل ان تفقدونی۔
  • علی ع عالم غیب و غیوب ہیں۔
  • حضرت علی ؑ کا بتوں کو توڑنا۔
  • انا و علی من نور واحد۔
  • چہرہ علی ؑ کو دیکھنا عبادت ہے۔
  • علی ؑ کے لیے سورج کا پلٹانا۔
  • علی ؑ کعبہ میں پیدا ہوئے۔
  • امامت افضل از نبوت ہے۔
  • لولاک لما خلقت الافلاک [۳۳]۔

علمی آثار

آغا سید علی شرف الدین موسوی کی لکھی گئی کتابوں کے نام یہ ہیں۔

  • قرآن سے پوچھو
  • انبیا قرآن(محمد مسطفی)
  • مکتب تشیع اور قرآن
  • سوالات و جوابات معارف قرآن
  • قرآن اور مستشرقین
  • قرآن میں مذکر و مونث
  • قرآن میں شعر و شعرا
  • انبیا قرآن(آدم، نوح، ابراہیم)
  • انبیا قرآن(موسی، عیسی)
  • قرآن میں امام و امت
  • تفسیر عاشورا
  • تفسیر سیاسی قیام امام حسین
  • قیام امام حسین کا جغرافیائی جائزہ
  • اسرار قیام امام حسین
  • عزاداری کیوں؟
  • انتخاب مصائب۔ ترجیحات-ترمیمات
  • مثالی عزاداری کیسے منائیں؟
  • عنوان عاشورا
  • قیام امام حسین غیر مسلم دانشوروں کی نظر میں
  • معجم کتب مولفین امام حسین
  • حج و عمرہ قرآن و سنت کی روشنی میں
  • عقائد و رسومات شیعہ
  • مسجد
  • آمریت کے خلاف ائمہ طاہرین کی جدو جہد
  • افق گفتگو
  • مدارس دینی و حوزات علمیہ پر نگارشات
  • ہماری ثقافت و سیاست کیا ہے؟اور کیا ہونی چاہیے؟
  • شکوؤں کے جواب
  • مجلہ اعتقاد
  • شکوہ جواب شکوہ
  • فصل جواب
  • جواب سے لاجواب
  • عوامی عدالت کے شمارے
  • مجلہ فصلنامہ عدالت
  • موضوعات متنوعہ
  • تعدد قرآت مترادف تحریفات
  • فرقوں میں جذور شرک و الحاد
  • ادوار تاریخ اسلام
  • دور رشد و رشادت
  • ملاحظات پایان نامہ
  • غشوانہ فرمان شگری

تنقید

آپ کے کچھ مسلکی مخالفین آپ کو امت کے لیے فتنہ گردانتے ہیں۔ ناقدین کی نظر میں آپ متنازع شخصیات میں سے ہیں، دقائق اسلام نامی، کتاب میں آیت اللہ محمد حسین نجفی نے آپ پر عصمت ائمہ، امام مہدی اور تقلید کے حوالے سے آپ کے نظریات کی وجہ سے تنقید کی۔ کچھ علما کرام آپ کے امام مہدی سے متعلق نظریات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ اتحاد امت کی کوششوں اور سنی علما سے اچھے تعلقات کی بنا پر اہل سنت مخالف گروہوں نے ان پر تنقید کی۔ اماموں کی عصمت اور منصوص من اللہ ہونے کا انکار کرنے کی وجہ سے بعض علما اہل تشیع نے آپ کو اہل تشیع سے خارج قرار دیا۔

حوالہ جات

الگو:حوالہ جات زمرہ:شخصیات زمرہ:پاکستان شیخ محسن علی نجفی شیخ محسن علی نجفی

سوانح عمری =

منٹوکھا مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی کی جائے ولادت ہے۔ خاندانی ریکارڈ کے مطابق آپ کا سنِ ولادت 1943ء ہے۔ آپ کے پر دادا جان کا اسم گرامی حسین حلیم، دادا جان کا نام عبد الحلیم اور والد صاحب کا نام نامی مولانا حسین جان ہے [۳۴]۔

زندگی کے اہم واقعات

قیام پاکستان کے وقت آپ کی عمر مبارک پانچ سال جبکہ آزادی بلتستان کے وقت آپ کی عمر چھ سال تھی تاہم کم عمری کے باوجود اس وقت کے اہم واقعات آج بھی آپ کے ذہن پر پوری طرح نقش ہیں چنانچہ انھیں یاد ہے کہ اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح کا نام زبانِ زد عام تھا اور علاقے کے مکینوں کی پاکستان میں شمولیت کے لیے رائے شماری کا شور و غوغا بھی ان کے کانوں میں پڑتا تھا اس کے علاوہ بلتستان کے بہادر اور غیور عوام نے بلتستان کی آزادی کے لیے جو عظیم جدوجہد کی اس حوالے سے بھی انھیں یاد ہے کہ جنگ آزادی بلتستان میں شرکت کرنے والے مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے گاؤں میں ایک تقریب ہوئی تھی اور اس تقریب میں ان کے والد صاحب نے مجاہدین کی جدوجہد کے حوالے سے اشعار پڑھ کر لوگوں سے زبردست داد پائی تھی۔ تقریب کے اختتام پر صدرِ محفل نے انکے والد صاحب کو دس روپے کا ہندوستانی سکہ بطور انعام دیا تھا (اسوقت تک پاکستانی کرنسی گردش میں نہ آئی تھی) دس روپے کا وہ سکہ ایک عرصے تک ان کے خاندان کے پاس بطور یادگار محفوظ رہا [۳۵]۔

تعلیم

آپ کی عمر ابھی 14 سال تھی کہ ان کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور شفقت پدری سے محرومی کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کا سلسلہ بھی وقتی طور پر رک گیا ایسے میں ان کے گاؤں سے متصل ایک گاؤں تھا جو اب بھی آخوند گاؤں کہلاتا ہے۔ آخوند گاؤں قدیم شیعہ بستی تھی جبکہ ان کا سارا علاقہ نور بخشی تھا اور اس کے برعکس اس وقت وہ سارا گاؤں شیعہ تھا اس گاؤں کے ایک عالم دین مولانا حسین کے پاس انھوں نے دوبارہ تعلیم شروع کی اور صرف میر وغیرہ بھی وہیں پڑھی ان کے استاد اخوند حسین نے مقامی طور تعلیم حاصل کی تھی اس کے بعد علامہ سید احمد موسوی (جو کہ نجف کے فارغ التحصیل تھے) کے پاس وہ پڑھتے رہے اور ان سے خاطر خواہ تعلیم حاصل کی یہ مولانا صاحب ان کے گاؤں کی دوسری جانب واقع قریبی گاؤں میں رہتے تھے چنانچہ شرح لمعہ تک تعلیم انھوں نے علامہ سید احمد موسوی رحمۃ اللہ علیہ ہی سے حاصل کی [۳۶]۔

عالم مسافرت اور حصول علم

بلتستان سے باہر جانے اور مزید تعلیم کے لیے اداروں کی تلاش علامہ صاحب کا ذاتی فیصلہ تھا اور کسی نے انھیں یہ سوچ نہیں دی تھی کہ انھیں تعلیم کے لیے بلتستان سے باہر جانا چاہیے چنانچہ وہ از خود حصول علم کا شوق لیئے 1960ء میں بلتستان سے چلے تاہم تعلیمی اداروں کی بابت ضروری معلومات نہ ہونے کے باعث کراچی کا چکر لگا کر واپس بلتستان آ گئے اور حصول تعلیم کے لیے کوئی راہ نہ نکال سکے یہاں تک کہ پھر تین سال بعد یعنی 1963ء میں دوبارہ کراچی آئے اور حیدر آباد سندھ کے مدرسہ مشارع العلوم میں داخلہ لیا اس وقت وہاں مولانا ثمر حسن زیدی صاحب مدرسے کے پرنسپل تھے اور مولانا منظور حسین صاحب ان کے ادبیات کے استاد تھے مولانا ثمر حسن زیدی اور مولانا منظور حسین رحمۃ اللہ علیہم دونوں ہی ان کے پسندیدہ استاد تھے۔ مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ میں علامہ صاحب نے ایک سال گذارا۔ ابتدا میں انھیں اردو اچھی طرح نہیں آتی تھی لیکن جب وہ حیدر آباد میں رہے تو وہاں کیونکہ اردو بولنے کا رواج تھا اور مولانا ثمر حسن زیدی و مولانا منظور حسین، ان دونوں کی مادری زبان بھی اردو تھی اگرچہ وہاں سندھی طالب علم بھی تھے تاہم اردو کا غلبہ تھا اس لیے وہاں رہ کر انھوں نے بھی اردو سیکھ لی۔ مدرسہ مشارع العلوم سندھ میں شرح لمعہ سے نیچے تک تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ انھیں بھی وہاں ایک سال تک شرح لمعہ سے نیچے تعلیم دی جاتی رہی لہٰذا انھیں مزید تعلیم کے حصول کی خاطر ایک سال بعد ہی یہ مدرسہ چھوڑنا پڑا البتہ عربی ادب میں وہاں پڑھائی جانے والی کتب اور اردو لکھنے بولنے کی مشق نے انھیں آئندہ زندگی میں بہت فائدہ پہنچایا۔

اس زمانے میں مدرسہ مشارع العلوم حیدر آباد سندھ ایک باقاعدہ مدرسہ تھا جس میں طلباء کو تمام سہولتیں میسر تھیں تاہم علامہ صاحب نے حصول علم کے لیے کیونکہ کبھی بھی سہولیات کی پرواہ نہیں کی لہٰذا اس باسہولت مدرسے کو چھوڑنے کی وجہ بھی محض یہ بنی کہ وہاں شرح لمعہ سے نیچے تک کی تعلیم تھی جبکہ وہ شرح لمعہ پہلے ہی سے پڑھ چکے تھے چنانچہ علامہ صاحب نے ایک سال بعد ہی مدرسہ مشارع العلوم چھوڑ دیا جبکہ ان دنوں خوشاب میں مولانا محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ (آف سدھو پورہ) دارالعلوم جعفریہ خوشاب کے پرنسپل تھے علامہ صاحب نے جب ان کا نام سنا تو وہ ان کے پاس دارالعلوم خوشاب آگئے۔ علامہ صاحب نے اس مدرسہ میں سال سوا سال گزارا پھر انھیں معلوم ہوا کہ جامعۃ المنتظر لاہور میں حصول تعلیم کے بہتر مواقع ہیں چنانچہ وہ لاہور آگئے اور جامعۃ المنتظر میں مولانا حسین بخش جاڑا صاحب مرحوم اور مولانا سید صفدر حسین مرحوم سے تعلیم حاصل کی۔

نجف اشرف روانگی

آپ پوری یکسوئی کے ساتھ لاہور میں زیر تعلیم تھے کہ یکایک ان کے دل میں ایک روشنی سی اتری اور چشم تصور میں انھیں حوزہ علمیہ نجف اشرف جگمگاتا دکھائی دینے لگا۔ علامہ صاحب کے والد صاحب تو اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے ایسے میں انہیں حصول علم کے لئے بہتر تعلیمی ادارے بتانے اور بہتر مستقبل کی جانب راہنمائی کرنے والا کوئی بھی نہ تھا یہاں تک کہ کسی نے نہ شوق دلایا اور نہ ہی کسی نے کوئی وسائل فراہم کئے بس بے سرو سامانی کے عالم میں وہ جگہ جگہ خود قیام کرتے تھے اور خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ خود کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کا اس وقت نجف اشرف جانے کا فیصلہ بروقت تھا چنانچہ انھوں نے جب لاہور سے نجف جانے کا ارادہ کیا تو ایک بار پھر کراچی میں اپنے چچا کے پاس پہنچے اس وقت ان کے چچا کے مالی حالات پورا کرایہ دینے کے تو نہ تھے البتہ انہوں نے تھوڑا سا کرایہ دے دیا جسے لے کر خدا کے سہارے علامہ صاحب اور ان کی اہلیہ کسی نہ کسی طرح نجف اشرف پہنچ ہی گئے۔

نجف اشرف میں قیام

نجف پہنچنے کے بعد حوزہ میں داخلے کا مسئلہ درپیش آیا وہاں ان دنوں لاہور کے مولانا صادق علی مرحوم، آیت اللہ حکیم رحمۃ اللہ علیہ کے دفتر میں کام کرتے تھے وہ ان کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان سے آئے ہیں اگرچہ وہاں امتحان لے کر شہریہ دیا جاتا تھا تاہم کیونکہ علامہ صاحب مکاسب پڑھتے تھے اس لیے ان کا دو دینار یعنی (تقریباً) چالیس روپے شہریہ لگا دیا گیا۔

حوزہ علمیہ نجف میں ان دنوں زیادہ تر ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران کے طلباء ہوتے تھے جن میں ایرانی طلباء کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی اور زیادہ تر اساتذہ بھی ایرانی تھے، صرف آیت اللہ حکیم عراقی مجتہد تھے اور وہی مرجع تقلید تھے وگرنہ تمام اساتذہ بھی عموماً ایرانی ہی تھے جو فارسی میں پڑھاتے تھے۔ جب علامہ صاحب نے درسی کتب ختم کرلیں تو اس کے بعد آیت اللہ خوئی کے درس خارج میں شرکت کرنے لگے آیت اللہ خوئی عربی میں درس خارج دیتے تھے، جبکہ وہاں عرب طلباء بھی ہوتے تھے اور ایرانی بھی اور اردو بولنے والے بھی، پھر آیت اللہ سید باقر الصدر نے بھی درس خارج شروع کیا تو ان کے درس میں بھی علامہ صاحب جاتے تھے ان دنوں آیت اللہ خوئی کا فقہ کا درس ہوتا تھا اور آیت اللہ باقر الصدر کا اصول کا درس ہوتا تھا۔

عربی کتاب کی تصنیف

دوران تعلیم آپ نے بعنوان ”النہج السوی فی معنی مولیٰ والولی“ عربی زبان میں ایک اہم کتاب لکھی۔ اس کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی تقریظ نامور عالم دین جناب بزرگ طہرانی نے لکھی جبکہ نجف اشرف کے اساتذہ و اہل فکر عربی دان طبقے میں اس کو بے حد پذیرائی ملی۔ نجف اشرف سے واپسی

علامہ صاحب نجف اشرف میں پوری یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ خرمن علم سے خوشہ چینی کر رہے تھے کہ یکایک عراق کے اندرونی حالات نے پلٹا کھایا اور صدام ملعون نے دینی مراکز پر شب خون مارنا روز کا معمول بنا لیا ایسے میں سلسلہ درس و تدریس رک گیا اور حوزہ علمیہ میں معمولات زندگی اجیرن بنا دیے گئے۔ چنانچہ بادل نخواستہ علامہ صاحب کو حوزہ علمیہ نجف اشرف کو خیرباد کہہ کر اسلام آباد آنا پڑا۔

اسلام آباد میں دینی مدرسے کا قیام

جب وہ پاکستان تشریف لائے تو انھیں اسلام آباد میں ایک مؤثر دینی ادارے کے قیام کی ضرورت شدت سے محسوس ہوئی۔ اس وقت ایسا کوئی دینی ادارہ بطور آئیڈئل ان کے ذہن میں نہیں تھا کہ وہ اسے سامنے رکھ کر کام کر سکتے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی حالت دوسروں سے بالکل مختلف تھی۔ مثلاً مولانا صفدر حسین صاحب قبلہ نے لاہور میں کام کیا تو جامعۃ المنتظر میں وہ برسوں سے پڑھا رہے تھے اور جامعۃ المنتظر ایک مضبوط ادارے کے طور پر پہلے سے قائم تھا یعنی اس کے لیے وسائل موجود تھے اور وہاں پڑھنے والے خود بھی مدرس بنے اور وہ آگے بڑھے وہاں ان کی جان پہچان کا ماحول تھا جبکہ علامہ صاحب کا حال ایسا نہیں تھا۔ وہ یہاں پر قطعی اجنبی تھے اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ وہ اس علاقے کے بھی نہیں ہیں اور ان کے علاقے کے جو لوگ انھیں جاننے والے تھے وہ مالی اعتبار سے آسودہ نہ تھے لہذا سوائے خدا کے انھیں کسی کا کوئی آسرا نہ تھا پس ان کی یہ حالت لمبے عرصے تک رہی یہاں تک کہ خدا کے فضل و کرم سے وہ اسلام آباد میں دینی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ عالم بے سرو سامانی میں آغاز کارِ خیر

علامہ صاحب کو وہ دن نہیں بھولے کہ جب اسلام آباد میں مدرسے کے لیے جگہ تو الاٹ ہو گئی تھی لیکن اس خالی جگہ پر اس وقت کوئی قابل ذکر عمارت وغیرہ نہیں تھی، ایسے میں علامہ صاحب نے اسی ویرانے میں ایک چھپر ڈالا اور چند طالب علموں کو لے کر بیٹھ گئے یوں سمجھئے کہ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں انھوں نے طلباء کو پڑھانا شروع کیا ایسے میں عراق سے ایک صاحب ان کا پتہ پوچھتے پوچھتے ان تک پہنچ گئے جبکہ وہ انہیں پہچانتے تک نہ تھے وہ اس وقت ان کا حال دیکھ کر بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ بھلا اس بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ بنانے کی کیا پڑی تھی؟ علامہ صاحب نے کہا کہ یقیناً یہ بے سرو سامانی باعث ندامت ہے لیکن ہمیں اسی ندامت کے ساتھ کام کرنا ہے اس لیے کہ ہمیں یہ کام تو بہرحال کرنا ہے چاہے وسائل ہوں یا نہ ہوں۔ آج بھی علامہ صاحب اپنے ارادت مندوں سے اکثر یہی فرماتے ہیں کہ جب انسان کرنے پر آتا ہے تو اس کے لیے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے البتہ ان کا قطعاً دعویٰ نہیں کہ اب بھی انھوں نے کچھ کیا ہے بلکہ ان کی یہ حسرت ہے کہ کاش انھوں نے کچھ کیا ہوتا۔

تصنیف و تالیف کے مراحل

علامہ صاحب نے انہی دنوں ایک کتاب ”محنت کا اسلامی تصور“ لکھی اس کے علاوہ کچھ عربی کتابوں کے اردو ترجمے بھی کئے آپ نے پچاس سال کی عمر میں قرآن کی تفسیر کو شروع کیا پھر تفسیر روک کر ترجمہ اور حاشیہ لکھنا شروع کیا۔ ابتداء میں ان کا یہ خیال تھا کہ پہلے تفسیر ختم کریں گے اور اس کے بعد خلاصہ و حاشیہ بنانا شروع کریں گے لیکن جب ایسا کیا تو اس کام کو خاصا طولانی پایا چنانچہ انہوں نے ترجمہ قرآن کا آغاز کیا۔ اس وقت اس کام میں انہیں قدم قدم پر یہ احساس ہوا کہ کاش ان کے پاس وسائل کشادہ اور کام کرنے کی سازگار فضا ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا اس لیے کہ موجودہ وسائل اور ماحول میں ترجمے کا حق ادا نہیں ہو رہا تھا۔ انہوں نے دوران ترجمہ نجانے کتنی مرتبہ اعادۂ نظر کیا اس دوران انہوں نے دیگر تراجم کا بھی بغور جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ کچھ لوگوں نے عجلت سے کام لیا اور پوری طرح سے محنت نہیں کی اس کے علاوہ انہوں نے جب یہ کام کیا تو پھر اندازہ ہوا کہ آدمی خواہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو پھر بھی اس قسم کے ہر کام کے لیے بہرحال حوصلہ وقت اور محنت درکار ہوتی ہے جبکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان میں اتنی قابلیت بھی نہیں تھی اور بالفرض اگر قابلیت ہوتی بھی تو اس کام کے لیے جتنا وقت درکار تھا وہ میسر نہ تھا بہرحال ترجمہ کیا گیا اور اس پر کئی بار اعادہ نظر بھی ہوا جس سے بہت سی باتیں سامنے آگئیں خدا کا شکر ہے کہ اس کام کی انجام دہی میں وہ کامیاب رہے۔

علامہ شیخ محسن علی نجفی قبلہ کے حلقہ ارادت میں ایک صاحب علم شخصیت چودھری منظور حسین کی بھی تھی جنہوں نے آپ کے ترجمہ قرآن کی تاریخ تکمیل کچھ یوں نکالی

حوالہ جات

الگو:حوالہ جات زمرہ:شخصیات زمرہ:پاکستان

حوالہ جات

الگو:حوالہ جات زمرہ:شخصیات زمرہ:پاکستان شیخ محسن کرد از تائید رب ترجمہ ہم حاشیہ قرآن رقم سر سید احمد خان احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل، مصلحغاور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔

سوانح عمری

1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی بغاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔

تعلیم

1859ء میں سر سید نے مرادآباد میں گلشن اسکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864ء میں سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی۔ 1875ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج جو جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو سلطنت برطانیہ سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اردو کو بطور زبانِ رابطۂ عامہ اپنانے کی کوشش کی۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا

سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دوقومی نظریے کو سترہویں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف ثانی کے سرمنڈھ دیتے ہیں۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہوسکتی ہے۔ سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں

ابتدائی زندگی

سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد ترک برلاس قبیلے سے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔

سر سید احمد خان نے دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ ورژن کی ضرورت سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں انھوں نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں انھوں نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں بچائیں۔ انھوں نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد انھوں کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

1857ء میں انھوں کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور ان کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں ان کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں وہ بنارس میں تعینات ہوئے۔

1877ء میں ان کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر سید کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے ان کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔[12] 1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اور ادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اور اپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔

1869ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی

سرسید برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی وہ ایک زبردست مفکر، بلند خیال مصنف اور جلیل القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُن کی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس ،خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جِدوجُہد کرتے رہے۔"[14] ” جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں “ سر سید بادشاہِ اکبر شاہ کے دربار میں

سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انہوں نے دربار کو جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سرسید کہتے تھے کہ:[15]

" ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اُٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اُٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اُٹھ کر ہوادار پر سوار ہوچکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے، پوچھا کہ " تمہارا بیٹا ہے؟" انہوں نے کہا، "حضور کا خانہ زاد! " بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترا بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترا پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتئ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ " دیر کیوں کی؟" حاضرین نے کہا، " عرض کرو کہ تقصیر ہوئی " مگر میں چپکا کھڑا رہا۔ جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ " سو گیا تھا! " بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، " بہت سویرے اُٹھا کرو! " اور ہاتھ چھوڑ دیے۔ لوگوں نے کہا، " آداب بجا لاؤ! " میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اُٹھ کر خاصی ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے۔ ۔۔۔ اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہوگی۔"[16] مرزا غالب سے تجدیدِ مراسم اکبر نامہ سے اکبر کا دربار

1855 ء میں سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف "آئین اکبری" کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھا۔ اس میں انہوں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔ مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کر دیا۔

دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصداً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔[17]

سر سید کہتے تھے کہ :

" جب میں مرادآباد میں تھا، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں۔ میں فوراً سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔"

ظاہراً جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لیے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کے ہاتھ میں تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے، سرسید نے کہا:

" آپ خاطر جمع رکھیے، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔"

مرزا صاحب نے کہا، " بھئی مجھے دکھا دو، تم نے کہاں رکھی ہے؟" انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، " بھئی! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے، شاید اسی لیے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے:

واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند

سرسید ہنس کے چُپ ہو رہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہو گئی، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے۔[16] تصانیف تفصیلی مضمون کے لیے مقالات سر سید احمد خان ملاحظہ کریں۔

وا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔ سر سید کہتے تھے کہ: "قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جا سکتے تھے، ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اُوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربا اتارتا تھا۔ جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتا تھا تو مولانا صہبائی فرطِ محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا۔" رسالہ نمیقہ

سر سید کی تصانیف کی فہرست میں جو ایک رسالہ موسوم بہ " نمیقہ" بہ زبانِ فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت سر سید کہتے تھے کہ:

"میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا، انہوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ اہلِ حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب× کو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔" تاریخِ ضلع بجنور

سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ:

"گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے۔"

ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لیے صدر بورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔ اسبابِ بغاوتِ ہند

انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کیے ہیں اور جو اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے، ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔ اس کی پانچ سو جلدیں چَھپ کر ان کے پاس پہنچ گئیں۔ جب سر سید نے ان کو پارلیمنٹ اور گورنمنٹ انڈیا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آئے اور ماسٹر رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکر داس جو اس وقت مراد آباد میں منصف اور سر سید کے نہایت دوست تھے، انہوں نے کہا کہ ان تمام کتابوں کو جلا دو اور ہرگز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ سر سید نے کہا:

"میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا ہوں۔ پس اگر ایک ایسے کام پر جو سلطنت اور رعایا دونوں کے لیے مفید ہو، مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔"

رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر خاموش ہو رہے۔

لارڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سر سید بھی اس دربار میں بلائے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبابِ بغاوت پر وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز علاحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیالات ظاہر کرتے۔

سر سید نے کہا:

"میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلدیں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلدیں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی ہے اور کچھ کم پانچ سو جلدیں ولایت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے۔ میں جانتا تھا کہ آج کل بسبب غیظ و غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لیے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے ہیں، اس لیے جس طرح میں نے اس کو ہندوستان میں شایع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھایا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے۔ اگر اس کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جائے تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا۔"

مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انہوں نے کئی بار سر سید سے پُوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں شائع نہیں ہوا؟ جب ان کا اطمینان ہو گیا پھر انہوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سر سید کے دوست اور حامی و مددگار رہے۔

انہوں نے زبانی مجھ سے اس طرح بیان کیا کہ

"ولایت میں سر جان۔ کے۔ فارن سیکرٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ ملاقات ہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کاغذات کا موجود تھا۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ، " کیا تم جانتے ہو، یہ کیا چیز ہے؟" یہ تمہارا رسالہ اسبابِ بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کانفیڈنشل تھے اس لیے وہ نہ چھپے اور نہ ان کا ولایت کے کسی اخبار میں تذکرہ ہوا۔" خطباتِ احمدیہ

سر سید کہتے تھے کہ

"1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ مسیحیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو مسیحی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔" تفسیر القرآن

قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد، جیسا کہ عموماً خیال کیا جاتا ہے، یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام طور پر تمام اہلِ اسلام کی نظر سے گزریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا کہ، "میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سر سید نے ان سے کہا کہ

"آپ کو خدا کی وحدانیت اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا؟" انہوں نے کہا، "الحمد للہ!"

پھر کہا،

"آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے، سب پر یقین رکھتے ہوں گے؟"

انہوں نے کہا، "الحمد للہ!"

سر سید نے کہا،

"بس تو میری تفسیر آپ کے لیے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مذکورہ بالا عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔"

سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ "اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!"

   رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت، تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔

تعلیمی خدمات

سرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے سائنس٬ جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔

1859ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے علاوہ انگریزی زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔

1875ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔

1863ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔ سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی ۔

1886ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف شخصیات نے اپنے اپنے علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ لاہور میں اسلامیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام، پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔[18] مسلمانوں کی بھلائی کی فکر

بمقام بنارس "کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان" منعقد ہو گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لیے کم پڑھتے ہیں، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔

نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ، "جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں، میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ: "اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے جاتے ہیں اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔"

پھر آپ ہی کہنے لگے کہ: "جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اُدھیڑ بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جُوں چلتی ہے یا نہیں۔"

نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔ “ [19] مدرسہ کے لیے دوروں کے اخراجات

مدرسہ کے لیے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے۔۔۔ ہزا رہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور رفیق بھی، جو ان کے ہمراہ جاتے تھے، اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے اُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ کیجئے۔“ سر سید نے کہا، "روپیہ نہیں ہے۔" اُن کے منہ سے نکلا کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا سفرِ خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے۔“ سر سید نے کہا:

"میں اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔" [19] کالج کا قیام، قومی احساسات کی ترجمانی

74ء میں جبکہ سر سید پہلی بار چندہ کے لیے لاہور گئے ہیں اس وقت انہوں نے راقم کے سامنے بابو نوین چندر سے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا تھا کہ:

"صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لیے ان ہی کے رُوپے سے قائم کیا جاتا ہے، ایک تو مسلمانوں میں اور دوسری طرف ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہو گیا ہے۔"

اور پھر خان بہادر برکت علی خاں سے پُوچھا کہ: "کیوں حضرت اگر یہ قومی کالج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی جوشِ محبت کے ساتھ کرتے؟“ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ، "ہرگز نہیں۔“

اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے۔[19] کالج فاؤنڈرز ڈے کی بجائے فاؤنڈیشن ڈے

ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی ولایت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی مدرسہ کی سالگرہ کا دن) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور طالبعلم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کریں۔ سر سید نے اس کو بھی منظور نہیں کیا اور یہ کہا کہ: "ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے۔ وہاں ایک ایک شخص لاکھوں کروڑوں روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سِوا اس کے کہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے، اس لیے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر ہونا چاہیے۔“ چنانچہ اسی تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی۔[19] مدرسہ کے علاوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار

سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر لازم کر لیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ علاقہ نہ رکھتا ہو۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفاہِ عام کے کام میں ان کو شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا رکن بنانا چاہا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ: "میں صلاح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا، اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے کچھ انکار نہیں۔“ [19] قومی بھلائی کے لیے لاٹری کا جواز

صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لیے سر سید نے نئے نئے طریقوں سے رُوپیہ وصُول کیا جس کو سن کر لوگ تعجب کریں گے۔ ایک دفعہ تیس ہزار کی لاٹری ڈالی۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی، مگر سر سید نے کچھ پروا نہ کی اور بعد تقسیم انعامات کے بیس ہزار کے قریب بچ رہا۔

لطیفہ: جن دنوں میں لاٹری کی تجویز درپیش تھی، دو رئیس سر سید کے پاس آئے اور لاٹری کے ناجائز ہونے کی گفتگو شروع کی۔ سر سید نے کہا: "جہاں ہم اپنی ذات کے لیے ہزاروں ناجائز کام کرتے ہیں وہاں قوم کی بھلائی کے لیے بھی ایک ناجائز کام سہی۔" [19] سائنٹفک سوسائٹی (غازی پور) تفصیلی مضمون کے لیے علی گڑھ کی سائنسی سوسائٹی ملاحظہ کریں۔

سر سید نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سید کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کر لیا ہے اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جا سکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ و برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کر دی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا مقصد ہی اپنے ہم وطنوں کو جدید علوم سے روشناس کرانا تھا۔[20] اس سوسائٹی کے جلسوں میں جس میں نئے نئے سائنسی مضامین پر لیکچر ہوتے اور آلات کے ذریعہ تجربے بھی کیے جاتے، کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستانیوں کو بتایا جا سکے کہ بنا جدید علوم خاص طور پرسائنس کے میدان میں ترقی نہیں کی جا سکتی اور اسی لیے سائنٹفک سوسائٹی نے جن دو درجن کتابوں کا ترجمہ کرایا ان میں چند کو چھوڑ کر زیادہ تر ریاضی اورسائنس سے متعلق تھیں۔ سر سید احمد خاں کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جا رہا ہے اور جو تعلیم حاصل کر رہا ہے وہی راستا اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے؟ اس لیے وہ خود انگلستان گئے، وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا، تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا۔[20] انہوں نے کہا:[21] ” میں نے صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو، دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے کوئی عمدہ چیز دیکھی، جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جب کبھی علمی مجلسیں دیکھیں، جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے، جب کبھی عمدہ پھول دیکھے، جب کبھی کھیل کود، عیش و آرام کے جلسے دیکھے، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں، جہاں تک ہو سکا ہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تدبیروں پر غور کیا سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کہ قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرسہ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنا آ پ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی۔ “ [22] علی گڑھ تحریک تفصیلی مضمون کے لیے علی گڑھ تحریک ملاحظہ کریں۔

سرسید نے اس تحریک کا آغاز جنگ آزادی سے ایک طرح سے پہلے سے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ لیکن جنگ آزادی نے سرسید کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان ہی واقعات نے علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ مثلا راجا رم موہن رائے کی تحریک نے بھی ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ لیکن سب سے بڑا واقعہ سکوت دلی کا ہی ہے۔ اس واقعے نے ان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اگرچہ اس واقعے کا اولین نتیجہ یا رد عمل تو مایوسی، پژمردگی اور ناامیدی تھا تاہم اس واقعے نے ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنا نچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔[23] ابتداءمیں سرسیداحمد خان نے صرف ایسے منصوبوں کی تکمیل کی جو مسلمانوں کے لیے مذہبی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت سر سید احمد خان قومی سطح پر سوچتے تھے۔ اور ہندوئوں کو کسی قسم کی گزند پہنچانے سے گریز کرتے تھے۔ لیکن ورینکلر یونیورسٹی کی تجویز پر ہندوؤں نے جس متعصبانہ رویے کا اظہار کیا، اس واقعے نے سرسید احمد خان کی فکری جہت کو تبدیل کر دیا۔ اس واقعے کے بعد اب ان کے دل میں مسلمانوں کی الگ قومی حیثیت کا خیال جاگزیں ہو گیا تھااور وہ صرف مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کے ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔ 1869ء میں سرسید احمد خان کوانگلستان جانے کا موقع ملا اس یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات سپکٹیٹر ،ثيثلر اور سے متاثر ہو کر۔ سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کااخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجراءاس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔ علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی۔

سر سید احمد خاں نے 1875ء میں ”محمڈن اینگلو اورینٹل کالج“ کی داغ بیل ڈالی جسے 1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملا اور آج اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا: ” میں ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کہ اس کے ذریعہ ان کو اپنے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہو جائے، اگرگورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہو تو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً و کرہاً ہم کو دلا دے گی۔ “

ا س تحریک کے دیگر قائدین میں سے محسن الملک، وقار الملک، مولانا شبلی نعمانی، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا چراغ علی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں نے وہ کا رہائے نمایاں انجام دیے کہ آنے والی مسلم نسلیں ان کی جتین بھی قدر کریں کم ہے۔ سرسید اور ان کے ساتھیوں نے علی گڑھ تحریک کو ایک ہمہ گیر اور جامع تحریک بنا دیا۔ یوں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کا آغازہوا۔ تحریک علی گڑھ کا آغاز

1857ءکی جنگ آزادی کی تمام تر ذمہ داری انگریزوں نے مسلمانوں پر ڈال دی تھی اور انہیں سزا دینے کے لیے ان کے خلاف نہایت ظالمانہ اقدامات کیے گئے ہندو جو جنگ آزادی میں برابر کے شریک تھے۔ انہیں بالکل کچھ نہ کہا گیا۔ انگریز کی اس پالیسی کی وجہ سے مسلمان معاشرتی طور پر تباہ ہو گئے اور ان معاشی حالت ابتر ہو گئی انگریزوں نے فارسی کی بجائے جو مسلمانوں کی زبان تھی۔ انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا۔ مسلمان کسی صورت بھی انگریزی زبان سیکھنے پر رضا مند نہ تھے، دوسری طرف ہندوؤں نے فوری طور پر انگریزی زبان کو اپنا لیا تھا اور اس طرح تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے۔

ان اقدامات نے مسلمانوں کی معاشی اور معاشرتی حالت کو بہت متاثر کیا تھا مسلمان جو کبھی ہندوستان کے حکمران تھے، ادب ادنیٰ درجے کے شہری تھے۔ جنہیں ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔

سرسید احمد خان مسلمانوں کی ابتر حالت اور معاشی بدحالی کو دیکھ کر بہت کڑھتے تھے آپ مسلمانوں کو زندگی کے باعزت مقام پر دیکھنا چاہتے تھے اور انہیں ان کا جائز مقام دلانے کے خواہاں تھے۔ آپ نے مسلمانوں کی راہنمائی کا ارادہ کیا اور انہیں زندگی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی تلقین کی۔

سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی زیادہ ذمہ داری خود مسلمانوں کے انتہا پسند رویے کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان کے مسلمان انگریز کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور انگریزی تعلیم سیکھنا اپنے مذہب کے خلاف تصور کرتے تھے۔ مسلمانوں کے اس رویے کی وجہ سے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان میں ایک خلیج حائل رہی، سرسید احمد خان نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان انگریزی تعلیم اور انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ تبدیل نہ کریں گے ان کی حالت بہتر نہ ہو سکے گی اور وہ تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہندووٕں سے پیچھے رہیں گے۔ آپ نے مسلمانوں کو یہ تلقین کی کہ وہ انگریزوں کے متعلق اپنا رویہ بدلیں کیونکہ انگریز ملک کے حکمران ہیں۔ آپ نے اپنی تحریک کا آغاز مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان میں غلط فہمی کی فضا کو ختم کرنے سے کیا۔ تحریک علی گڑھ کا تعلیمی پہلو

سرسید احمد خان یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا انگریزی علوم سے بے بہرہ ہونا ہے۔ آپ یہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی زبان اور تہذیب سے نفرت کا رویہ ترک کر کے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ دوسری طرف ہندو جدید تعلیم حاصل کر کے تعلیمی میدان میں مسلمانوں سے آگے نکل گئے تھے اور اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لی تھیں۔ آپ نے مسلمانوں کو اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے کی تلقین کی اور انہیں یہ باور کرایا کہ جب تک وہ اپنا انتہا پسند رویہ ترک کر کے انگریزی علوم نہیں سیکھیں گے وہ کسی طرح بھی اپنی موجودہ بدحالی پر قابو نہ پا سکیں گے۔ آپ نے قرآن پاک کے حوالے دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ انگریزی علوم سیکھنا اسلام کے خلاف نہیں ہے آپ نے انتہا پسند عناصر سے مسلمانوں کو خبردار کیا۔ مسلمانوں کی تعلیمی بہتری کے لیے آپ نے متعدد اقدامات کیے۔

1859ء میں مراد آباد کے مقام پر ایک مدرسہ قائم کیا گیا جہاں فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس مدرسے میں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی۔ 1863ء میں غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی گئی جس کا مقصد انگریزی علوم کو اردو اور فارسی میں ترجمہ کرنا تھا تاکہ ہندوستانی عوام جدید علوم سے استفادہ کرسکیں۔ 1866ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک اخبارجاری کیا گیا جسے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کہا جاتا ہے یہ اخبار اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع کیا جاتا تھا۔ اس اخبار کے ذریعے انگریزوں کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔

1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے۔ وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا۔ آپ ان یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے اور یہ ارادہ کیا کہ ہندوستان جا کر ان یونیورسٹیوں کی طرز کا ایک کالج قائم کریں گے۔

آپ انگلستان سے 1870ء میں واپس آئے اور ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشان دہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔

[24] علی گڑھ کالج کا قیام تفصیلی مضمون کے لیے محمدن اینگلو اورینٹل کالج ملاحظہ کریں۔

انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک کالج کے قیام کے لیے کام شروع کیا۔ اس کمیٹی کو محمڈن کالج کمیٹی کہا جاتا ہے۔ کمیٹی نے ایک فنڈ کمیٹی قائم کی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کے لیے چندہ اکٹھا کیا۔ حکومت سے بھی امداد کی درخواست کی گئی۔

1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔ یہ کالج رہائشی کالج تھا اور یہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلا دیں۔ یہ کالج سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بن گیا یہاں سے فارغ التحصیل طلباءنے آگے چل کر تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔[25] محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس

سرسید احمد خان نے 27 دسمبر 1886ء کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیاد رکھی اس کانفرنس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات کرنا تھا۔ اس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں ہوا۔ کانفرنس نے تعلیم کی اشاعت کے لیے مختلف مقامات پر جلسے کیے۔ ہر شہر اور قصبے میں اس کی ذیلی کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ اس کانفرنس کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر تعلیمی جذبہ اور شوق پیدا ہوا۔ اس کانفرنس نے ملک کے ہر حصے میں اجلاس منعقد کیے اور مسلمانوں کو جدید تعلیم کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ اس کانفرنس کے سربراہوں میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا شبلی اور مولانا حالی جیسی ہستیاں شامل تھیں۔

محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ مختلف شہروں میں ہوتا تھا۔ جہاں مقامی مسلمانوں سے مل کر تعلیمی ترقی کے اقدامات پر غور کیا جاتا تھا اور مسلمانوں کے تجارتی، تعلیمی، صنعتی اور زراعتی مسائل پر غور کیا جاتا تھا۔[26]

آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام بھی 1906ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ڈھاکہ کے مقام پر عمل میں آیا۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر برصغیر کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خاں کی دعوت پر ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کی سیاسی راہنمائی کے لیے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جائے۔ یاد رہے کہ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے کہ مسلمان ایک سیاسی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔ڈھاکہ اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ ننواب محسن الملک، مولانامحمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، حکیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خاں سمیت بہت سے اہم مسلم اکابرین اجلاس میں موجود تھے۔ مسلم لیگ کا پہلا صدر سر آغا خان کو چنا گیا۔ مرکزی دفتر علی گڑھ میں قائم ہوا۔ تمام صوبوں میں شاخیں بنائی گئیں۔ برطانیہ میں لندن برانچ کا صدر سید امیر علی کو بنایا گیا۔ اردو ہندی تنازع تفصیلی مضمون کے لیے اردو ہندی تنازع ملاحظہ کریں۔

1857 ءکی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کے پیش نظر سر سید احمد خاں نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ سیاسی بیداری اور عام ہوتے ہوئے شعور کے نتیجہ میں دونوں قوموں کا اکٹھا رہنا مشکل ہے۔ مولانا حالی نے حیات جاوید میں سرسید کے حوالے سے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے ان کے خیال میں سرسید احمد نے 1867ء میں ہی اردو ہندی تنازع کے پیش نظر مسلمانوں اور ہندوؤں کے علاحدہ ہوجانے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ انہوں نے اس کا ذکر ایک برطانوی افسر سے کیا تھا کہ دونوں قوموں میں لسانی خلیج وسیع ترہوتی جا رہی ہے۔ اور ایک متحدہ قومیت کے طور پر ان کے مل کے رہنے کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ اور آگے چل کر مسلمانوں ار ہندوؤں کی راہیں جدا ہوجائیں گی۔[27]

اردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور بہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان بن گئی۔اردو کئی زبانوں کے امتزاج سے معرض وجود میں آئی تھی۔ اس لیے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت کام کیا ہے سرسید احمد خان نے بھی اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں کام کیا لیکن چونکہ ہندو فطری طور پر اس چیز سے نفرت کرتا تھا جس سے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ثقافت وابستہ ہو لہٰذا ہندووٕں نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دی۔

1867ء میں بنارس کے چیدہ چیدہ ہندو رہنماوٕں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری عدالتوں اور دفاتر میں اردو اور فارسی کو یکسر ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ ہندووٕں کے اس مطالبے سے سرسید احمد خان پر ہندووٕں کا تعصب عیاں ہو گیا اور انہیں ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں اپنے خیالات بدلنے پڑے اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ :

٫٫ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اب ہندو اور مسلمان بطور ایک قوم کے کبھی نہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے۔٬٬

سرسید احمد خان نے ہندوؤں کی اردو زبان کی مخالفت کے پیش نظر اردو کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کا ارادہ کیا 1867ء میں سر سید نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ” دار الترجمہ“ قائم کیا جائے تاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے کتابوں کا اردو ترجمہ کیا جا سکے ہندوؤں نے سرسید احمد خان کے اس مطالبے کی شدت سے مخالفت کی لیکن آپ نے تحفظ اردو کے لیے ہندووٕں کا خوب مقابلہ کیا۔ آپ نے الٰہ آباد میں ایک تنظیم سنٹرل ایسوسی ایشن قائم کی اورسائنٹیفک سوسائٹی کے ذریعے اردو کی حفاظت کا بخوبی بندوبست کیا۔

ہندوؤں نےاردو کی مخالفت میں اپنی تحریک کو جاری رکھا۔1817ء میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر کیمبل نے اردو کو نصابی کتب سے خارج کرنے کا حکم دیا۔ ہندوؤں کی تحریک کی وجہ سے 1900ء میں یو پی کے بدنام زمانہ گورنر انٹونی میکڈانلڈ نے احکامات جاری کیے کہ دفاتر میں اردو کی بجائے ہندی کو بطور سرکاری زبان استعمال کیا جائے۔

اس حکم کے جاری ہونے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان پیدا ہوا۔ 13مئی 1900ء کو علی گڑھ میں نواب محسن الملک نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے اقدام پر سخت نکتہ چینی کی۔ نواب محسن الملک نے اردو ڈیفنس ایسوسی ایشن قائم کی جس کے تحت ملک میں مختلف مقامات پر اردو کی حمایت میں جلسے کیے گئے اور حکومت کے خلاف سخت غصے کا اظہار کیا گیا۔ اردو کی حفاظت کے لیے علی گڑھ کے طلبائ نے پرجوش مظاہرے کیے جس کی بنائ پر گونر میکڈانلڈ کی جانب سے نواب محسن الملک کو یہ دھمکی دی گئی کہ کالج کی سرکاری گرانٹ بند کر دی جائے گی۔

اردو کے خلاف تحریک میں کانگریس اپنی پوری قوت کے ساتھ شامل کار رہی اور اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے میں مسلمانوں پر ہندو ذہنیت پوری طرح آشکار ہو گئی۔ اس تحریک کے بعد مسلمانوں کو اپنے ثقافتی ورثے کا پوری طرح احساس ہوا اور قوم اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے متحد ہوئی۔

سرسیّد احمد خان نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ سیاسی خدمات

آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحای پر دین تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ رپ گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے۔ انہوں نے دونوں قوموں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی مسلسل کوششیں کیں۔ اپنے تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ بھرتی کیے اور ہندو طلبہ کو داخلے دیے ہندووں نے اردو کے مقابل ہندی کو سرکاری دفاتر کی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ 1857ء میں اردو ہندی تنازعے نے سرسید کو بد دِل کر دیا اور انہوں نے صرف اور صرف مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی تحریک کے ذریعے کام شروع کر دیا۔ زبان کا تنازع سرسید کی سوچ اور عمل کو بدل گیا۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی بنیادپر برصغیر کے سیاسی اور دیگر مسائل کے حل تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔[28]

سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ کی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سرسید احمد نے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی٬ اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔ ا نہو ں نے مسلمانوں کی علاحدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں کوسیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو 1885ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دوررکھا۔ بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہے:[29][30]

٫٫قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مرد پیر نے رکھی تھی٬٬۔[31] اردو ادب اور سرسید

اردو زبان پر سرسید کے احسانات کا ذکر کرتے ہوئے مولوی عبدالحق کہتا ہے:

”اس نے زبان (اردو) کو پستی سے نکالا، اندازِبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی، سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا، سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، جدید علوم و فنون کے ترجمے انگریزی سے کروائے، خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں۔ اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر، بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ بڑھایا ”تہذیب الاخلاق “ کے ذریعے اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا۔“

سرسید کے زمانے تک اردو کا سرمایہ صرف قصے کہانیاں، داستانوں، تذکروں، سوانح عمریوں اور مکاتیب کی شکل میں موجود تھا۔ سرسید تک پہنچتے پہنچتے اردو نثر کم از کم دو کروٹیں لے چکی تھی جس سے پرانی نثر نگاری میں خاصی تبدیلی آچکی تھی۔ خصوصاً غالب کے خطوط نثر پر کافی حد تک اثر انداز ہوئے اور اُن کی بدولت نثر میں مسجع و مقفٰی عبارت کی جگہ سادگی اور مدعا نگاری کو اختیار کیا گیا لیکن اس سلسلے کو صرف اور صرف سرسید نے آگے بڑھایا اور اردو نثر کو اس کا مقام دلایا۔ سرسید نے برطانوی ایما پر فارسی اور عربی کو اردو کے ذریعہ بے دخل کروا دیا تاکہ مسلمانان ہند اپنے ہزار سالہ علمی مواد اور خطے میں موجود دیگر مسلمانوں سے ربط کا واحد ذریعہ کھو بیٹھیں اور کوئی منظم شورش برطانوی نظام کے خلاف اٹھ کھڑی نہ ہو۔ ایسی تدابیر سے مسلمان سرکاری نوکریوں تک دین ایمان خراب کروا کر پہنچ ضرور جاتے تھے مگر آزادی کی نعمت مزید دور ہوتی جاتی تھی۔ جدید اردو نثر کے بانی

بقول مولانا شبلی نعمانی، ”اردو انشاءپردازی کا جو آج انداز ہے اُس کے جد امجد اور امام سرسید تھے“ سرسید احمد خان، ”اردو نثر “ کے بانی نہ سہی، البتہ ”جدید اُردو نثر“ کا بانی ضرور ہے۔ اس سے پہلے پائی جانی والی نثر میں فارسی زبان کی حد سے زیادہ آمیزش ہے۔ کسی نے فارسی تراکیب سے نثر کو مزین کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی نے قافیہ بندی کے زور پر نثر کو شاعری سے قریب ترلانے کی جدوجہد کی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں اردو نثر تکلف اور تصنع کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔ سرسید احمد خان پہلے ادیب ہے جس نے اردو نثر کی خوبصورتی پر توجہ دینے کی بجائے مطلب نویسی پر زور دیا ہے۔ اس کی نثر نویسی کا مقصد اپنی علمیت کا رعب جتانا نہیں۔ بلکہ اپنے خیالات و نظریات کو عوام تک پہنچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا۔ نہایت آسان نثر میں لکھا، تاکہ اسے عوام لوگ سمجھ سکیں اور یوں غالب کی تتبع میں اس نے جدید نثر کی ابتداءکی۔ رہنمائے قوم

سرسید نے مسلمانوں کی رہنمائی دستگیری اور اصلاح کا کام برطانوی اعانت سے اس وقت شروع کیا جب غدر کے بعد یہ قوم سیاسی بے بسی کا شکار تھی اور اس پر مایوسی طاری تھی۔ وہ بے یقینی کے عالم میں تھی اور اسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کی تہذیب اور تمدن ادبار کا شکار تھی۔ عزت نفس مجروح اور فاری البالی عنقا تھی۔ (سرسید اور ان کے جیسے حضرات کی معاونت سے بننے والی) حکمران قوم کا عتاب، ہندو کی مکاری اور خود مسلمان قوم کی نااہلی (کہ ایسے دین وایمان فروش پیدا کیے) اور احساس زیاں کی کمی ایسے عناصر تھے جن میں کسی قوم کا زندہ رہنا یا ترقی کی طرف بڑھنا معجزہ سے کم نہ تھا۔ سرسید رجائی فکر کے حامل ایک ایسے رہنما تھے جسے اس قوم کو موجودہ ادبار کے اندر بھی ترقی کرنے، آگے بڑھنے اور اپنا کھویا ہو امقام پانے کی لگن اور جوت نظر آئی۔ سرسید نے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اس قوم کی فلا ح و بہبود اور ترقی کے لیے ایک بھر پور اصلاحی تحریک کا آغاز کیا۔ اس منصوبہ بندی میں مسلمانوں کی تعلیمی، تمدنی، سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو ترقی اور فلاح کے نئے راستے پر ڈالنا تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قنوطیت کو ختم کر کے اعتماد او ر یقین پیدا کرنا تھا۔ مضمون نگاری

سرسید احمد خان کو اردو مضمون نگاری کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے ایک مغربی نثری صنف Essayکی طر ز پر اردو میں مضمون نگاری شروع کی۔ وہ بیکن، ڈرائڈن، ایڈیشن اور سٹیل جیسے مغربی مضمون نگاروں سے کافی حد تک متاثر تھے۔ انہوں نے بعض انگریزی انشائے ہ نگاروں کے مضامین کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے اپنے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں انگریز انشائیہ نگاروں کے اسلوب کو کافی حد تک اپنایا اور دوسروں کو بھی اس طر ز پر لکھنے کی ترغیب دی۔ سید صاحب کے سارے مضامین Essayکی حد میں داخل نہیں ہو سکتے، مگر مضامین کی کافی تعداد ایسی ہے جن کو اس صنف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً تہذیب الاخلاق کے کچھ مضامین تعصب، تعلیم و تربیت، کاہلی، اخلاق، ریا، مخالفت، خوشامد، بحث و تکرار، اپنی مدد آپ، عورتوں کے حقوق، ان سب مضامین میں ان کا اختصار قدر مشترک ہے۔ جو ایک باقاعدہ مضمون کا بنیادی وصف ہے۔ سرسید کا اسلوب

اس سے پہلے کہ ہم سرسید کے تصور اسلوب کے بارے میں لکھیں۔ اپنے اسلوب کے بارے میں سرسید کے قول کو نقل کرتے ہیں، ” ہم نے انشائیہ کا ایک ایسا طرز نکالا ہے جس میں ہر بات کو صاف صاف، جیسی کہ دل میں موجود ہو، منشیانہ تکلفات سے بچ کر، راست پیرایہ اور بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور لوگوں کو بھی تلقین کی ہے۔ دراصل سرسید احمد خان ”ادب برائے ادب“ کے قائل نہیں، بلکہ وہ ادب کو مقصدیت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ کسی خاص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے۔ بلکہ اپنی قو م کے سب افراد کے لیے لکھتے ہیں۔ جن کی وہ اصلاح کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سے قریب تر ہونے کے لیے انہوں نے تکلف اور تصنع کا طریقہ اپنانے سے گریز کیا اور سہل نگاری کو اپنا شعار بنایاہے۔ کیونکہ وہ مضمون نگاری میں اپنے دل کی بات دوسروں کے دل تک پہنچانے کے خواہاں ہیں۔ ان کی تحریر کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔ سادگی

سرسید احمد کی نثر سادہ، سہل اور آسان ہوتی ہے اور اسے پڑھتے ہوئے قاری کو کوئی الجھن محسوس نہیں کرتا۔ ذیل میں ان کے ایک مضمون ”دنیا بہ امید قائم ہے“ سے ایک اقتباس دیا جار ہا ہے۔ جو سادگی کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اس مضمون میں وہ خوشامد کے بارے میں کتنے آسان اور سادہ الفاظ میں بات کر رہے ہیں: ”جبکہ خوشامد کے اچھا لگنے کی بیماری انسان کو لگ جاتی ہے تو اس کے دل میں ایک ایسا مادہ پیدا ہو جاتا ہے جو ہمیشہ زہریلی باتوں کے زہر کو چوس لینے کی خواہش رکھتا ہے۔ جس طرح کہ خوش گلو گانے والے کی راگ اور خوش آئند با جے کی آواز انسان کے دل کو نرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح خوشامد بھی انسان کو ایسا پگھلا دیتی ہے کہ ہر ایک کانٹے کے چبھنے کی جگہ اس میں ہو جاتی ہے۔“ بے تکلفی اور بے ساختگی

سرسید احمد خان نہایت بے تکلفی سے بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ عام مضمون نگاروں کی طرح بات کو گھما پھرا کر بیان کرنے کے قائل نہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ان میں آمد ہے آورد نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فی البدیہہ بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ بات ان کی تحاریر میں بے ساختگی کا ثبوت ہے۔ لیکن بعض ناقدین کے خیال میں اس بے ساختگی کی وجہ سے ان کی تحریر کا ادبی حسن کم ہو گیا ہے۔ لیکن اگر یہ بھی تو سوچیے کہ جب آدمی بے ساختہ طور پر باتیں کرتا ہے، تو وہ فقرات اور تراکیب کو مدنظر نہیں رکھتا۔ آپس کی باتیں ادبی محاسن کی حامل ہوں، نہ ہوں ان میں بے ساختگی کا عنصر ضرور شامل ہوتا ہے۔ ویسے بھی سرسید احمد خان کا مقصد خود کو ایک ادیب منوانا نہیں تھا۔ بلکہ تحریروں کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا تھا۔ سر سید کی بے ساختگی کا نمونہ دیکھیے، وہ اپنے مضمون” امید کی خوشی “ میں لکھتے ہیں۔ ”تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی ،خوشی کے لیے۔ نام آوری، نام آوری کے لیے، بہادری ،بہادری کے لیے، فیاضی، فیاضی کے لیے، محبت، محبت کے لیے، نیکی، نیکی کے لیے تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔“ مدعا نویسی

سرسید کے مضامین میں مقصد کا عنصر غالب ہے اور وہ ہمیشہ اپنے مقصد ہی کی بات کرتے ہیں۔ ان کی کسی بھی تحریر کے ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہمیں کس جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ اور ان کا اصل مقصد کیاہے وہ اپنے مدعا کو چھپاتے نہیں بلکہ صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ کوئی مضمون تحریر کرتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہیں۔ وہ صرف یہ یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک مصلح قوم ہے۔ اس ضمن میں وہ اپنے نظریات کو واضح طور بیان کر دینے کے عادی ہیں۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت و افادیت کا عنصر اس حد تک غالب ہے کہ انہیں زبان کے حسن اور ادب کی نزاکت و جمال پر توجہ دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ نزاکت خیال اور خیال آفرینی ان کے نزدیک تصنع کاری ہے۔ جو عبارت کا مفہوم سمجھنے میں قاری کے لیے دقت کا موجب بنتی ہے۔ شگفتگی اور ظرافت

سرسید کی تحاریر میں کافی حد تک شگفتگی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے مضامین میں شگفتگی پیدا کرنے کے لیے کبھی کبھی ظرافت سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن اس میں پھکڑ پن پیدا نہیں ہونے دیتے۔ اس کے متعلق ڈاکٹر سید عبد اللہ لکھتے ہیں، ”سرسید کی تحریروں میں ظرافت اسی حد تک ہے، جس حد تک ان کی سنجیدگی، متانت اور مقصد کو گوارا ہے۔“ ذیل میں اُن کی ظرافت کی ایک مثال مندرجہ ذیل ہے، ” اس نے کہا کیا عجب ہے کہ میں بھی نہ مروں، کیونکہ خدا اس پر قادر ہے ایک ایسا شخص پیدا کرے، جس کو موت نہ ہو اور مجھ کو امید ہے کہ شاید وہ شخص میں ہوں۔ یہ قول تو ایک ظرافت(ظریف) کا تھا مگر سچ یہ ہے کہ زندگی کی امید ہی موت کا رنج مٹاتی ہے۔“ متانت اور سنجیدگی

سرسید کے زیادہ تر مضامین سنجیدہ ہوتے ہیں، وہ چونکہ ادب میں افادیت کے قائل ہیں، اس لیے ہر بات پر سنجیدگی سے غور کرتے اور اسے سنجیدہ انداز ہی سے بیان کرتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ان کے مصلحانہ انداز فکر نے ان کی تحریروں میں اس حدتک سنجیدگی پیدا کر دی ہے۔ کہ شگفتگی کا عنصر غائب ہو گیا ہے۔ بقول سید عبد اللہ، ”سرسید کے مقالا ت کی زبان عام فہم ضرور ہے۔ ان کا انداز بیان بھی گفتگو کا انداز بیان ہے مگر سنجیدگی او ر متانت شگفتگی پیدانہیں ہونے دی۔ البتہ ایسے مقامات جن میں ترغیبی عنصر کی کمی ہے۔“ اثر آفرینی

سرسید احمد خاں اپنی تحاریر میں اثر پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے۔ کہ کسی نہ کسی ڈھب سے قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوا جائے اور اسے اپنے نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کئی حربے اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور اخلاقیات کا حربہ اثر آفرینی کے لیے ان کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ اس ضمن میں وہ اشارات و کنایات، تشبیہات اور دیگر ادبی حربوں سے بھی کام لیتے ہیں۔ لیکن قدرے کم، بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ، ”اثر و تاثیر کی وجہ تو یہ ہے کہ ان کے خیالات میں خلوص اور سچائی ہے۔ یعنی دل سے بات نکلتی ہے۔ کل پر اثر کرتی ہے۔“ روانی

سرسید کا قلم رواں ہے۔ وہ جس موضوع پر لکھتے ہیں، بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی بعض تحریریں پڑھ کر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی مشتاق کھلاڑی بلادم لیے بھاگتا ہی چلا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر سیدعبداللہ: ”وہ ہر مضمون پر بے تکان اور بے تکلف لکھنے پر قادر تھے چنانچہ انہوں نے تاریخ، فن تعمیر، سیرت، فلسفہ، مذہب، قانون، سیاسیات، تعلیم، اخلاقیات مسائل ملکی، وعظ و تدکیر، سب مضامین میں ان کا رواں قلم یکساں پھرتی اور ہمواری کے ساتھ رواں دواں معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان کی قدرت کا کرشمہ ہے۔“ متنوع اسلوب

سرسید کانظریہ تھا کہ ہر صنف نثر ایک خاص طرز نگارش کی متقاضی ہے۔ مثلاً تاریخ نگاری، فلسفہ، سوانح عمر ی الگ الگ اسلوب بیان کا تقاضا کرتی ہیں۔ چنانچہ ہر صنف نثر کوسب سے پہلے اپنے صنفی تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔ چنانچہ ہر لکھنے والے صنفی تقاضوں کے مطابق اسلوب اختیارکرنا چاہیے۔ سرسید کے ہاں موضوعات کا تنوع اور رنگارنگی ہے اور سرسید کے اسلوب نگارش کی یہ خوبی اور کمال ہے کہ انہوں نے موضوع کی مناسبت سے اسلوب نگارش اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کو بیان پر اس حد تک قدرت حاصل تھی کہ وہ سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی، ادبی، اخلاقی، ہر قسم کے موضوعات پر لکھتے وقت موضوع جس قسم کے اسلوب بیان کا متقاضی ہوتا اس قسم کا اسلوب اختیار کرتے۔ خلوص و سچائی

سرسید کے فقروں اور پیراگراف میں تناسب اور موزونیت کی کمی ہے۔ جملے طویل ہیں۔ انگریزی الفاظ کا استعمال بھی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سرسید کی تحریریں ادبیت سے خالی ہیں۔ خلوص اور سچائی ادب کی جان ہے۔ سرسید اکھڑی اکھڑی تحریروں، بے رنگ اور بے کیف، جملوں، بوجھل، ثقیل اور طویل عبارتوں کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کہ لکھنے والا، محسوس کرکے لکھ رہا ہے۔ کسی جذبے کے تحت لکھ رہا ہے۔ اس کے پیش نظرنہ کوئی ذاتی غرض ہے اور نہ اسے کسی سے کوئی بغض و عناد اور ذاتی رنجش ہے۔ ان تحریروں کو دیکھ کر جہاں ہم سچائی محسوس کرتے ہیں جو دل پر اثر کرتی ہے، وہاں ان کی تحریروں میں مقصد کی جلالت اور عظمت پائی جاتی ہے۔ پھیکا پن

سرسید کی تحریریں یقین و اعتماد تو پیدا کرتی ہیں مگر قاری کو محظوظ اور مسرور بہت کم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقصد کی رو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ وہ خیالات کے اظہار میں اتنے بے تکلف اور بے ساختہ ہو جاتے ہیں کہ الفاظ کی خوبصورتی، فقروں کی ہم آہنگی کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ وہ کسی پابندی، رکاوٹ اور احتیاط کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ اسلوب اور شوکت الفاظ پر مطلب اور مدعا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح سرسید کی تحریروں میں حسن کی کمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہی کمی اس کے اسلوب کا خاصہ بھی بن جاتی ہے۔ اور ان کی تحریر ہمہ رنگ خیالات ادا کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔ مولانا حالی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں، ” کسی شخص کے گھر میں آگ لگی ہو تو وہ لوگوں کو پکارے کہ آؤ اس آگ کو بجھائو۔ اس میں الفاظ کی ترتیب اور فقروں کی ترکیب کا خیال نہیں ہوتا کیونکہ ان کے پاس ایک دعوت تھی، اس دعوت کو دینے کے لیے انہیں جو بھی الفاظ ملے، بیان کر دیے۔“ مجموعی جائزہ

جب ہم سرسید کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ خود اپنی ذات میں دبستان نظر آتے ہیں۔ سرسید نے اپنی تصانیف کے ذریعے اپنے زمانے کے مصنفوں اور ادیبوں کو بہت سے خیالات دیے۔ ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصہ متاثر ہوا۔ ان سے ان کے رفقاءہی خاص متاثر نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو ان کے دائرے سے باہر بلکہ مخالف تھے۔ خالص ادب اور عام تصانیف دونوں میں زمانے نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ اور ادب میں ایک خاص قسم کی معقولیت، نیا پن، ہمہ گیری ایک مقصد اور سنجیدگی پیدا ہو گئی جس کے سبب ادب بیکاروں کا مشغلہ نہ رہا بلکہ ادب برائے زندگی بن گیا۔ اُن کے اپنے رفقاءنے اُن کے اس مشن کو اور بھی آگے بڑھایا۔ مولانا الطاف حسین حالی، مولو ی ذکا اللہ، چراغ علی، محسن الملک اور مولوی نذیر احمد جیسے لوگوں کی نظریات میں سرسید کی جھلک نمایا ں ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ ”سرسید کا ہم عصر ہر ادیب ایک دیو ادب تھا اور کسی نہ کسی رنگ میں سرسید سے متاثر تھا۔“ سرسید احمد خان کے متعلق شعرا کی آراء تہذیب الاخلاق کا ٹائٹل جو سرسید 1870 میں لندن سے بنوا کر لائے تھے۔

   حالی

ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے ان کو کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کو

   مولوی نظیر احمد

وہ اپنے وقت کا اک فرد کامل بلکہ اکمل تھا کہ ہم میں کا ہر اک اعلیٰ اس سے اسفل تھا خرد مندوں کی صف میں سب موخر تھے وہ اول تھا غرض اسلامیوں کی فوج کا لیڈر تھا جنرل تھا اب اس کے بعد لشکر ہے مگر افسر نیہں کوئی بھٹکتا پھر رہا ہے قافلہ رہبر نیہں کوئی

   اکبر الہ آبادی

ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا نہ بھولو اس کو جو کچھ فرق ہے کہنے میں کرنے میں یہ دنیا چاہے جو کچھ بھی کہے اکبر یہ کہتا ہے خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

   صبا اکبرآبادی

تہذیب اور اخلاق سِکھانے والا سُورج کی طرح سے جگمگانے والا خیرہ ہُوئیں اربابِ وطن کی آنکھیں اس طرح سے آیا تھا وہ آنے والا شرق و غرب کو ایک کرنے والا اخلاص کا رنگ سب میں بھرنے والا سید کی زبان کا اثر تھا اتنا ہر لفظ دلوں میں تھا اُترنے والا اسلام کی دیکھی تھی زبوں حالی بھی مستقبلِ قوم پر نظر ڈالی بھی تعمیر میں وہ قوم کی رہا مصروف طعنے بھی سُنے اور سُنی گالی بھی سرحد میں بھی چمکے ہیں ستارے اس کے پنجاب میں بھی بہے ہیں دھارے اس کے سندھی ہوں بلوچی ہوں کہ بنگالی ہوں یو پی کی طرح سب ہی تھے پیارے اس کے اِک صاحبِ ہوش ، راہبر تھے سید اسلام کی چشمِ معتبر تھے سید یہ صرف خطاب ہی نہیں ہے واقعہ ہے {{{2}}} گرداب کو کشتی سے نکالا اس نے گرتی ہوئی قوم کو سنبھالا اس نے وہ خطہ گمنام کبھی تھا جو ، کول اِک مرکزِ علم و فن میں ڈھالا اس نے تھیں خوبیاں بے شُمار سید کی ہو گی نہ کبھی خزاں بہار سرسید کی نکلا ہے علی گڑھ سے جو پڑھ کے شخص دراصل ہے یادگا سر سید کی تاریک جو ہوگی رات ، ڈھل جائے گی آئے گی کوئی بلا تو ٹل جائے گی سید کی طرح کوئی سنبھالے گا اگر تھی قوم اگر جسم تو سر تھے سید بگڑی ہوئی قوم سنبھل جائے گی

یاد رکھنا چاہئیے کہ شعرا کسی بھی بات کو چاہے وہ تعریف ہو یا تنقیص بہت بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں ان کے یہاں مبالغہ آرائی بہت زیادہ ملتی ہے۔[32] }} تنقید اور مخالفت

اکثر اسلامی حلقوں میں سرسید گمراہ اور کافر قرار دیا جاتا رہا۔ برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد خاص کر تنقید کا نشانہ بنے جن میں ایک مرزا غلام احمد اور دوسرا سید احمد خان تھا۔ اسلام کے بنیادی عقائد پر مختلف نقطۂ نظر رکھنے کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنےs۔ انگریزوں کے ساتھ کھانے پر عام رد عمل

سر سید نے انگریزوں کے ساتھ کھانے پینے کا پ رہی ز چھوڑ دیا تھا۔ لندن جانے پہلے جب انہوں نے ایک رسالہ احکامِ طعامِ اہلِ کتاب پر لکھ کر شائع کیا تو عموماً ان کو کرسٹان کا خطاب دیا گیا اور جا بجا اس کے چرچے ہونے لگے۔ جب ولایت کے سفر میں چند روز باقی رہ گئے تو انہوں نے اس خیال سے کہ انگریزی طریقہ پر کھانا کھانے سے بخوبی واقفیت ہو جائے یہ معمول باندھ لیا تھا کہ مسٹر سماتیہ جو بنارس میں ایک سوداگر تھے اور سر سید کی کوٹھی سے ان کی کوٹھی ملی ہوئی تھی ایک دن یہ شام کا کھانا ان کے گھر پر جا کر کھاتے تھے اور ایک دن وہ ان کے گھر پر آ کر کھاتے تھے سرسید کہتے ہیں:

"اتفاق سے ان ہی دنوں میں مولوی سید مہدی علی خان مرزا پور سے بنارس میں مجھ سے ملنے کو آئے۔ رات کا وقت تھا اور میرے ہاں کھانے کی باری تھی ہم دونوں میز پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ مہدی علی آ پہنچے۔ یہ پہلی دفعہ تھی کہ مولوی مہدی علی نے ایک مسلمان کو اس طرح ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھاتے دیکھا تھا۔ سخت نفرت ہوئی اور باوجود میرے ہاں مہمان ہونے کے کھانا نہ کھایا اور کہا:

میں کھا چکا ہوں۔

صبح کو مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے اس وجہ سے کھانا نہیں کھایا۔ میں نے کہا:

اگر آپ کو یہ طریقہ ناپسند ہو تو دوسرا بندوبست کیا جائے؟

انہوں نے سوچا کہ شرعاً تو ممنوع نہیں ہے۔ صرف عادت کے خلاف دیکھنے سے نفرت ہوئی ہے۔ آخر قبول کر لیا اور سب سے پہلی دفعہ دن کا کھانا میرے ساتھ میز پر کھایا۔ دن تو اس طرح گزر گیا مگر رات کو یہ مشکل پیش آئی کہ رات کا کھانا مسٹر سماتیہ کے ہاں تھا۔ میں نے ان سے پوچھا:

اگر آپ کو وہاں کھانے میں تامل ہو تو یہاں انتظام کیا جائے؟

انہوں نے پھر اسی خیال سے کہ شرعاً ممنوع نہیں اقرار کر لیا:

میں بھی وہیں کھالوں گا

چنانچہ رات کو وہیں کھانا کھایا۔ پھر ایک آدھ روز بعد مرزا پور واپس چلے گئے۔

الہ آباد میں ان کے ایک دوست کو یہ حال معلوم ہو گیا انہوں نے خط لکھ کر دریافت کیا:

کیا یہ خبر سچ ہے؟

مولوی مہدی علی نے سارا حال مفصل لکھ بھیجا۔ انہوں نے وہ خط بجنسہ ہمارے ایک نامہربان دوست کے پاس جو اٹاوہ میں رونق افروز تھے، بھیج دیا۔ انہوں نے تمام شہر میں ڈھنڈورہ پیٹ دیا کہ مہدی علی کرسٹان ہو گئے۔ مولوی صاحب کے گھر کے پاس ہی ایک پینٹھ لگا کرتی تھی۔ ہمارے شفیق نامہربان نے اس گنوار دل میں جا کر خط کا مضمون ایک ایک آدمی کو سنایا اور تمام پینٹھ میں منادی کر دی:

بھائیو! افسوس ہے مولوی مہدی علی کرسٹان ہو گئے۔ جو سنتا تھا افسوس کرتا تھا اور کہتا تھا خدا سید احمد خاں پر لعنت کرے۔ (اتنے اکرام و احترام سے لعنت تو نہ کرتا ہوگا)

اس خبر کا مشہور ہونا تھا کہ مولوی صاحب کے گھر پر حلال خور نے کمانا سقے نے پانی بھرنا اور سب لگے بندھوں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔ گھر والوں نے ان کو لکھا:

تمہاری بدولت ہم پر سخت تکلیف گزر رہی ہے تم جلدی آؤ اور اس تکلیف کو رفع کرو۔

انہوں نے ایک طول طویل خط ان ہی بزرگ کو جنہوں نے یہ افواہ اڑائی تھی حلت طعامِ اہلِ کتاب کے باب میں لکھا اور پھر خود اٹاوہ میں آئے اور سب کو سمجھایا کہ میں کرسٹان نہیں ہوں جیسا پہلے مسلمان تھا ویسا ہی اب ہوں غرض بڑی مشکل سے لوگوں کا شبہ رفع کیا۔"

×: اس خطاب کے پس منظر میں مذ کورہ رسالہ میں سر سید کی اس قسم کی تحریریں تھیں:

"اگر اہلِ کتاب کسی جانور کی گردن توڑ کر مار ڈالنا یا سر پھاڑ کر مار ڈالنا زکوٰۃ سمجھتے ہوں تو ہم مسلمانوں کو اس کا کھانا درست ہے۔"

(معلوم نہیں ایسے مسائل وہ کہاں سے نکال لاتا تھا کیونکہ فرنگیوں کیساتھ کھانا پینا ظاہر ہے کہ مجبوراً ہی کسی کو درپیش ہوتا ہوگا اور مجبوری میں تو کوئی ممانعت ہے ہی نہیں یہ تو بخوشی ہروقت فرنگی کی گود میں بیٹھنے والے کے لیے مسئلہ ہوتا ہوگا) [33] انگریزوں کے لیے جاں نثاری

لائل محمڈنز آف انڈیا میں سرسید لکھتا ہے:

" میں نے اپنی گورنمنٹ کی خیرخواہی اور سرکار کی وفاداری پر چست کمر باندھی ہرحال اور ہر امر میں مسٹر الیگزینڈر شیکسپیئر صاحب بہادر کلکٹر و مجسٹریٹ بجنور کے شریک رہا۔ یہاں تک کہ ہم نے اپنے مکان پر رہنا موقوف کر دیا۔ دن رات صاحب کی کوٹھی پر حاضر رہتا تھا اور رات کو کوٹھی پر پہرہ دینا اور حکام کی اور میم صاحبہ اور بچوں کی حفاظت جان کا خاص اپنے ذمہ اہتمام لیا۔ ہم کو یاد نہیں ہے کہ دن رات میں کسی وقت ہمارے بدن پر سے ہتھیار اترا ہو۔" [34] سر بیچنے کا ذکر

مذہبی عقائد اور اقوال کے سوا اور طرح طرح کے اتہامات اس خیرخواہِ خلائق پر لگائے جاتے تھے۔ اس بات کا تو سر سید کی وفات تک ہزاروں آدمیوں کو یقین تھا کہ انہوں نے اپنا سر دَس ہزار روپے کو انگریزوں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے تھے کہ بعد مرنے کے انگریز ان کا سر کاٹ کر لندن لے جائیں گے اور لندن کے عجائب خانہ میں رکھیں گے۔ ایک بار یہی سر بیچنے کا تذکرہ سر سید کے سامنے ہوا۔ اس وقت راقم بھی موجود تھا۔ اس مرحوم نے نہایت کشادہ دلی کے ساتھ فرمایا کہ:

"جو چیز خاک میں مل کر خاک ہو جانے والی ہے، اس کے لیے اس زیادہ اور کیا عزت ہو سکتی ہے دانشمند لوگ اس کو روپیہ دے کر خریدیں اس کے ڈسکشن× سے کوئی علمی نتیجہ نکالیں اور اس کی قیمت کا روپیہ قوم کی تعلیم کے کام آئے دَس ہزار چھوڑ دس روپے بھی اگر اس کی قیمت میں ملیں تو میرے نزدیک مفت ہیں۔" قتل کی منصوبہ بندی

جب سر سید کے کفر و ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے اطرافِ ہندوستان میں شائع ہوئے تو ان کی جان لینے کی دھمکیوں کے گمنام خطوط ان کے پاس آنے لگے۔ اکثر خطوں کا یہ مضمون تھا کہ ہم نے اس بات پر قرآن اُٹھایا ہے کہ تم کو مار ڈالیں گے۔ ایک خط میں لکھا تھا کہ شیر علی جس نے لارڈ میو کو مارا تھا اس نے نہایت حماقت کی اگر وہ تم کو مار ڈالتا تو یقینی بہشت میں پہنچ گیا ہوتا۔

1891ء میں جبکہ سر سید کالج کی طرف سے ایک ڈپوٹیشن لے کر حیدرآباد گئے تھے اور حضور نظام (خلد اللہ ملکہ) کے ہاں بشیر باغ میں مہمان تھے ایک مولوی نے ہمارے سامنے سر سید سے ذکر کیا کہ کلکتہ میں ایک مسلمان تاجر نے آپ کے قتل کا مصمم ارادہ کر لیا تھا اور ایک شخص کو اس کام پر مامور کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کی مجھ کو بھی خبر ہوئی چونکہ میں علی گڑھ کی طرف آنے والا تھا اس سے خود جا کر ملا اور اس سے کہا کہ میں علی گڑھ جانے والا ہوں اور میرا ارادہ سید احمد خاں سے ملنے کا ہے۔ جب تک میں ان کے عقائد اور مذہبی خیالات دریافت کر کے آپ کو اطلاع نہ دوں آپ اس ارادہ سے باز رہیں۔ چنانچہ میں علی گڑھ میں آیا اور آپ سے ملا اور بعد دریافتِ حالات کے اس کو لکھ بھیجا کہ سید احمد خاں میں کوئی بات میں نے اسلام کے خلاف نہیں پائی۔ تم کو چاہیے کہ اپنے منصوبے سے توبہ کرو اور اپنے خیال خام سے نادم ہو۔"

سرسید نے جو یہ حال سن کر اس کو جواب دیا وہ یہ تھا:

افسوس ہے کہ آپ نے اس دیندار مسلمان کو اس ارادہ سے روک دیا اور ہم کو ہمارے بزرگوں کی میراث سے جو ہمیشہ اپنے بھائی مسلمانوں ہی کے ہاتھ سے قتل ہوتے رہے ہیں محروم رکھا [33] وفات سر سید احمد خان کا مقبرہ

سرسید احمد خان 80 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں فوت ہوئے اور اپنے کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

جمعیت علماء پاکستان

جمعیت علماء اسلام تاریخی حقائق کی روشنی میں علمائے حق کے اس سلسلہ کی کڑی ہے جس کا آغاز حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی مساعی سے ہو ا ، جس نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے افکار و نظریات سے نشونما پائی۔ جس کی جہادی تنظیم کی سر پرسرتی شاہ عبد العزیز دہلوی ؒ ، حضرت سید احمد شہید ؒ ، حضرت شاہ اسماعیل شہید ؒ ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ ، مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور رشید احمد گنگوئی ؒ جیسے اکابر نے فرمائی۔ جس کی انقلابی جدوجہد کا وسیع ترین نظام شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن ؒ نے قائم کیا اور جس کی علمی ، تبلیغی ، اصلاحی ، تربیتی ، تحریکی و اخلاقی طاقت کو شیخ الہند ؒ کے عظیم رفقاء اور نامور تلامذہ نے برصغیر پاک و ہند اور عرب و ایشیاء میں پھیلادیا۔

آزادی کاحصول اور پاکستان کا قیام

چنانچہ ان بزرگوں کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت ملک و ملت کو برطانوی استعمار کے جابرانہ غلبہ سے نجات ملی اور خطہ پاکستان میں مسلمانوں کی آزادی مملکت و حکومت کی بنیاد پڑ گئی ۔

پاکستان

شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی ؒ نے پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کی خاطر نئے سرے سے پاکستان کے تمام علماء حق کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی جدوجہد فرمائی۔ چنانچہ 1953ء میں جمعیت علماء اسلام مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا ، جس کے امیر احمد علی لاہوری منتخب ہوئے اور ناظم مولانا احتشام الحق تھانوی منتخب کئے گئے ۔ 1953ء میں پاکستان کی پہلی اور اہم ترین دینی تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی جس میں مسلمانوں نے بیش بہا جانی و مالی قربانیاں دےکر لا دینی ذہنیت کو شکست فاش دی اور ختم نبوت کے عقیدہ کے تحفظ کا مستقل مؤقف قائم کر دیا۔ اس دستور میں اگرچہ تمہید میں تو پاکستان کو اسلامی مملکت اور قانون سازی کے لئے اسلام کو راہنمائی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا ، لیکن اصل دستور میں ایسی دفعات رکھ دی گئی تھیںجن کی وجہ سے ارتداد اور اسلام سے انحراف کا راستہ کھلا رہتا ہے حئیٰ کہ جس دفعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا،اس دفعہ کی تصریح نمبر 4میں دستور کی دوسری دفعات کو تحفظ دینے کے لئے یہ کہہ دیا گیا کہ اس سے دستور کی بقیہ دفعات متاثر نہیں ہوں گی ۔ اس سے نفاذ دین میں جو مستقل رکاوٹ کھڑی کر دی گئی اور تحریف دین کا جو راستہ کھول دیا گیا تھا اس کے ازالے کے بغیر دستور کا نفاذ زبردست گمرہی کا موجب ثابت ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ اس صور ت حال پر غور کرنے کےلئے مولانا احمد علی لاہوری امیر اور مولانا غلام غوث ہزاروی ناظم عمومی منتخب ہوئے دستور کی مخالف اسلام دفعات کو تبدیل کرانے کے لئے ایک کمیٹی کا تقرر کیا گیا ۔ جس نے 1958ء میں دستور ی ترمیم کی تجاویز پر مشتمل سفارشات مرتب کر کے شائع کیں ۔اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگا دیا گیا ۔اس دوران دینی اقتدار کے تحفظ کے لئے نظام العلماء کے نام سے ایک تنظیم قائم کر دی گئی اور جب ایوب خان نے مارشل لا ء ریگولیشن کے ذریعہ عائلی قوانین نافذ کرکے مداخلت فی الدین کا رسوا کن اقدام کیا تو نظام العلماء کے نام سے منسلک علماء نےمساجد اور جلسہ ہائے عام میں اس کے خلاف آواز بلند کی اور حکومت کی دار و گیر کا ہدف بنتے رہے [۳۷]۔

جمعیت علماء اسلام کے اہداف

  • مملکت پاکستان کی عوام کے ایمان اور عقیدے کا تحفظ۔
  • مسلمانوں کی منتشر قوت کو جمع کر کے علماء کرام کی رہنمائی میں اقامت دین اور اشاعت اسلام کے لئے پر امن جد و جہد کرنا۔
  • شعائر اسلام اور مرکز اسلام یعنی حرمین شریفین کا تحفظ، پاکستان میں موجود مختلف اسلامی اداروں بشمول دینی مدارس، مسجد، دار الیتامی، مکتبات کی حفاظت کرنا۔
  • قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں میں سیاسی، اقتصادی، معاشی، اور مذہبی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنا، اور اس کے مطابق مثبت عملی جد و جہد کرنا۔
  • پاکستان میں اسلامی عادلانہ نظام حکومت کے نفاذ کے لئے کوشش کرنا۔
  • پاکستان میں جامع و عالمگیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لئے کوشش کرنا، جو پاکستانی عوام کے ایمان اور عقیدے کے موافق ہو، دینی اقدار اور اسلامی نظام کا تحفظ کرنا۔
  • پاکستان کے موجودہ آئین کو تحفظ دینا، اور خلاف اسلام قوانین کو اسلام کے موافق کرنا، اور کسی بھی غیر اسلامی قانون سازی کو بننے کے راستے میں رکاوٹ بننا۔
  • پاکستان کی حدود میں تقریر و تحریر و دیگر آئینی ذرائع سے باطل فتنوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور خلاف اسلام کاموں کی روک تھام کرنا۔
  • مسلمانان عالم خصوصا پڑوسی اور قریبی اسلامی ممالک کے ساتھ مستحکم اور برادرانہ روابط استوار کرنا۔
  • تمام دنیا کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعقات قائم کرنا تعاریف juipak.org.pk</ref>۔

ذیلی تنظیمات

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان قرآن اور سنت کی روشنی میں مروجہ قوانین پر نظر ثانی کے لئے نظریاتی کونسل کے قیام کو آئین کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ مشاورتی ادارہ کی حیثیت سے اہم فریضہ مجلس شوری اور صوبائی اسمبلیوں کو ایسے اقدامات کی سفارش کرنا ہے جس کے ذریعے پاکستانی مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔

تعارف

اسلامی نظریاتی کونسل، پاکستان کا ایک اہم آئینی ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ نظریہ پاکستان کی صحیح تعبیر و تشریح کو پاکستانی معاشرہ میں فروغ دیا جائے۔ وطن عزیز میں بنائے گئے اور نافذ کئے گئے قوانین کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہ ہونے پائے اور نئی قانون سازی میں قانون ساز اداروں کی رہنمائی کی جا سکے یا ممکنہ تعاون فراہم کیا جا سکے [۳۸]۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

امام خمینی میوریل کرگل ہند [۳۹]۔

امام خمینی میموریل ٹرسٹ (امام خمینی میموریل ٹرسٹ)، کارگل، انڈیا ۔ یہ ٹرسٹ 1989 میں مذہبی ثقافت کو پھیلانے، غربت کے خلاف جنگ، اسکولوں کے قیام، مذہبی فکر کو زندہ کرنے اور امام خمینی کے افکار کو فروغ دینے کی کوششوں کے لیے قائم کی گئی تھی۔ یہ ادارہ کئی مدارس اور جدید اسکول قائم کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ اس ادارے کے نگران محمد حسین ذکری تھے۔

امام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹ، کارگول، انڈیاندی کا نامامام خمینی میموریل انسٹی ٹیوٹجمیت ایک پرستار ہے۔ایک لاکھ سے زیادہ لوگرہنماشیخ ذاکر حسیناہدافدینی تعلیم اور ثقافت کو وسعت دینا، مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا اور غربت کا مقابلہ کرنامبادیات اور اصولامام کی فکر اور اسلامی انقلاب کا احیاءواقفیتاسلامی انقلاب کے ساتھ ہم آہنگیتشہیر کرنے کا طریقہوائس آف لداخ نیوز چینل،

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

اشرف علی تھانوی مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ ۵/ ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ میں بدھ کے دن پیدا ہوئے تھے، اور ۱۵/ رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۳۰/ جولائی ۱۹۴۳ء میں وفات پائی۔ ان کی قبر شریف تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر، یوپی، ہند) میں ایک کنارے ان کے ذاتی باغ میں ہے [۴۰]۔

پیدائش وطن اور خاندان

حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی کا وطن مالوف و مقام پیدائش تھانہ بھون ضلع مظفرنگر یوپی ہندوستان تھا ۔ آپ کا یوم ولادت چہار شنبہ 5 ربیع الاول 1280 ھجری ہے ۔ قصبہ میں آپکے آباؤ اجداد کا خاندان نہایت معزز وممتاز تھا ۔ آپ کے والد منشی عبدالحق بڑے صاحب وجاھت، صاحب منصب اور صاحب جائیداد رئیس تھے اور بڑے اہل دل بزرگ بھی تھے۔

تعلیم وتربیت

تھانوی نسباً فاروقی، مذھباً حنفی تھے اور مسلکاً سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ سے وابستہ ہوکر منصب خلافت و رشد وہدایت پر فائز ہوئے آپ کا بچپن وطن میں ہی گزرا اور وہیں ناظرہ و حفظ قرآن اور عربی وفارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر علوم دینیہ کی تکمیل کے لئے ایک ہزار دو سو پچانوے ہجری میں دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے گئے اور جید علماء اور مدرسین سے فیضان علوم حاصل کرکے ایک ہزار تین سو ایک ہجری میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ گویا اُدھر چودھویں صدی کا آغاز ہورہا تھا اور اِدھر احیاء وتجدید دین مبین کے لئے یہ مجدد العصر تیار ہورہا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فضل عظیم تھا کہ آپ کو مدرسہ دارالعلوم دیوبند ایسی شہرہ آفاق اور مستند درس گاہ میں تحصیل علوم اور تکمیل درسیات کا موقع نصیب ہوا جہاں خوش قسمتی سے اُس وقت بڑے منتخب اور یگانہ عصر وجامع کمالات وصفات اہل اللہ اور اساتذہ کا مجمع تھا جن کے فیوض و برکات علمی وایمانی کا آج بھی عالم اسلام معترف ہے ۔ ان میں سے اکثر حضرات حاجی امداد اللہ شاہ مہاجر مکی کے سلسلہ سے وابستہ اور بعد انکے خلفائے راشدین میں تھے ایسے نورانی ماحول میں اور اُن حضرات کے فیض صحبت سے بعونہ تعالیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی باطنی صلاحیت واستعداد بھی تربیت پذیر ہوتی رہی ۔

اساتذہ کی خصوصی توجہ وتکمیل تعلیم

یوں تمام بزرگوں اور اساتذہ کی توجہات خصوصی کی سعادت تھانوی کو حاصل تھی ۔ مگر مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا یعقوب نانوتوی کو خاص طور پر آپ کے ساتھ محبت وشفقت کا تعلق تھا ۔ اور ان کو بھی ان بزرگوں کےساتھ نہایت والہانہ عقیدت و محبت تھی ۔ چنانچہ اکثر و بیشتر ان حضرات کا ذکر بڑے کیف و سرور سے فرمایا کرتے تھے ۔ ان کی دستاربندی 1301 ہجری میں مولانا رشید احمد گنگوہی نے کے ہاتھوں سے ہوئی۔ اس سال مدرسہ دیوبند میں بڑا شاندار جلسہ منعقد ہوا ۔ اس موقع پر اشرف تھانوی اپنے چند رفقائے کرام کے ساتھ مولانا یعقوب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ہم میں ایسی استعداد نہیں ہے کہ ہمیں دستار کی فضیلت عطا کی جائے ۔ اس سے مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی ۔ یہ سن کر مولانا کو جوش آگیا اور فرمایا”تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں انکے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نظر نہیں آتی اور ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ باہر جاؤ گے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی”۔ خدا کی قسم جہاں جاؤ گے تم ہی تم ہوگے ۔ باقی سارا میدان صاف ہے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔

باطنی علوم واعمال

حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے باطنی علوم واعمال کی تکمیل و تہذیب کے لئے بھی ایک یگانہ عصر شیخ المشائخ حضرت حاجی شاہ امداد اللہ صاحب تھانوی ثم مہاجر مکی قدس سرہ العزیز سے شرف تعلق عطا ہوا ۔ 1299 ھجری میں جب حضرت مولانا رشید احمد قدس سرہ حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُنکے ہاتھ ایک عریضہ حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں روانہ کیا جس میں استدعا کی کہ حضرت مولانا سے بیعت فرما لینے کے لئے سفارش فرمادیں ۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا سے اس کا تذکرہ فرمایا اور پھر خود ہی ارشاد فرمایا”اچھا میں خود ہی اُنکو بیعت کئے لیتا ہوں”۔ اور حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی تحریر فرمایا:۔”میں نے خود آپکو بیعت کرلیاہے۔ مطمئن رہیں”۔

تدریس

تیرہ سو ایک ہجری میں جب تھانوی علوم درسیہ سے فارغ ہوئے تھے اُسی زمانہ میں کانپور کے مدرسہ فیض عام میں ایک مدرس کی ضرورت تھی ۔ آپ کو وہاں پر تدریس کے لئے بلایا گیا ۔ آپ کئی سال تک اس مدرسہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ کچھ عرصہ کے بعد مدرسہ کے نظم و نسق سے غیر مطمئن ہو کر تعلق منقطع کردیا ۔ پھر کچھ ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ کانپور کی جامع مسجد میں درس دینے لگے اور وہاں پر ایک مدرسہ قائم ہوگیا ۔ اس مدرسہ کا نام حضرت نے مسجد کی مناسبت سے مدرسہ جامع العلوم موسوم فرمایا ۔ یہ مدرسہ یوماً فیوماً ترقی کرتا رہا اور کچھ مدت بعد مشہور و معروف ہوگیا(اور اب تک بفضلہ تعالیٰ قائم ہے)۔

حاجی صاحب سے بیعت

دوران قیام کانپور شوال 1301 ہجری میں ایسے اسباب و وسائل رونما ہوئے کہ آپ اپنے والد صاحب کے ساتھ حج کے لئے گئے ۔ حاجی صاحب سے ملاقات ہوئی اور دست بدست بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ حاجی صاحب نے اُنکو کچھ دنوں کے لئے اپنے پاس رہنے کے لئے روکنا چاہا مگر والد صاحب نے مفارقت گوارا نہ کی اور اپنے ساتھ واپس لے آئے ۔ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا: اب کی بار حج کو آؤ تو کم از کم چھ ماہ کے قیام کے ارادے سے آنا ۔

خلافت و اجازت

آپ 1310 ہجری میں دوسری مرتبہ حج کے لئے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کے منشاء اور اُنکی خواہش کے مطابق وہاں پر چھ ماہ تک قیام کا ارادہ کرلیا ۔ حاجی صاحب اِسی موقع کے منتظر تھے چنانچہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ اور اپنے نوخیز طالب و سالک طریق کی فطری صلاحیت و استعداد اور جوہرِ قابل کا اندازہ کرتے رہے اور تمام علوم باطنی اور اسرار و رموزِ روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب مبارک پر وارد اور القاء فرمائے تھے آپ کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہ خاص سے حضرت رحمہ اللہ کا سینہ مبارک دولت معارف وحقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ کا اور محبت نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوز و گداز رگ و پے میں سرایت کر گیا ۔ بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہوکر اور اپنے ذوق و مسلک سے تمام تر ہم آہنگی کے آثار نمایاں دیکھ کر اپنا جانشین بنا لیا ۔ اور باذن اللہ تعالیٰ خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی رہنمائی کے لئے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جب حضرت کا وہاں سے واپسی کا وقت آیا تو بکمال محبت و شفقت گلے لگا کر فرمایا:”میاں اشرف علی! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی”۔ذالک فضل اللہ ۔ پھر ان دو وصیتوں کے ساتھ رخصت فرمایا:دیکھو ! وطن پہنچ کر تم کو باطنی کیفیات میں ایک حالت پیش آئے گی ۔ گھبرانا نہیں ۔ مجھ کو مطلع کرتے رہنا ۔ دوسرا یہ کہ جب مدرسہ کی ملازمت سے دلبرداشتہ ہو تو پھر وطن پہنچ کر ہماری خانقاہ اور مدرسہ میں توکلاً علی اللہ مقیم ہوجانا، تم سے ان شاء اللہ تعالیٰ خلق کثیر کو نفع پہنچے گا”۔

تھانہ بھون میں مستقل قیام

حضرت نے دوران قیام کانپور درس و تدریس کے سلسلہ میں چودہ سال بسر کئے ۔ یہی زمانہ منجانب اللہ ان کے ذہنی و روحانی صلاحیت واستعداد کے نشو و نماکا اور علوم ظاہری وباطنی کے بار آور ہونے تھا ۔ اسی زمانہ میں تجربہ و مشاہدہ کی بناء پر عام مسلمانوں کی اصلاح عقائد واعمال کے لئے دین مبین کی تبلیغ واشاعت کا ایک بے اختیار جذبہ اور شدید تقاضہ دل میں پیدا ہورہا تھا ۔ جس سے حضرت ہمہ وقت متاثر رہنے لگے اور موجودہ انہماک و اشغال کی زندگی سے طبیعت گھبرانے لگی ۔ مستقبل میں پیش نظر مقاصد کے حصول کے لئے فراغت قلب و یکسوئی درکار تھی ۔ چنانچہ مدرسہ کی ملازمت ترک کرنے کا ارادہ کرلیا اور چند وجوہات و معذورات کو پیش کرکے آخر کار 1315 ہجری میں سبکدوشی حاصل کرلی ۔ اپنے وطن تھانہ بھون میں تشریف لے گئے اور اسکی اطلاع پیرومرشد کو کردی ۔ وہاں سے جواب آیا: “بہتر ہوا آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے ۔ امید ہے کہ آپ سے خلائق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو از سر نو آبادکر دیں ۔ میں ہر وقت آپکے حال میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے”۔ قصبہ تھانہ بھون بڑے شہروں سے دور اور ذرائع آمد ورفت کے اعتباد سے اس زمانے میں بالکل الگ تھلگ پرانے زمانے کے رئیسوں کی ایک بستی تھی ۔ اس بستی سے بالکل باہر خانقاہ امدادیہ واقع تھی ۔ یہ وہی خانقاہ تھی جہاں سے کچھ زمانہ پہلے اللہ تعالیٰ کے تین برگزیدہ خلوت گزیں بندے درویشانہ زندگی بسر کررہے تھے ۔ یعنی حضرت حافظ ضامن شہید، مولانا شیخ محمد اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہم اللہ تعالیٰ ۔

تبلیغ، وعظ اور تصنیف و تالیف

حضرت نے خانقاہ میں مقیم ہوکر شروع ہی سے اپنی آئندہ زندگی کے انضباط اور اہم خدمات دین کے انصرام کے لئے اپنے مذاق فطری اور نصب العین کے موافق ایک لائحہ عمل مقرر فرمایا اور اسی کے مطابق اپنے پیش نظر کام سرانجام دینے میں مشغول ہوگئے ۔ اس وقت آپکی عمر تخمیناً 35 سال تھی ۔ اس کے بعد یہ مجدد وقت اپنی مسند رشد وہدایت پر ایک نسخہ اکسیر اصلاح امت لے کر بیٹھا ۔ خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں توکلاً علی اللہ قیام پذیر ہونے کے بعد حضرت کی ساری زندگی تقریباً نصف صدی سے زائد تک تصنیف و تالیف میں اور مواعظ و ملفوظات ہی میں بسر ہوئی ۔ ملک اور بیرون ملک ہزاروں طالبین حق وسالکین طریق تعلیم و تربیت باطنی اور تزکیہ نفس سے فیض یاب اور بہرہ اندوز ہو کر بحمداللہ تعالیٰ امت مسلمہ کے رہبر و مرشد بن گئے جن کا فیضان روحانی اب تک جاری و ساری ہے ۔ اسی زمانہ میں تقریباً چالیس سال تک حضرت کا ملک کے طول و عرض میں بڑی کثرت سے تبلیغی دوروں کا سلسلہ جاری رہا ۔ بڑے بڑے شہروں میں مشہور دینی درسگاہوں انگریزی تعلیم گاہوں اور اسلامی انجمنوں کے شاندار جلسوں میں بار بار حضرت کے کثرت سے بڑے انقلاب انگیز اصلاحی وعظ ہوئے ۔ بعض وقت وعظ کا یہ سلسلہ چار چار گھنٹوں تک جاری رہتا ہزاروں کی تعداد میں لوگ والہانہ انداز میں جمع ہوتے تھے اور دینی ودنیوی تقاضوں سے آگاہ ہو کر ایمانی تقویت حاصل کرتے ۔

آپ کے مواعظ کی تاثیر

حضرت کے مواعظ کا موضوع خاص طور پر عقائد کی اصلاح، اعمال کی درستی، معاملات کی اہمیت اور اخلاق کی پاکیزگی کے لئے ہوا کرتا تھا ۔ حضرت کی مساعی و جدوجہد کا نتیجہ اس طرح ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کے ضمیر میں اسلامی شعور و شعائر کا جذبہ بیدار ہونے لگا اور حق و باطل کاصحیح معیار واضح ہوگیا ۔ اکثر و بیشتر مواعظ قلمبند ہوگئے اور طبع ہوکر شائع ہوئے اور بہت سے وعظ صرف قلمبند ہوکر محفوظ رہے اور شائع نہ ہوسکے تاہم شائع شدہ مواعظ کی تقریباً چارسو سے زائد تعداد ہے ۔

بے دینی کا انسداد

اس زمانہ میں مسلمانوں میں دو بڑے خطرناک رجحانات شدت پکڑ رہے تھے ۔ ایک طرف تو انگریز کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے مغربی فلسفہ اور تہذیب ومعاشرت کا اثر پھیل رہا تھا جس سے عام طور پر تعلیم گاہیں، تجارتی ادارے اور سرکاری محکمے اور عوام متاثر ہورہے تھے ۔ حضرت نے اس فتنہ کے انسداد کے لئے بڑی شد و مد کے ساتھ تبلیغ شروع فرمائی اور اس موضوع پر سینکڑوں وعظ مختلف عنوان کے ساتھ بیان فرمائے ۔ متعدد کتابیں بھی تصنیف فرمائیں جو کثرت سے طبع ہو کر شائع ہوئیں ۔ مثلاً انتباہات مفیدہ، بہشتی زیور، فروع الایمان، اصلاح الخیال، حیاۃ المسلمین، آداب المعاشرت، اصلاح انقلاب امت، وعظ اسلام حقیقی، محاسن اسلام اور دعوۃ الحق وغیرہ بعونہ تعالیٰ شرق سے غرب تک تمام ملک میں ہر طبقہ کے مسلمانوں کو ان سے خاطر خواہ نفع اور رہنمائی حاصل ہوئی ۔

ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کے اثرات

اس ہمہ گیر مصلحانہ تبلیغ کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں میں دینی شعور اور اسلامی شعائر کی طرف رجحان پیدا ہونے لگا ۔ ہر طبقہ کے اکثر وبیشتر انگریزی تعلیم یافتہ لوگ خصوصاً بڑے بڑے سرکاری محکموں کے وکیل، بیرسٹر، جج، منصف، مجسٹریٹ کثرت سے حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات سے متاثر ہوئے اور بعض تو حلقہ بگوش عقیدت ہوگئے اور بعض کی باطنی تعلیم و تربیت سے دینی حالت میں ایسی تبدیلی پیدا ہوگئی تھی کہ حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُنکو اپنے “خلفائےمجازین صحبت” میں شامل فرمایا تھا۔ اس طرح حضرت نے اس دور میں ایسی زندہ مثال قائم فرمادی کہ مسلمان خواہ کسی بھی مسئلہ زندگی میں ہو اگر وہ چاہے تو پکا دیندار بن سکتا ہے ۔ یہ حضرت کی ایسی کرامت اور ایسا کارنامہ تبلیغ دین ہے جو ہر اعتبار سے انفرادیت کا درجہ رکھتا ہے ۔

تصوف میں آنے والی بدعات کا قلع قمع

دوسری اہم چیز جو حضرت رحمہ اللہ تعالیٰ کے دل و دماغ میں کاوش و اضطراب پیدا کررہی تھی وہ دورحاضر کی خانقاہی فقیری و درویشی کی ہیئت تھی ۔ جہاں کتاب و سنت سے بالکل بے گانہ اور بے نیاز ہو کر چند جوگیانہ رسوم اور طریقہ نفس کشی ہی کو واصل حق ہونے کا ذریعہ اور چند ہی ملحدانہ عقائد کو حاصل تصوف و سلوگ سمجھ لیا گیا تھا۔ یہ ایک عالمگیر فتنہ تھا جس میں اکثر دینی رجحان رکھنے والے نادان عوام بھی مبتلا ہورہے تھے الا ماشاء اللہ ۔ حضرت نے اپنی تمام مصلحانہ توجہ اور مجددانہ تبلیغ کی جد و جہد اسی طبقہ کے لئے بھی خاص طور پر مبذول فرمائی اور اس موضوع پر عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے متعدد کتابیں بھی تصنیف و تالیف فرمائیں ۔ سینکڑوں مواعظ و ملفوظات قلمبند کروا کر شائع فرمائے ۔ اور قرآن و حدیث کی غیر متزلزل سند کے ساتھ تمام باطل عقائد کا رد اور تمام غیر اسلامی رسم و روایات اور غیر معقول اور ملحدانہ رموز واسرار باطنی اور گمراہ کن اصلاحات کی تردید فرمائی اور نہایت نمایاں طور پر واضح کردیا کہ طریقت یعنی تصوف و سلوک یا دوسرے الفاظ میں تہذیب اخلاق وتزکیہ نفس دین مبین کا ایک اہم رکن ہے اور اس پر شریعت وسنت کے مطابق عمل کرنا ایک درجہ میں ہر مسلمان پر فرض وواجب ہے ۔

علوم دینیہ میں آپ کی خدمات

اسی طرح علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں فقہ کی توجہیات میں اور تصوف کی غایات میں جہاں جہاں خواص و عوام غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے ۔ وہاں اس مجدد عصر کی نظر اصلاح کارفرما نظر آتی ہے ۔ ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں ۔ یوں تو علوم دینیہ سے متعلق حضرت رحمہ اللہ تعالٰی کی سبھی تصانیف وتالیفات اپنے مضامین کی جامعیت و نافعیت اور انفرادیت کے اعتبار سے بے نظیر اور بے مثال ہیں ۔ لیکن حضرت کے مطبوعہ مواعظ و ملفوظات اور تربیت السالک علوم ظاہری اور باطنی ایک بحر بے کراں ہیں ۔ ان مواعظ و ملفوظات میں اکثر و بیشتر آیات قرآنی، احادیث نبویہ، فقہ اور طریقت کے متعلق بہت ہی نادر اور نازک و لطیف تفاسیر، تشریحات، تنقید و تدقیق بیان کی گئی ہیں [۴۱]۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* *****************************************

اسرائیل

تاریخی پس منظر

لفظ اسرا‏ئیل کا مفہوم

تاریخی اعتبار سے لفظ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کی قوم کو بنی اسرائیل یا اسرائیلی کہا جانے لگا۔ جدید ریاست اسرائیل کے شہریوں کو بھی اسرائیلی کہا جاتا ہے۔

ارض موعود

بائبل کے مطابق خداوند نے ارض اسرائیل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اسی وجہ سے اسے ارض موعود کہا جاتا ہے۔

ارض اسرائیل کا محل وقوع

تناکا یعنی عبرانی بائبل میں ارض اسرائیل کی حدود کے حوالے سے متعدد بیانات ملتے ہیں، تاہم ان کے مطابق ارض اسرائیل مصر کے دریائے نیل سے دریائے فرات تک کے علاقے پر محیط ہے۔ گویا اس میں موجودہ دور کی ریاست اسرائیل غربی کنارہ، غزہ کی پٹی، شام اور لبنان شامل ہیں۔ ان علاقوں کے علاوہ جزیرہ نما سیناء کو بھی ارض اسرائیل میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مصر سے بنی اسرائیل کی ملک بدری اسی راستے سے ہوئی تھی۔ یہودی مقدس صحائف کے مطابق دریائے اردن کی مشرقی جانب علاقہ بھی، جس میں بیشتر اردن شامل ہے، ارض اسرائیل کا حصہ ہے۔ یہودی مقدس صحا‏ئف کے مطابق خداوند نے مصر سے نکلتے والے بنی اسرائیل کو ارض کنعان عطا کردی تھی [۴۲]۔

ارض اسرائیل اور ریاست اسرائیل

29نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کی رو سے فلسطین کے برطانوی انتداب کو ریاست اسرائیل قرار دیا گیا۔ عبرانی زبان میں ریاست اسرا‏ئیل کو مدینات یسرایئل کہا جاتا ہے، جبکہ عربی زبان میں دولۂ الاسرائیل کہتے ہیں۔

ریاست اسرائیل جغرافیائی اعتبار سے بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی کنارے پر مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت فرار دیا گیا ہے لیکن اس کی حیثیت متنازعہ ہے چنانچہ بہت سے ملکوں نے اپنے سفارت خانے تل ابیب میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت کے اعتبار سے ریاست اسرائیل ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے۔ یہ دنیا کی واحد یہودی ریاست ہے، تاہم اس کی آبادی مختلف نسلی اور مذہبی پس منظروں کی حامل ہے۔

ایلیاہ اور اسرائیل

یہودی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد تھے۔ سب سے پہلے 1881ء میں وہ عیسائیوں کے مذہبی تشدد سے بچنے کے لیے ان علاقوں میں پناہ گزين ہوئے جہیں آج اسرائیل کہا جاتا ہے۔ یہودیوں کی اس نقل مکانی کو عبرانی میں ایلیاہ کہا جاتا ہے۔ ایلیاہ کی دوسری وجہ موشے ہیس کے سوشلسٹ صہیونی نظریات تھے۔ یہودیوں نے عثمانی حکومت کے کارپردازوں اور عرب زمینداروں سے اراضی خرید لی اور بستیاں بساکر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ جس کے بعد مقامی عربوں کے ساتھ ان کی کشیدگی بھی رونما ہوئی۔

ایک اسٹریائی یہودی تھیوڈور ہرزل نے صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس نے 1896ء میں یہودی ریاست کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں ایک قومی یہودی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1897ء میں اس نے پہلی عالمی صہیونی کانگرس منعقد کی۔ صہیونی تحریک کے نتیجے میں 1904ء سے 1914ء کے دوران ایلیاہ کی دوسری لہر امڈی اور تقریبا چالیس ہزار یہودی ان علاقوں میں جا بسے جنہیں آج ریاست اسرائیل کہا جاتا ہے۔

اسرائیل کا رقبہ

اسرائیل کا کل رقبہ 22145 مربع کلومیٹر ہے، بشمول مقبوضہ علاقوں کے۔ یہ دنیا کا 149 واں بڑا ملک ہے۔

بالفور ڈیکلریشن

1917ء میں برطانوی وزیر خارجہ جے بالفور نے بالفور ڈیکلریشن پیش کیا، جس میں یہودی عوام کے لیے فلسطین میں ایک الگ قومی وطن کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 1920ء میں فلسطین کو لیگ آف نیشنز کا برطانیہ کے زیر انتظام انتداب بنا دیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد 1919ء تا 1923ء اور 1924ء تا 1929ء میں ایلیاہ کی تیسری اور چوتھی لہر امڈی۔ اس دوران مقامی آبادی اور یہودیوں کے مابین تصادم بھی ہوئے۔ 1933ء میں نازي ام کے ابھار کے نتیجے میں ایلیاہ کی پانچویں لہر امڈي۔ 1992ء میں علاقے کی آبادی میں یہودیوں کا تناسب 11 فی صد تھا، جو 1940ء تک بڑھ کر 30 فی صد ہو گیا۔ اس وقت تک صہیونی تنظیموں اور یہودیوں کی انفرادی ملکیت میں آ چکی تھی۔ ہولوکاسٹ کے نتیجے میں یورپ کے مختلف حصوں میں آباد یہودی فلسطین آبسے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام تک فلسطین میں آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ ہو چکی تھی۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

سید حسن نصر اللہ

سوانح عمری

سید حسن نصر اللہ 1960ء میں جنوبی لبنان میں بیروت کے قریب ایک کیمپ میں ایک غریب خاندان کے گھر میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد سید عبد الکریم پھیری لگا کر سبزی اور پھل فروخت کیا کرتے تھے۔ مالی حالت بہتر ہونے پر انہوں نے اپنے گھر کے قریب پھل اور سبزیوں کی ایک دکان کھول لی۔ ان کے والد نے دکان میں امام موسی صدر کی ایک تصویر آویزاں کر رکھی تھی۔ نصر اللہ فارغ وقت میں اپنے والد کا کاروبار میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ آپ دکان پر بیٹھنے کے دوران امام موسی صدر کی تصویر کو بڑے غور سے دیکھا کرتے تھے اور ہمیشہ ان کا دھیان اس تصویر پر رہا کرتا تھا۔ سید نصر اللہ کے بقول تصویر کو دیکھنے کے دوران وہ خوابوں کی وادی میں اتر جایا کرتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ امام صدر کے نقش قدم پر چلیں۔

سید حسن بچپن سے ہی اپنے ہم عمر بچوں سے مختلف تھے۔ وہ عام بچوں کی طرح فٹ بال کھیلنے یا تیراکی میں کو‏ئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے بچپن کے زمانے میں قارطینہ میں کوئی مسجد نہیں تھی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت نواحی علاقوں سن الفیل، باروج، حمود اور نابع کے علاقے میں موجود مساجد میں گزارتے تھے۔ اپنے خاندان کے باقی ارکان کے برعکس وہ انتہائی مذہبی نوجوان تھے۔ جب حسن کی عمر نو سال ہوئی تو بیروت کے شہر کے شہداء چوک میں سڑک کے فٹ پاتھوں پر ایرانی کتابوں کی دکانوں سے کتابیں خریدا کرتے تھے۔ ہر وہ کتاب پڑھنے کے شوقین تھے جو اسلام کے بارے میں ہو جب وہ ایک کتاب پڑھتے ہو‎‎ئے تھک جاتے تو اسے دوسری طرف رکھ کر نئ کتاب پڑھنا شروع کر دیتے۔ کتابیں پڑھتے پڑھتے یہ بچہ ایک خصوبصورت نوجوان میں تبدیل ہو گیا [۴۳]۔

تعلیم

انہوں نے نجف سکول سے میڑک کا امتحان پاس کیا۔ اس دوران 1975ء میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ان کا خاندان قاراطینہ سے ہجرت کرکے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہو گیا۔ حسن نصر اللہ نے صور پبلک سکول سے بارہویں کا امتحان پاس کیا۔

تنظیمی زندگی

قاراطینہ سے ہجرت سے قبل ان کا خاندان ایک غیر سیاسی خاندان تھا۔ حالانکہ اس زمانے میں اس علاقے میں بہت ہی فلسطینیوں اور لبنانی سیاسی پارٹیاں سرگرم تھیں۔ بصوریہ میں قیام کے دوران انہوں نے الامل میں شرکت کرلی۔ الامل میں شرکت کا فیصلہ ایک فطری عمل تھا کیونکا وہ امام موسی صدر کی شخصیت سے بڑے متاثر تھے۔ 15 سالہ لڑکا جلد ہی الامل میں اہم مقام حاصل کر گیا۔ انہیں تنظیم نے ان کے گاؤں کا نمائندہ منتخب کرلیا۔

حوزہ علمیہ نجف میں

صور کی مسجد میں ان کی سید محمد الغاراوی سے ملاقات ہوئی جو اس زمانے میں مسجد سے ملحقہ مدرسے کے سرابراہ تھے۔ انہوں نے الغاراوی سے عراق کے شہر نجف میں واقع ممتاز مذہبی تعلیم کے ادارے اہواز میں قرآنی تعلیمات کے حصول کے لیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اہواز کے مدرسے کی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر طالب علم کو اپنی مرضی کے مطابق استاد کے انتخاب کا حق حاصل ہوتا ہے۔ الغاراوی ممتاز عراقی مذہبی راہنما سید محمد باقر الصدر کے دوست تھے۔ انہوں نے نو عمر طالب علم کو ان کے نام کا ایک سفارش خط دیا۔ وہ بذریعہ ہوائی جہاز بغداد اور وہاں سے بس میں بیٹھ کر نجف پہنچے جب وہ نجف پنہچے تو ان کے پاس روٹی کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔

اس اجنبی شہر میں اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہ تھی۔ حسن نصر اللہ کے بقول اللہ ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جو انکساری اور پاکپازی کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ پانی کےساتھ روٹی کھاتے اور مسجد کی صف پر رات کو سوتے۔ اہواز پہنچنے پر لبنانی شہریوں سے ملاقات کی اور سید محمد باقر الصدر تک خط پہنچانے کے طریقے کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔ ان کے ہم وطنوں نے مشورہ دیا کہ سید عباس موسوی واحد شخصیت ہیں جو سفارشی خط سید صدر تک پہنچا سکتے ہیں۔ انہون نے موسوی سے ملاقات کا فیصلہ کرلیا۔ پہلی نظر میں گہری رنگت کے حامل موسوی انہیں عراقی لگے۔ انہوں نے نہایت کلاسیک عربی زبان میں ان سے گفتگو شروع کی۔ موسوی کو جلد اندازہ ہو گیا کہ نوارد شاگرد انہیں عراقی تصور کر رہا ہے۔ انہوں نے سید حسن کو کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ لبنانی ہیں۔ نصر اللہ کی خواہش پر سید باقر الصدر نے موسوی کو ان کا استاد مقرر کیا۔ سید محمد الغاراوی کے سفارشی خط دیکھنے کے بعد شہید صدر نے ان سے پوچھا کہ ان کے پاس ضروریات زندگی کے لیے پیسے ہیں؟ حسن نصر اللہ نے جواب دیا کہ ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ نصر اللہ کا جواب سن کر شہید صدر نے موسوی کو ہدایت کی انہیں رہنے کے لیے کمرہ مہیا کیا جائے اور ان کا خیال رکھا جائے۔ پھر سید باقر الصدر نے کپڑے اور کتابیں خریدنے کے لیے انہیں پیسے دئیے اور ان کی ضروریات زںدگی کے لیے وظیفہ مقرر کر دیا۔

جید علماء سے ملاقاتیں

حسن نصر اللہ نے جید علماء اور سیاسی شخصیت سے ملاقاتیں کیں، ان میں روح اللہ خمینی جیسی عہد ساز شخصیت بھی شامل ہے۔ نجف میں قیام کے دوران مقتدی الصدر کے والد سید صادق الصدر سے بھی ملاقات ہوئی جو ان کے استاد تھے۔ اس زمانے میں ان کی ملاقات آیت اللہ سید علی سیستانی سے بھی ہوئی۔

شادی

انہوں نے 1979ء میں شادی کی، ان کی بیوی کی ننھیالی عزیزہ ہیں، ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے ہادی نے 1997ء میں جنوب لبنان میں یہودیوں سے ایک جھڑپ میں جام شہادت نوش کیا۔

عراق سے ملک بدر

1978ء میں عراقی حکومت نے عراق میں تعلیم حاصل سینکڑوں لبنانی طلباء اور اساتذہ کو ملک بدر کردیا، ان میں نصر اللہ اور عباس موسوی بھی شام تھے۔ موسوی نے لبنان میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ نصر اللہ نے اس مدرسے سے تعلیم حاصل کی اور یہاں استاد بھی رہے۔ حوزہ علمیہ نجف میں 2 سالہ قیام نے نصر اللہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

اسرائیل کے مسلح جد و جہد کا آغاز

1982ء میں اسرائیل کے لبنان پر حملے کے خلاف مسلح جد و جہد کا باقاعدہ آغاز کیا۔ انہوں نے منتشر جہادی گروپوں کو متحد کیا اور حزب اللہ کا جہادی ونگ ترتیب دیا اور اسرائیل مخالف جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔

حوزہ علمیہ قم ایران میں

1987ء لبنان میں ایک بار پھر تشدد کی لہر پھیل گئی۔ انہوں نے حالات سے مایوس ہوکر اپنی مذہبی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران چلے گئے جہاں انہوں نے قم کے عالمی شہرت کے حامل ادارے سے اسلامی قانون اور فقہ کی ڈگری حاصل کی۔ 1989ء میں لبنان واپس آگئے اور اپنی جہادی سرگرمیوں میں دوبارہ مصروف ہوگئے۔ انہیں ممتاز لوگوں کی سوانح عمریاں پڑھنے کا انتہائی شوق ہے جن میں اسرائیلی رہنما ایریل شیرون اور ناتن یاہو بھی شامل ہیں۔ وہ اسرائیلی رہنماؤں کی سوانح عمریاں اس لیے پڑھتے تھے تاکہ وہ اپنے دشمن کے مقاصد اور ان کے کام کرنے کے انداز کو سمجھ سکیں۔ لبنان واپسی پر شام کے لبنان میں کردار کے حوالے سے ان کے اپنے استاد اور حزب اللہ کے رہنما عباس موسوی کے ساتھ اختلافات شروع ہوگئے۔ موسوی لبنان میں شام کے کردار کے حامی جبکہ نصر اللہ اس کے مخالف تھے۔ نصر اللہ کے ساتھیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ حزب اللہ نے پارٹی کے دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے اندیشے کے پیش نظر، نصر اللہ کو حزب اللہ کا تہران میں نمائندہ مقرر کرکے ایران بھیج دیا۔ 1991ء میں عباس موسوی کو حزب اللہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ اسی سال نصر اللہ بھی واپس آگئے لیکن اب شام کے بارے میں ان کے خیالات میں اعتدال آچکا تھا۔ 1992ء میں حزب اللہ کے جنرل سیکرٹری موسوی اسرائیلی فضائیہ کے حملے میں شہید ہوگئے اور ان کی جگہ حسن نصر اللہ کو حزب اللہ کا نیا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ************************************************************************************************************************

لبنان جمہوریہ لبنان (جمہوریہ لبنان) مشرق وسطیٰ اور بحیرہ روم کے مشرقی جانب ایک چھوٹا، خوبصورت اور پہاڑی ملک ہے۔ لبنان کی سرحد شمال اور مشرق سے شام اور جنوب سے اسرائیل سے ملتی ہے۔ لبنان کا جھنڈا ایک سبز دیودار کے درخت کی شکل میں ہے جس کے درمیان میں ایک سفید پس منظر ہے جس کے اوپر اور نیچے دو سرخ سرحدیں ہیں۔ خصوصی نسلی اور سماجی ڈھانچے کے مطابق، لبنان کا ایک خاص ڈھانچہ اور سیاسی نظام ہے، اور سیاسی طاقت مختلف نسلوں اور مذاہب میں تقسیم ہے ۔

لبنان کی خصوصیات

لبنان میں خانہ جنگیوں (1990-1975) سے پہلے، لبنان ایک پرامن اور خوبصورت ملک تھا، اور اس کا دارالحکومت، بیروت ، مشرق وسطیٰ کی دلہن کے طور پر جانا جاتا تھا، اور سیاحت ، زراعت ، اور بینکنگ سے ملک کی آمدنی سازگار تھی۔ بیروت کو عرب دنیا کا بینکنگ دارالحکومت سمجھا جاتا تھا اور اسے مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا تھا۔ قدرتی حسن اور اچھی سیکورٹی نے خانہ جنگیوں سے پہلے لبنان میں غیر ملکی سرمائے کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا اور بیروت کو بعض لوگ مشرق وسطیٰ کا پیرس بھی کہتے تھے۔

جغرافیائی محل وقوع

لبنان ایشیا کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ہے اور اس کا بحیرہ روم کے ساتھ 225 کلومیٹر طویل ساحل ہے۔ لبنان کی شام کے ساتھ 375 کلومیٹر اور اسرائیل کے ساتھ 79 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے ۔ لبنان کی جنوبی سرحد کا ایک حصہ جو اب بھی اسرائیل کے قبضے میں ہے ، شیبہ کے میدان کہلاتا ہے۔ لبنان کا رقبہ 10,452 مربع کلومیٹر ہے اور رقبے کے لحاظ سے یہ دنیا کے ممالک میں 166 ویں نمبر پر ہے۔ لبنان میں ہلکی بحیرہ روم کی آب و ہوا ہے جس میں سرد اور برساتی سردیوں اور گرم اور مرطوب گرمی ہیں۔ لبنان میں بارش اور برف باری کی مقدار زیادہ ہے۔ لبنان کے مغربی پہاڑوں کے مقابلے مشرقی اور شمالی حصوں میں سمندر سے دوری کی وجہ سے کم بارشیں ہوتی ہیں۔ لبنان میں دیودار کے درختوں کے وسیع جنگلات ہیں، جو لبنان کی قومی علامت بن چکے ہیں۔ لبنان میں 6 صوبے اور 25 اضلاع شامل ہیں۔ علاقے خود کئی علاقوں میں تقسیم ہیں، جن میں کئی شہر اور دیہات بھی شامل ہیں۔ لبنان کے صوبوں میں صوبہ بیروت (جو صرف بیروت شہر تک محدود ہے)، صوبہ بیکا (جس میں ہرمل، بعلبیک ، ظہلیہ، مغربی بیکا اور رئیسہ شامل ہیں)، صوبہ نباتیہ ( جیبل امیل ) شامل ہیں، جس میں نباتیح، حسبیہ، مرجعون اور نبیت شامل ہیں۔ شمالی صوبے (الشمال) میں 7 اضلاع عکر، طرابلس، زغرتہ، بشریٰ، البطرون، الکورا اور المنیہ شامل ہیں، اور جنوبی صوبے (الجنوب) میں سیدہ، طائر اور جیزین شامل ہیں۔ اور صوبہ ماؤنٹ لبنان (جبل البنیہ) میں جمیل، کسروان، متن بابدہ، عالیہ اور الشمف شامل ہیں۔

آبادیاتی اور مذہبی ڈھانچہ

سیاسی اور مذہبی حساسیت کی وجہ سے لبنان میں 1932 تک کوئی سرکاری مردم شماری نہیں کی گئی۔ تازہ ترین اعدادوشمار (جولائی 2006) کے مطابق لبنان کی آبادی 000 ہے۔ 874. 3 کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ لبنان کی آبادی کا 60% مسلمان ( سنی ، شیعہ ، ڈروز اور علوی ) اور 40% عیسائی (زیادہ تر مارونائٹ ، یونانی آرتھوڈوکس ، یونانی کیتھولک ، آشوری، اور اریزی) ہیں۔ لبنان میں کردوں کی ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے جو شمالی شام اور جنوب مشرقی ترکی سے ہجرت کر کے آئے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 75,000 سے 100,000 کے درمیان لوگ سنی علاقوں میں رہتے ہیں۔ کرد حالیہ برسوں میں لبنانی حکومت کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ شیعہ لبنان کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔ لبنانی نژاد تقریباً 16 ملین لوگ پوری دنیا میں رہتے ہیں۔ برازیل میں لبنانی کمیونٹیز سب سے زیادہ ہیں۔ ارجنٹائن، آسٹریلیا، کینیڈا، کولمبیا، فرانس، انگلینڈ، میکسیکو، وینزویلا، اور ریاستہائے متحدہ میں بڑی لبنانی کمیونٹیاں ہیں۔ لبنان میں 1948 سے تقریباً 400,000 فلسطینی پناہ گزین رہ رہے ہیں۔

لبنان کی تاریخ

لبنان کی تاریخ 5000 قبل مسیح تک جاتی ہے۔ موجودہ لبنان سرزمین بابل میں واقع تھا ، جسے قدیم ترین انسانی برادریوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ لبنان نے بحیرہ روم کے ساحل پر رہنے والے فونیشینوں کی میزبانی کی۔ ایران کے بادشاہ سائرس کے بابل پر قبضہ کرنے کے بعد ، اس سرزمین پر دو صدیوں تک ایرانیوں نے حکومت کی ، لیکن سکندر اعظم ایرانی فوجوں کے ساتھ جنگ جیتنے میں کامیاب رہا اور صور شہر کو فونیشینوں کا دارالحکومت بنا دیا۔ لبنان پر کئی صدیوں تک ایرانیوں، مقدونیوں، رومیوں، بازنطینیوں، عربوں ، صلیبیوں اور عثمانیوں کی حکومت رہی۔ 400 سال تک لبنان عثمانی سرزمین میں تھا (جس علاقے میں گریٹر شام کہا جاتا ہے)۔ 1916 میں، یہ علاقے فرانسیسی خودمختاری کا حصہ بن گئے ( پہلی جنگ عظیم کے دوران )۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد شام اور موجودہ لبنان فرانس کے زیر تسلط تھے۔ 1 ستمبر 1926 کو فرانس نے جمہوریہ لبنان قائم کیا۔ یہ جمہوریہ شام کا الگ حصہ تھا اور اس پر فرانسیسیوں کا غلبہ تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ، برطانیہ نے نازی جرمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے شام اور لبنان میں فوج بھیجی۔ 26 نومبر 1941 کو اندرونی اور بیرونی دباؤ کے تحت فرانسیسی جنرل چارلس ڈوگال نے فرانس سے لبنان کی آزادی کو تسلیم کر لیا اور دو سال بعد نومبر 1943 میں انتخابات کے انعقاد کے بعد لبنان کی نئی حکومت نے کام شروع کیا اور 22 نومبر کو باضابطہ طور پر اس کا قیام عمل میں آیا۔ 1943. لبنان کی آزادی اعلان کیا گیا۔ آخری فرانسیسی فوجی 1946 میں لبنان سے نکلے تھے۔ 1943 سے ایک غیر تحریری قومی معاہدے کے مطابق صدر کا انتخاب عیسائیوں میں سے ہوتا تھا اور وزیراعظم کا انتخاب مسلمانوں میں سے ہوتا تھا۔ 1975 میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور یہ 15 سال تک جاری رہی اور اس نے بہت سے انسانی، معاشی اور سیاسی نقصانات چھوڑے اور لبنان کو ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک سے ایک ضرورت مند اور غریب ملک میں تبدیل کردیا ۔ خانہ جنگی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تخمینہ 150,000 سے 200,000 کے درمیان ہے۔ یہ جنگ 1990 میں طائف امن معاہدے پر دستخط کے ساتھ ختم ہوئی۔ جنگ کے دوران، عسکریت پسندوں اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ارکان (جو ستمبر 1972 میں بلیک فرائیڈے کے بعد لبنان میں رہ رہے تھے ) نے اسرائیل پر حملے کے لیے لبنان کا استعمال کیا۔ لبنان پر اسرائیل نے 1978 اور 1982 میں دو بار حملہ کیا اور اس پر قبضہ کیا ۔ اسرائیل نے 2000 تک جنوبی لبنان کے بڑے حصے پر کنٹرول کیا تھا جس کے بعد اسے لبنان سے دستبردار ہونا پڑا۔ اسرائیلی افواج کا انخلاء لبنانی حزب اللہ اسلامی مزاحمتی تحریک کی مزاحمت کا نتیجہ تھا ، جو 1982 میں ایک اہم اور بااثر فوجی، سیاسی اور سماجی قوت کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 425 کے مطابق اسرائیل کو لبنان سے نکل جانا چاہیے لیکن 18 سال تک غاصبانہ قبضہ جاری رکھا۔ شبہ فارمز اب بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔

ثقافت اور زبان

اپنی خاص سماجی ساخت اور مختلف نسلوں اور مذاہب کے وجود کی وجہ سے، لبنان میں متنوع اور مختلف ثقافتیں ہیں۔ عیسائی اکثر خود کو غیر عرب سمجھتے ہیں۔ لبنان میں آبادی کا ڈھانچہ موزیک ہے اور لوگوں کی ثقافت انہی اختلافات اور امتیازات سے جنم لیتی ہے۔ لبنان کو مغرب اور مشرق کی دو ثقافتوں کے درمیان ایک چوراہا سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ لبنان کی موجودہ ثقافت کی واضح تصویر ہے: مسلم، عیسائی، عرب اور آرمینیائی ثقافت کا مرکب ۔ لیکن لبنان میں غیر عرب ایسے ماحول میں پیدا ہوتے اور پروان چڑھتے ہیں جو مکمل طور پر عرب جدلیاتی ماحول ہے۔ زبان ، موسیقی ، فن اور ثقافت کے شعبے سے متعلق دیگر مسائل اگرچہ مختلف ہیں، لیکن وہ رواداری کے ساتھ شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ اگرچہ آج کے لبنانی نوجوان کی شکل مغربی اور جدید ہے اور وہ مشرق وسطیٰ کی روایات سے مختلف ہے۔ لیکن وہ اب بھی متحدہ لبنان کے وفادار ہیں۔ لبنان کی موجودہ ثقافت فونیشین، یونانیوں، اشوریوں، ایرانیوں، رومیوں، عربوں اور عثمانی ترکوں کی کئی ہزار سالہ ثقافت کا ایک کرسٹلائزیشن ہے اور پچھلی چند دہائیوں کے دوران فرانسیسی ثقافت کو بھی اس مجموعہ میں شامل کیا گیا ہے۔ لبنان ایک شاہراہ ہے جو یورپ کو مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کو مغرب سے ملاتی ہے اور لبنان کی سرکاری زبانیں عربی اور فرانسیسی ہیں۔

سیاسی نظام

لبنان میں سیاسی نظام پارلیمانی ہے۔ لبنان میں پارلیمانی نظام اس ملک کی مخصوص فرقہ وارانہ، سماجی اور مذہبی صورت حال سے متاثر ہے۔ یہ نظام اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ تمام نسلی گروہوں اور مذاہب کو سیاسی طاقت میں حصہ ملے۔ اس معاہدے کے مطابق صدر کا انتخاب میرونائٹ عیسائیوں میں سے ، وزیراعظم کا انتخاب سنی مسلمانوں میں سے، پارلیمنٹ کے اسپیکر کا شیعہ اور نائب وزیراعظم کا انتخاب قدامت پسند عیسائیوں میں سے ہوگا۔ لبنانی پارلیمنٹ کی 128 نشستیں ہیں، جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان برابر تقسیم ہیں۔ یہ معاہدہ طائف معاہدے (1990) کا نتیجہ ہے جس نے لبنان میں خانہ جنگیوں کا خاتمہ کیا۔ اس معاہدے سے پہلے سیاسی اقتدار میں عیسائیوں کا حصہ مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ پارلیمانی انتخابات ہر چار سال بعد ہوتے ہیں اور جیتنے والی پارٹی یا اتحاد کی طرف سے نامزد کردہ شخص وزیر اعظم بنے گا۔ لبنان کے صدر کو 6 سال کی مدت کے لیے پارلیمنٹ منتخب کرتی ہے۔ تاہم، الیاس ہاروی (1995) اور ایمل لاہود (2004) کی صدارتی مدت میں 3 سال کی توسیع کرتے ہوئے اس مسئلے کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔ لبنان کی عدالتی تقسیم نپولین قوانین (فرانسیسی عدالتی نظام) کے تابع ہے، لیکن مختلف مذاہب میں سے ہر ایک کی شادی ، طلاق وغیرہ سے متعلق قوانین کے حوالے سے اپنی عدالتیں ہیں۔

موجودہ پیشرفت

لبنان کا سیاسی ماحول اپنی خاص سماجی، نسلی اور مذہبی ساخت کی وجہ سے ہمیشہ بحران اور تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ لبنان کی تاریخ اور جغرافیہ نے اس خوبصورت اور چھوٹے ملک کے لیے خاص حالات کا تعین کیا ہے۔ طائف معاہدے (1990) پر دستخط کے ساتھ 15 سالہ تنازعات اور اندرونی خونریزی کے خاتمے کے ساتھ، لبنان ایک نئے دور میں داخل ہوا، اور خاص طور پر لبنان کے مرحوم وزیر اعظم رفیق حریری کی وزارت عظمیٰ کے دوران۔ جنگ کے بعد تعمیر نو اور معاشی حالات کی بحالی حکومت کے منصوبوں میں سرفہرست تھی اور اس عرصے کے دوران لبنان نے معاشی ترقی اور خوشحالی دیکھی۔ لبنان پر سیاسی طوفان ستمبر 2004 میں لبنانی پارلیمنٹ کی طرف سے ایمیل لاہود کی صدارتی مدت میں تین سال کی توسیع کے ساتھ شروع ہوا ۔ ان کی صدارت کے تسلسل کے مخالفین شام اور دمشق کے زیر اثر اور رہنمائی میں پارلیمنٹ کو پارلیمنٹ کے فیصلے میں شامل سمجھتے تھے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 1559 کی منظوری اور امریکہ اور فرانس کی واضح مداخلتوں اور شام پر اندرونی اور بیرونی دباؤ میں اضافے سے پیشرفت مختلف انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ 14 فروری 2005 کو وزیر اعظم رفیق حریری کا قتل لبنان میں سیاسی تنازعات اور محاذ آرائی کا ایک اہم موڑ تھا۔ اگرچہ دو مختلف سیاسی نظریات اور رویوں کے حامل دو لبنانی گروہوں نے براہ راست فوجی اور مسلح تصادم سے گریز کیا ہے، لیکن لبنان کی صورت حال اب بھی بھڑکتی ہوئی اور غیر مستحکم ہے۔ 14 مارچ کے نام سے مشہور گروپ کے حامیوں کی جانب سے سڑکوں پر احتجاج کے آغاز کے ساتھ ہی، شامی فوج 29 سال کی فوجی موجودگی کے بعد لبنان چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔ لبنان میں پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی، شام کے مخالف گروپ المستقبل گروپ کے اتحاد میں موجودگی اور سیاسی اثر و رسوخ، جس کی سربراہی سعد حریری (مقتول وزیراعظم کے بیٹے) اور ولید جمبلاٹ (پروگریسو سوشلسٹ پارٹی کے رہنما) کر رہے ہیں۔ (اتنی مضبوط نہیں) اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب۔ جمبلاٹ کا حریری گروپ، جسے بعض لبنانی عیسائیوں کی حمایت بھی حاصل تھی، اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ حزب اللہ اور امل اور مشیل عون کے گروپ (فری نیشنل موومنٹ) سمیت حکمران اتحاد کے مخالف گروپ کے برعکس ، وہ پارلیمنٹ میں نسبتاً مضبوط اور بڑا بلاک حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ لبنان میں دو گروہوں کے درمیان تصادم معمول کے روزمرہ کے جھگڑوں سے بالاتر ہے اور یہ دو نظریات، رویوں اور سوچ کے طریقوں کے تصادم اور مخالفت کو ظاہر کرتا ہے۔ حریری کے قتل کے بعد ایک قرارداد جاری کرکے سلامتی کونسل نے ایک تحقیقاتی کمیشن کو ان کے قتل کے مرتکب افراد کی شناخت کا ذمہ دار بنایا۔ اپنی ابتدائی رپورٹ میں مذکورہ کمیشن نے حریری کے قتل کا ذمہ دار شام کے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی حکام کو ٹھہرایا تھا تاہم اس نے اپنی حتمی رپورٹ شائع نہیں کی۔ حریری کے قتل کے بعد شام میں فوجی موجودگی کے خلاف مظاہرے کئی ہفتوں تک جاری رہے، جب مغربی میڈیا نے یوکرین میں نارنجی انقلاب کی نقالی کرنے کی کوشش کی تاکہ ان مظاہروں کو عوام کی حزب اللہ، شام اور ایران کی مخالفت کو ظاہر کرنے کی جگہ بنایا جا سکے۔ جو یقیناً ایسا کرنے میں کامیاب رہے، انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ 14 مارچ کو حکمران گروپ اور اس کے غیر ملکی حامی (فرانس، امریکہ اور سعودی عرب) ۔ ) نے حزب اللہ پر شام اور ایران کے ساتھ تعلق کا الزام لگا کر اور ملیشیا گروپوں کو غیر مسلح کرنے کے بہانے حزب اللہ کو پسماندہ کرنے کی کوشش کی۔ 14 مارچ کے حکمراں گروپ اور اس کے حامیوں کی غلطی بھی اس حقیقت پر مبنی تھی کہ وہ حزب اللہ گروپ کے کردار، اثر و رسوخ اور شراکت پر توجہ نہیں دے رہے تھے اور انہوں نے حریری کے قتل کو حزب اللہ کو پسماندہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ لبنان میں شیعوں کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرنے کے علاوہ، حزب اللہ کا اسرائیل سے مقابلہ کرنے کا ایک شاندار ٹریک ریکارڈ ہے، جس کی وجہ سے مئی 2000 میں اسرائیلی فوج کا انخلا ہوا تھا۔ اور حال ہی میں 33 روزہ جنگ میں حمینی کو شکست دینا اور فوج کی طاقت لبنانی رائے عامہ میں زیادہ قابل قبول ہے۔ مزاحمتی تحریک کا تخفیف اسلحہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک کہ لبنانی سرزمین کا ایک ٹکڑا ابھی تک قبضے میں ہے اور اسرائیل کی طرف سے خطرات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے تحریک کی تخفیف کو ایک مضبوط، موثر اور صاف ستھری حکومت اور فوج کی تشکیل پر منحصر سمجھا ہے۔ پارٹی کے پاس اب لبنانی پارلیمنٹ میں 14 نشستیں ہیں اور کابینہ میں اس کے دو وزراء ہیں۔

سیاسی جماعتیں

سعد حریری کی قیادت میں مستقبل کا گروپ؛ ترقی پسند سوشلسٹ پارٹی جس کی قیادت ولید جمبلات (دروز کا نمائندہ) کر رہے ہیں؛ سابق جنرل مائیکل عون کی قیادت میں آزاد محب وطن تحریک (ان کے حامی زیادہ تر شمالی اور ماتان کے علاقے کے عیسائیوں میں سے ہیں اور انہیں سلیمان فرانجیہ اور شیل مور کی حمایت حاصل ہے، جو دو ممتاز عیسائی سیاستدان ہیں)؛ اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ 1982 میں قائم ہوئی تھی اور اس میں بنیادی طور پر جنوبی لبنان کے شیعہ شامل ہیں۔ سید عباس موسوی کے سابق سیکرٹری جنرل 1992 میں اسرائیلی دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد سے سید حسن نصر اللہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ حزب اللہ کے حامیوں کے اثر و رسوخ اور موجودگی کے علاقے زیادہ تر جنوب اور بیکا (مشرقی لبنان) اور عالیہ (صوبہ لبنان میں) ہیں۔ امل تحریک کو سیکرٹری جنرل نبیہ باری سے امید ہے جو کئی سالوں سے لبنانی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں۔ عمال تحریک لبنان میں شیعوں کے جسم کے ایک حصے کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ امل تحریک کا حزب اللہ سے گہرا تعلق ہے۔

33 دن کی جنگ

حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے درمیان 33 روزہ جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حزب اللہ نے لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر واقع اسرائیلی بیس پر حملہ کیا جس میں تین اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو دیگر فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل کا ردعمل لبنان پر زبردست فضائی حملہ تھا۔ اسرائیل نے غیر آباد علاقوں کو تباہ کرکے اور لبنان کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرکے جنگ کی مساوات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی۔ پلوں کی جنگ کے دوران، اسرائیل نے بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے، کارخانوں، سڑکوں اور بیروت کی بندرگاہ، اور بیروت کے جنوب میں رہائشی علاقوں کے ساتھ ساتھ جنوب اور مشرق کے قصبوں اور دیہاتوں پر بمباری کی۔ اس جنگ میں تقریباً 1200 لبنانی مارے گئے، 4400 زخمی اور 000 زخمی ہوئے۔ 300 افراد بے گھر ہو گئے۔ قرارداد 1701 کی منظوری کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور 14 اگست 2005 کو جنگ کا خاتمہ ہوا۔ زمینی محاذوں پر حزب اللہ کے جنگجوؤں کی مزاحمت اور استقامت اور 000 سے زیادہ لانچنگ۔ اسرائیل کے شمالی علاقوں پر 40 راکٹوں نے حزب اللہ کو، ایک عرب قوت اور تحریک کے طور پر، شمالی اسرائیل اور خاص طور پر اہم اور اقتصادی شہر حیفہ کو خوف اور عدم تحفظ میں ڈال دیا۔ جنگ کا نتیجہ ایک ایسی فوج کی شکست تھی جو اس آپریشن سے پہلے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کرتی تھی۔ لبنان میں سیاسی تنازعات اب بھی جاری ہیں، اور حریری کے قتل کے مقدمے کے قیام اور لبنان کے لیے نئے صدر کے انتخاب نے سیاسی منظر کو اب بھی سوگوار رکھا ہوا ہے۔ لبنان میں سیاسی اشتعال اور متنازعہ مسائل پر سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے لبنان میں کئی ماہ تک صدر کے بغیر حکومت رہی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی پوزیشن

اسلامی جمہوریہ کا سرکاری موقف ہمیشہ استحکام، علاقائی سالمیت اور اسرائیل کی زیادتیوں کے خلاف تمام لبنانی قوتوں کے اتحاد کو برقرار رکھنا رہا ہے۔ اسلامی انقلاب کا ظہور ان اسلام پسند اور مزاحمتی قوتوں اور دھاروں کے لیے ایک الہام تھا جو کئی دہائیوں سے پان عربی اور بائیں بازو اور زیادہ تر سیکولر دھاروں کے حاشیے پر تھے ۔ انقلاب کی فتح کے بعد خطے میں اسلام پسند اور عسکری قوتوں کی پہلی چنگاری 1982 میں لبنانی حزب اللہ اسلامی مزاحمتی تحریک کی تشکیل تھی۔ آج حزب اللہ لبنانی عوام کی قومی مزاحمتی تنظیم بن چکی ہے اور اسرائیل کے قبضے کے خلاف جدوجہد میں تحریک کا شاندار ریکارڈ حزب اللہ کے جنگجوؤں اور لبنانی شیعہ تنظیم کے لیے روحانی سرمایہ بن چکا ہے۔ حزب اللہ کی تشکیل کے بعد سے، اسلامی جمہوریہ نے مزاحمتی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی لڑنے والی افواج کی مسلح حمایت کے علاوہ، یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ حزب اللہ سماجی اور سیاسی میدانوں میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرے۔ اب تک اسلامی جمہوریہ پر اسلامی مزاحمتی تحریک کی حمایت کی وجہ سے امریکہ اور عالمی صیہونیت کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے ۔ 33 روزہ جنگ اور حزب اللہ کی کامیابی اور اسرائیل کی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی اور اس سے پہلے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کرنے والی فوج کے ہیم اور خوف کے ٹوٹنے کے بعد، حزب ا... عوام میں ایک پسندیدہ شخصیت بن گئی ہے۔ لبنان اور خطے کے بارے میں رائے۔ آج حزب اللہ ایک بااثر سماجی اور سیاسی قوت کے طور پر عالم اسلام کے عمومی مفادات کو فروغ دینے میں کامیاب رہی ہے ۔ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران امل تحریک کے ساتھ ایران کے تعلقات قریبی اور اچھے رہے ہیں۔

                                                                                                                                                                                                                                                  • ************************************************************************************************************************* ***********************************************************************************************************************

ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ، ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﮐﺎ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺩﮦ ﻣﻌﺒﺪ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻧﺒﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﯽ ﺷﮩﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴٰﯽ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻗﺒﻠﮧ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺗﮏ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﺥ ﮐﺮﮐﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔

وجہ تسمیہ

شہر بیت المقدس کا پرانا نام ایلیا ہے جس کے معنی ہے خدا کا شہر۔ مشہور شاعر عرب فرزدق اس سلسلے میں رقمطراز ہے خانۂ خدا جو ایک مکہ ہے جہاں ہم لوگ مقیم ہیں اور دوسرا وہ محل ہے جو ایلیا کی بلندیوں پر واقع ہے(بیت المقدس) ایلیاء نام ہے فرزند آدم اہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ مقدس: لغوی اعتبار سے مقدس کے معنی میں ہیں پاک و پاکیزہ اس طرح بیت المقدس کا مطلب ہوا پاک و پاکیزہ گھر یعنی وہ گھر جہاں گناہ اور ناپاکی کا ہرگز نہیں بلکہ وہاں پہنچ کر تو انسان گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ مقدس کے دوسرے معنی مبارک ہوتے ہیں یعنی مبارک گھر [۴۴]۔

بیت المقدس کی فضیلیتیں

بیت المقدس کی بے شمار فصیلتیں ہیں خداوند عالم نے قرآن مجید میں اپنے پیغمبروں او اسی سرزمین کا وعدہ کیا جیساکہ مندرجہ ذیل آیات سے بخوبی واضح ہے: وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ [۴۵]۔ یعنی ہم نے انہیں اور لوط پیغمبر کو اسی سر زمین میں نجات دی اسی سرزمین کو عالمین کے لیے بابرکت قرار دیا ہے۔

محل وقوع

ﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮩﺎﮌﯾﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮐﻮﮦ ﺻﯿﮩﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒۃ ﺍﻟﺼﺨﺮﮦ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﻮﮦ ﺻﯿﮩﻮﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﯽ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺗﺤﺮﯾﮏ ﺻﯿﮩﻮﻧﯿﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ محمد حسین مشاہد رضوی، بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ کی تاریخ

تاریخ

دنیا کے جن شہروں کی عزت و تکریم ہے ان میں سے ایک شہر یوروشلم ( بیت المقدس ) ہے جو مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے یکساں باعث عزت و احترام ہے ۔ یروشلم بمعنی خدائی حکومت ۔ اس کا نام القدس بھی ہے ۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا مزار، تخت دا‎ؤد اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تبلیغی کاوشوں کے نشان ملتے ہیں۔ ان کے علاوہ حضرات انبیاء کرام اور مصلحین کی یادگاروں کے آثار موجود ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کو بھلائی اور نیکی کے راستے دکھائے [۴۶]

ﻗﺪﯾﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﮭﺘﯿﺠﮯ ﻟﻮﻁ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻋﺮﺍﻕ ﺳﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ 620 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﺍﻣﯿﻦ ﮐﯽ ﺭﮨﻨﻤﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﮧ ﺳﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ۔ اس شہر کا ذرہ ذرہ مقدس ہے اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی ارض فلسطین کے فلاح بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکسان متبرک ہے [۴۷]۔

تعمیر

ﺣﻀﺮﺕ ﯾﻌﻘﻮﺏ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﻭﺣﯽ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ‏( ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ‏) ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﺍ۔ ﭘﮭﺮ ﻋﺮﺻﮧ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ‏( 961 ﻕ ﻡ ‏) ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﺪﯾﺪ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔

ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ

ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ 586 ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺑﺎﺑﻞ ‏( ﻋﺮﺍﻕ ‏) ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﻧﮯ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻻﮐﮫ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﺮﺍﻕ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺰﯾﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺬﺭ ﮨﻮﺍ، ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﻮ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺗﻌﺠﺐ ﻇﺎﮨﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺷﮩﺮ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﮔﺎ؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮭﺮ ﺁﺑﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﻖ ﺷﮩﺮ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺑﺨﺖ ﻧﺼﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ 539 ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﻓﺎﺭﺱ ﺭﻭﺵ ﮐﺒﯿﺮ ‏( ﺳﺎﺋﺮﺱ ﺍﻋﻈﻢ ‏) ﻧﮯ ﺑﺎﺑﻞ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﻮ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﮨﯿﺮﻭﺩ ﺍﻋﻈﻢ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺷﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﭘﮭﺮ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ۔ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﭘﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺭﻭﻣﯽ ﺟﺮﻧﯿﻞ ﭨﺎﺋﭩﺲ ﻧﮯ 70 ﺀ ﻣﯿﮟ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﻤﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔

بیت المقدس میں گرجے کی تعمیر

137 ﻕ ﻡ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯽ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﮨﯿﮉﺭﯾﻦ ﻧﮯ ﺷﻮﺭﯾﺪﮦ ﺳﺮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺳﮯ ﺟﻼ ﻭﻃﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﭼﻮﺗﮭﯽ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻣﯿﻮﮞ ﻧﮯﻋﯿﺴﺎﺋﯿﺖ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺟﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﮯ۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول

ﻣﺴﻠﻢ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺟﺐ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ، 2 ﮪ ﺑﻤﻄﺎﺑﻖ 624 ﺀ ﺗﮏ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺗﮭﺎ، ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺣﮑﻢ ﺍﻟٰﮩﯽ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﻌﺒﮧ ‏( ﻣﮑﮧ ‏) ﮐﻮ ﻗﺒﻠﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ 17 ﮪ ﯾﻌﻨﯽ 639 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻋﮩﺪ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺎﮨﺪﮮ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﮐﮯ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺻﺨﺮﮦ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﭘﺮ ﻗﺒۃ ﺍﻟﺼﺨﺮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ == 1099 ﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮ ﯾﻮﺭﭘﯽ ﺻﻠﯿﺒﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ 70 ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﮍﺍﯾﺎ۔

یہودیوں کا قبضہ

ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻗﺒﻀﮧ ﭘﮩﻠﯽ ﺟﻨﮓ ﻋﻈﯿﻢ ﺩﺳﻤﺒﺮ 1917 ﺀ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﺑﺎﺩ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻋﺎﻡ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﮮ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩ ﻭ ﻧﺼﺎﺭﯼٰ ﮐﯽ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﻧﻮﻣﺒﺮ 1947 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﻮﺍﻡ ﻣﺘﺤﺪﮦ ﮐﯽ ﺟﻨﺮﻝ ﺍﺳﻤﺒﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﮬﺎﻧﺪﻟﯽ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ 14 ﻣﺌﯽ 1948 ﺀ ﮐﻮ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﻋﺮﺏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﮐﮯ 78 ﻓﯿﺼﺪ ﺭﻗﺒﮯ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ، ﺗﺎﮨﻢ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ‏( ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ‏) ﺍﻭﺭ ﻏﺮﺏ ﺍﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﺍﺭﺩﻥ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﺌﮯ۔ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﻋﺮﺏ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﺟﻨﮓ ‏( ﺟﻮﻥ 1967 ﺀ ‏) ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﻘﯿﮧ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺗﺴﻠﻂ ﺟﻤﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﯾﻮﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮨﻨﻮﺯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻘﻮﻝ 70 ﺀ ﮐﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺣﺼﮧ ﺑﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺯﺍﺋﺮﯾﻦ ﺁ ﮐﺮ ﺭﻭﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯﺍﺳﮯ ” ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮔﺮﯾﮧ ” ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺏ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﻨﺼﻮﺑﮯ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ۔

ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ

ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻣﻘﺪﺱ ﺗﺮﯾﻦ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﻣﻘﺎﻣﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﻤﺴﺠﺪ ﺍﻻﻗﺼﯽٰ ﯾﺎ ﺍﻟﺤﺮﻡ ﺍﻟﻘﺪﺳﯽ ﺍﻟﺸﺮﯾﻒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﯾﺮﻭﺷﻠﻢ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ 5 ﮨﺰﺍﺭ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ 2000 ﺀ ﻣﯿﮟ ﺍﻻﻗﺼﯽٰ ﺍﻧﺘﻔﺎﺿﮧ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻣﻤﻨﻮﻉ ﮨﮯ –

معراج ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ

ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﻔﺮ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﺍﻣﺎﻣﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﺎﺕ ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯽ ﻓﺮﺿﯿﺖ 16 ﺳﮯ 17 ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺥ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﭘﮭﺮ ﺗﺤﻮﯾﻞ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺒﻠﮧ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔

ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ

ﻣﺴﻠﻢ ﺗﻌﻤﯿﺮﺍﺕ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻓﺘﺢ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﻧﮕﯽ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺻﺨﺮﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﻕ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻤﺮﺍﮨﯿﻮﮞ ﺳﻤﯿﺖ ﻧﻤﺎﺯ ﺍﺩﺍ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﻼﺋﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺳﻮﺭﮦ ﺑﻨﯽ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻞ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﻧﮯ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻭﺭ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ۔ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﺑﻦ ﻣﺮﻭﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻭﻟﯿﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﻠﮏ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺰﺋﯿﻦ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﮐﯽ۔ ﻋﺒﺎﺳﯽ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺍﺑﻮ ﺟﻌﻔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺮﺍﺋﯽ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺻﻠﯿﺒﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺭﺩ ﻭ ﺑﺪﻝ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺌﯽ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﻌﺒﺪ ﺳﻠﯿﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ، ﻧﯿﺰ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﺩﯾﮕﺮ ﻋﻤﺎﺭﺗﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﻮ ﺑﻄﻮﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺎﺝ ﮐﯽ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺟﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ 1187 ﺀ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼٰﯽ ﮐﻮ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﺸﺎﻧﺎﺕ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ۔

ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﺍﺱ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﻣﺼﻠﯽ ﯾﻌﻨﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﮐﻮ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻗﺼﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﺱ ﺟﮕﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﻋﻤﺮﺑﻦ ﺧﻄﺎﺏ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮬﻨﺎ ﺑﺎﻗﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻓﻀﻞ ﮨﮯ۔ “

ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ

ﺳﺎﻧﺤﮧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ 21 ﺍﮔﺴﺖ 1969 ﺀ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﻮﯼ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮈﯾﻨﺲ ﻣﺎﺋﯿﮑﻞ ﺭﻭﺣﺎﻥ ﻧﮯ ﻗﺒﻠۂ ﺍﻭﻝ ﮐﻮ ﺁﮒ ﻟﮕﺎﺩﯼ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﺗﯿﻦ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺗﮏ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻟﭙﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﻮﺏ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻋﯿﻦ ﻗﺒﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﺣﺼﮧ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻣﻨﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﺬﺭ ﺁﺗﺶ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺟﺴﮯ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﯾﻮﺑﯽ ﻧﮯ ﻓﺘﺢ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﻘﺪﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﺼﺐ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ۔ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﻗﺒﻠﮧ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 16 ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻟﮍﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻣﻨﺒﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﺼﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔

ﺍﺱ ﺍﻟﻤﻨﺎﮎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺍﺏ ﻏﻔﻠﺖ ﻣﯿﮟ ﮈﻭﺑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻧﺤﮯ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻣﻮﺗﻤﺮ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻣﯽ ‏( ﺍﻭ ﺁﺋﯽ ﺳﯽ ‏) ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﺩﯼ۔ ﺗﺎﮨﻢ 1973 ﺀ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﻻﮨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺟﻼﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ 56 ﺍﺳﻼﻣﯽ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺗﻨﻈﯿﻢ ﻏﯿﺮ ﻓﻌﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔

ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﻮ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﺩﮦ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺬﺭﯾﻌﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﮯ ﮐﮧ ﮨﯿﮑﻞ ﺳﻠﯿﻤﺎﻧﯽ ﯾﮩﯿﮟ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺗﮭﺎ –

  1. ur.irna.ir/news
  2. https://ur.wikipedia.org/wiki
  3. https://urdu.sahartv.ir/news/iran-i426358
  4. https://urdu.sahartv.ir/news/iran-i426358
  5. https://urdu.sahartv.ir/news/iran-i426358
  6. https://urdu.sahartv.ir/news/iran-i426358
  7. پوری دنیا کو اسرائیل کی بربریت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، https://ur.irna.ir/news/85255709/۔
  8. پوری دنیا کو اسرائیل کی بربریت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے، https://ur.irna.ir/news/85255709/۔
  9. imam-khomeini.ir/ur
  10. minhaj.org
  11. minhajbooks.com ۔
  12. wikipedia.org
  13. wikipedia.org
  14. wikipedia.org
  15. wikipedia.org
  16. عبدالمتین لیاری،انجینئرمحمد علی مرزا: چند گزارشات darululoomdeoband.com
  17. انجینئر محمد علی مرزا کا جامعہ عروۃ الوثقیٰ کا دورہ، islamtimes.org
  18. سرتاج حفیظ راٹھور،فرقہ وارانہ رجحانات اور خطہ پیر پنجال کے مسلمان، pirpanjalpost.com
  19. wikipedia.org
  20. wikipedia.org
  21. wikipedia.org
  22. wikipedia.org
  23. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص33
  24. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص35
  25. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص36
  26. شرف الدین موسوی، افق گفتگو، 1430ق، ص36
  27. شرف الدین موسوی، انبیاء قرآن، 1423ق، ص290
  28. شرف الدین موسوی، اٹھو قرآن کا دفاع کرو، 1420ق، ص40
  29. شرف الدین موسوی، مثالی عزاداری کیسے منا‏‎ئیں؟ 1423ق، ص28
  30. شرف الدین موسوی، دارالثقافہ سے عروۃ الوثقی، 1425ق، ص23
  31. شرف الدین موسوی، غشوانہ فرمان شگری، 1444ق، ص29
  32. شرف الدین موسوی، خطداحیون، ص 34
  33. شرف الدین موسوی، غشوانہ فرمان شگری، 1444ق، ص29
  34. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  35. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  36. حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ شیخ محسن علی نجفی دام ظلہ، balaghulquran.com
  37. جمعیت علماء اسلام ایک تاریخی تسلسل juipak.org.pk
  38. محمد نصیرالحق ہاشمی، اسلامی نظریاتی کونسل، dailypakistan.com.pk
  39. shahekhurasan.blog.ir
  40. darulifta-deoband.com
  41. kitabfarosh.com
  42. محمد حسن بٹ، جدید اسرائیل کی تاریخ، لاہور علی فرید پرنٹرز، 2007م، ص9-10
  43. محمد اسلم لودھی، اسرائیل ناقابل شکست کیوں؟ وفا پبلی کیشنز، 2007ء،ص47
  44. بیت المقدس تاریخ کے آئینے میں، سازمان تبلیغات اسلامی، 1404ھ، ص4
  45. انبیاء، 71
  46. محمد اویسی رضوی، بیت المقدس، قطب مدینہ پبلی شرز، 2004ء، ص6
  47. ممتاز لیاقت، تاریخ بیت المقدس، سنگ میل پبلی کیشنزز لاہور، 1972ء، ص21